"FBC" (space) message & send to 7575

ہمیں تو اپنے بچوں کا بھی خیال نہ رہا

باتوں کی حد تک آج ایک مرتبہ پھر بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ وہی بچے جن کے ہونے سے زندگی کا احساس ہوتا ہے۔جن کی مسکراہٹ میں ہمیں پوری دنیا چھپی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جب وہ ہنستے ہیں تو ہمارے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ جب وہ روتے ہیں تو ہماری جان پر بن آتی ہے۔ کیا کیجئے کہ ہم نے قدرت کی اس حسین ترین تخلیق کا مستقبل بھی داؤ پرلگا دیا ہے۔ نہ جانے ہم نے کون سی پٹری پکڑ لی ہے کہ اس پر اندھوں کی طرح بگٹٹ بھاگے چلے جارہے ہیں۔ مفادات کے کھیل‘ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس اور اقتدار کی خواہش نے تو جیسے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ بس میں فلاں سے آگے نکل جاؤں‘ میں اُس سے زیادہ طاقتور بن جاؤں۔ اس چکر میں ہم نے اپنی زندگیاں تو خراب کی ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ شاید آپ کو یقین تو نہ آئے لیکن حقیقت میں ہم ایسے ملک کے باسی بن چکے ہیں جہاں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد سولہ ملین کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے۔ ہم اس ملک کے باسی بن چکے ہیں جو بچوں کی حالت زار کے حوالے سے ایشیائی ممالک کی فہرست میں انتہائی نچلے نمبروں ہے۔ ملک میں تعلیم سے محروم بچوں کی بات کی جائے تو ان کی تعداد 24ملین کے قریب جا پہنچی ہے۔ ذرا حساب تو لگائیے کہ یہ کتنی زیادہ تعداد ہے اور دعوے ہم دنیا کی عظیم ترین قوم ہونے کے کرتے رہتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہمارے بچوں کی کل تعداد کا تقریباً چالیس فیصد کے قریب حصہ تو سکولوں میں جاتا ہی نہیں اور جو جاتے ہیں‘ اُن کے لیے سہولیات کی کیا صورت حال ہے‘ یہ بھی جان لیجئے۔ ہمارے ملک میں 21سے 25فیصد سرکاری تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں تعلیم کے لیے اساتذہ انتہائی محدود تعداد میں دستیاب ہیں۔ نیشنل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 30سے 35فیصد سکولوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ تھوڑا اور آگے چلتے ہیں کہ 25فیصد سکولوں میں ٹائلٹ جیسی بنیادی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ بے شمار سکول ایسے ہیں جن کی اپنی چار دیواری بھی نہیں ہے اور چلے ہیں ہم دنیا کا مقابلہ کرنے۔
یہ وہ بچے ہیں جن کے بارے میں ہمارے آئین کا آرٹیکل 25اے قرار دیتا ہے کہ ان کی بنیادی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اب یہ ذمہ داری کس حد تک پوری کی جارہی ہے‘ اس کا اندازہ تو اعدادو شمار دیکھ کر بخوبی لگایا ہی جا سکتا ہے۔ اب جو بچے سکول نہیں جاتے تو پھر وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ بچے اپنا زیادہ وقت آوارہ گردی میں گزارتے ہیں اور اس دوران وہ شدید خطرات کی زد میں رہتے ہیں۔ ایسے خطرات کی زد میں جن پر بات کرنا ہم اپنی اخلاقی اقدار کے منافی خیال کرتے ہیں۔ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صحافت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران بے شمار مواقع پر ایسے بچوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا جو ہماری ''بہترین اخلاقیات‘‘ کا نشانہ بن چکے تھے۔ افسوس افسوس افسوس کہ ان میں سے کئی ایک تو ایسے تھے جو اُن کی زیادتیوں کا نشانہ بنے جو ہمارے رہبر ہیں‘ وہ جن کی طرف ہم رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔ پابندیاں اجازت نہیں دیتیں کہ ایسے افراد کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والوں کے بارے میں کھل کر بات کی جا سکے ورنہ صورت حال انتہائی‘ انتہائی‘ انتہائی دگرگوں ہے۔ اس افسوس ناک کام میں وہ بھی پیچھے نہ رہے جن کا فرض ایسے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کسی این جی او کی ایک رپورٹ نظر سے گزری تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے بیشتر غیراخلاقی واقعات میں وہ افراد ملوث ہوتے ہیں جو انہیں تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور تو اور بچوں کے ساتھ ہونے والے غیراخلاقی واقعات میں قریبی عزیز و اقارب کے ملوث ہونے کے بھی بے شمار واقعات سامنے آچکے ہیں۔ دراصل جو ہمارے اردگرد ہوتے ہیں‘ اُن پر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ بہت اچھے لوگ ہیں تو بس یہی اعتبار اور اعتماد ہمیں زندگی بھر کا دکھ دے جاتا ہے۔ اُف میرے خدا‘ کون لوگ ہیں یہ جنہیں پھولوں کو مسلتے ہوئے رتی برابر بھی ملال نہیں ہوتا۔ جنہیں دنیا کے قانون کا کوئی خوف رہتا ہے نہ اللہ تعالی کا خوف اُنہیں اپنی حرکات سے باز رکھ پاتا ہے۔ یہ بات پلے باندھ لیجئے کہ اپنے بچوں کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری ہماری ہے۔
چلیں یہ تو بچوں کے حوالے سے مجموعی طور پر کچھ باتیں ہوگئیں‘ اب اپنی بچیوں کے بارے میں بات کر لیتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ گردان نہیں کرتا رہتا کہ ہمارا مذہب خواتین کے حقوق کے حوالے سے بہترین ہے۔ بے شک حقیقت بھی یہی ہے لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی عملی شکل کہاں دکھائی دیتی ہے؟ ہمارا سیاپا ہی یہی ہے کہ ہم مثالیں دیتے ہوئے تو تھکتے نہیں لیکن عمل میں ہم شاید دنیا بھر میں سب سے پیچھے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ نظروں کے سامنے پڑی ہے جو بتاتی ہے کہ بچیوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان ایشیائی ممالک کی فہرست میں انتہائی نچلے نمبروں پر ہے۔ افغانستان اور بنگلہ دیش بھی پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کیا اس پر ہمیں ماتم نہیں کرنا چاہیے کہ تینوں کے تینوں مسلم ممالک ہیں۔ ان ممالک کے کسی عالم دین سے بچیوں کے حقوق کے حوالے سے بات کر لیں‘ وہ دلائل کا انبار لگا دے گا لیکن عملاً جو صورت حال ہے‘ وہ ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ دوسری طرف سنگاپور‘ ویت نام‘ جاپان جیسے ممالک اس فہرست میں اوپرکے نمبروں پر ہیں۔ اب آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ان ممالک میں رہنے والوں کی بڑی تعداد کس مذہب کی پیروکارہے۔ دل تھام کر سنیے کہ اس رپورٹ کے مطابق ہماری بچیوں کی تقریباً نصف تعداد ہی تعلیم حاصل کر پاتی ہے۔ چائلڈ لیبر اور کم عمری کی شادیوں کے اعتبار سے بھی ہمارا ریکارڈ انتہائی تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ یقینا اس رپورٹ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے آخر ہم اختلاف بھی کس حد تک کر پائیں گے؟ ہمیں خوب معلوم ہے کہ بڑی بڑی باتوں سے ہٹ کر ہم عملاً کیا کررہے ہیں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ باتوں کی حد تک تو ہم تارے بھی توڑ لاتے ہیں لیکن عملاً ہماری کارکردگی صفر ہے۔
ہمارے ملک میں بچوں کے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے اور ہم ہیں کہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کیا ِایسی صورت حال پر آسمان سرپر نہیں اُٹھا لینا چاہیے؟ یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہمیں سوائے سیاست کے کچھ اور سوجھتا ہی نہیں۔ صبح سیاست‘ شام سیاست‘ رات سیاست۔ او اللہ کے بندو‘ اُن مسائل کو بھی تو اُٹھاؤ جنہوں نے ہماری زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔ دراصل جب تک میڈیا ہمارے معاشرتی بالخصوص بچوں کے مسائل کو نہیں اُٹھائے گا‘ تب تک یہ چپ طویل تر ہوتی چلی جائے گی۔ چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ ہماری عوام بھی سیاسی مارا ماری اور اِس پر ہونے والی گفتگو کا مزہ لیتی ہے لیکن کبھی کبھار دیگر مسائل پر بھی بات ہونی چاہیے۔ آپ خود ہی بتائیے کہ کیا بچوں سے بڑھ کو ہمارے لیے کوئی اور اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے؟ اب اگر ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کررہے ہیں تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ شاید ہم نے ٹھان لی ہے کہ ہم نے کوئی ڈھنگ کی بات کرنی ہے نہ سننی ہے۔ اگر کبھی یہ کہا جائے کہ اس صورت حال میں بہتری کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین اپنے وسائل کے مطابق بچے پیدا کریں‘ بس یہ کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان مخالفت کرنے والوں کو ہم نے خود کئی ایک مواقع پر قہقہے لگاتے دیکھا ہے کہ اُن کے دوچار بیانات نے ہی فیملی پلاننگ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ خدا کے لیے سوچئے‘ سوچئے‘ سوچئے۔ اپنے بچوں کو تعلیم کی محرومی سے اور چائلڈ لیبر سے بچائیے۔ انہیں اچھا مستقبل دیجئے۔ یہ سب کچھ اُسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب وسائل کے مطابق بچے پیدا کیے جائیں۔ جب تک ہم اس بات کو نہیں سمجھ پائیں گے تب تک ہمارے بچوں کی حالت زار میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کی ہمیں اُمید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں