"FBC" (space) message & send to 7575

اخلاقیات اور جمہوریت کے دعویدار

وہ ہمیں بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور ہم خوشی خوشی بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔ وہی جو ہمیں شدومد سے بتاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کے اصل چیمپئن تو وہی ہیں‘ باقی سب تو ایسے ویسے ہی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر ہم ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت چاہتے ہیں تو اُنہیں اقتدار میں لانا ہی ہوگا ورنہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ مطلب اگر اقتدار میں کوئی اور ہوا تو جمہوریت خطرے میں اور اگر ہم ہوئے تو پھر جمہوریت کوستے خیریاں۔ اس کی تازہ ترین مثال ملکی سیاست کے ایک اہم کردار مولانا فضل الرحمن کے ایک بیان کی صورت سامنے آئی ہے۔ مولانا صاحب جب تک اقتدار کی غلام گردشوں سے دور رہے تب تک ایک دن کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ ایک موقع پر تو وہ مہنگائی کے خلاف مارچ لے کر اسلام آباد تک جا پہنچے تھے۔ خدا نے سن لی تو پہلے پی ڈی ایم کے سربراہ چن لیے گئے جن کی سربراہی میں عمران خان کو رخصت کرنے کی تحریک خوب زور و شور سے چلائی گئی۔ دیگر کئی اطراف سے بھی تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کا ڈول ڈالا جا چکا تھا جس کے نتیجے میں بالآخر تحریک انصاف کی حکومت رخصت ہوگئی۔ مطلب عمران خان کی موجودگی میں جمہوریت کو جو خطرہ لاحق تھا‘ وہ تقریباً تقریباً ختم ہوگیا۔ سابقہ حکومت کی رخصتی کے بعد سے اب راوی ''چین ہی چین‘‘ لکھ رہا ہے۔ مہنگائی بھی سابق دور حکومت کی نسبت ''بہت کم‘‘ ہو چکی ہے۔ جمہوریت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی ہے اور اب اس کو کسی طرف سے کوئی ''خطرہ‘‘ لاحق نہیں ہے۔ صورت حال تو اتنی ''بہتر‘‘ ہوگئی ہے کہ صرف 7ارب ڈالر کا زرِمبادلہ رہ جانے کے باوجود ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے مانسہرہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر اِن امور کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا ہے کہ سابقہ حکومت کی رخصتی کے بعد ملک بڑے بحران سے نکل آیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح سے ملک کے اندر افراتفری پیدا کی جارہی تھی اور ملک کمزور تر ہوتا چلا جارہا تھا‘ اِس صورت حال سے نکلنے کے لیے اُنہیں اقتدار میں آنا پڑا۔ بقول اُن کے اُنہوں نے ریاست کی بقا کی جنگ لڑی ہے جس کے باعث ملک خطرناک صورت حال سے نکل آیا ہے۔ یہی جمہوریت کی اصل روح ہوتی ہے کہ اپنے نہیں ملک کے مفاد کو دیکھا جائے۔
اب ظاہر ہے کہ جب ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا ہے۔ معاشی مسائل حل ہو چکے ہیں اور روپیہ روز بروز مضبوط ہوتا چلا جارہا ہے تو اِس کے ثمرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہ'' اچھی‘‘ صورت حال کے ہی ثمرات رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا کی گورنر شپ بھی مولانا صاحب کے خاندان میں آچکی ہے۔ ایک صاحبزادے زبیر علی پشاور کے میئر ہیں تو دوسرے صاحبزادے اسد محمود وفاقی وزارتِ مواصلات سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ جمہوریت اور ملک بچانے کے لیے جتنی ''قربانی‘‘ دی گئی‘ اُس کے پیش نظر تو یہ عہدے پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ اسی لیے پیشگی طور پر بھائی عطاالرحمن کو سینیٹ کی رکنیت پہلے ہی دلوائی جا چکی تھی جس کے ساتھ اُنہیں کے پی کا جماعتی امیر بھی مقرر کرنا پڑا۔ خیر یہ تو ملک وقوم کے لیے مولانا کی شاندار خدمات کا معمولی سا معاوضہ ہے لیکن آپ یہ دیکھئے کہ اُنہوں نے خود کوئی عہدہ نہیں لیا۔ اُن کی طرف سے تو یہاں تک قرار دیا جا چکا ہے کہ جمہوریت کا چیمپئن ہونے کے دعویدار نے خود اپنی جماعت کے اندر بدترین ڈکٹیٹر شپ قائم کررکھی ہے۔ ہم تو خیر اُن سے ہرگز متفق نہیں ہیں کیوں کہ صرف چالیس‘ بیالیس سال سے ہی تو وہ جماعت کے طاقتور ترین عہدے پر فائز ہیں۔ اتنے مختصر سے وقت میں کہاں یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کوئی جمہوری روایات پر یقین رکھتا ہے یا نہیں۔ ہم تو اِس حق میں ہیں کہ ابھی مولانا صاحب کو مزید وقت ملنا چاہیے کیوں کہ ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے ہمیں مولانا صاحب کی بہت ضرورت ہے۔ کیا ہوا کہ اگردوچار مواقع پر اُن سے غلطیاں بھی سرزدہوئیں۔ یہی کہ پہلے وہ بینظیر بھٹو کے اقتدار کو شریعت کے خلاف قرار دیتے رہے اور بعد میں خود ہی اُن کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ کیا ہوا اگر 2013ء میں اُنہوں نے نواز شریف کی حکومت کو مقتدرہ کی پیداوار قرار دیا تھا لیکن پھر اُسی حکومت میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ مقررکیے گئے تو سب کچھ ٹھیک ہوگیا اور جمہوریت مضبوط ہوگئی۔ خیر یہ سب کچھ تو سیاست میں چلتا ہی رہتا ہے لیکن اصل مقصد تو ملک میں مضبوط جمہوری روایات کو فروغ دینا ہے جس کے لیے اُن کی طرف سے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
ہمیں تو اِس پر بھی اُن کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ اکثر عوام کی اخلاقی حالت سنوارنے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے اُن سیاسی جلسوں کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری رہتا ہے جس دوران وہ علم و حکمت کے موتی بکھرتے رہتے ہیں۔ ایسے کچھ موتی گزشتہ دنوں ہی تحریک انصاف والوں نے بھی چنے ہیں اور کچھ کچھ ثمرات دوسروں تک بھی پہنچے ہیں۔ ویسے تحریک انصاف والے تو ایسے ہی بھڑک رہے ہیں اور ان پر غیراخلاقی گفتگو کرنے کے الزام میں مقدمات درج کرانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مقدمات درج کرانے کی دھمکیاں دینے کے بجائے‘ تحریک انصاف والوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اس گفتگو سے اپنے فائدے کے پوائنٹس حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں صرف اس حد تک اختلاف ہے کہ براہِ کرم سیاسی جلسوں میں اُلٹے ناموں کا استعمال مت کیا کریں۔ یقینا سیدھا نام لینے سے بھی کارکن جوق در جوق پہنچیں گے۔ شاید یہ بھی مجبوری ہی ہے کہ عوامی سطح پر زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے نام بگاڑنا ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی درخواست اور ہے کہ براہِ کرم عوام کو سادگی کا سبق پڑھانے سے پہلے مہنگی گھڑیوں اور بہترین موبائل فون کو ذرا پرے رکھ دیا کریں کیوں کہ اِس سے ایسے ہی کچھ بے وقوف لوگ باتیں بنانے لگتے ہیں۔
باتوں باتوں میں یاد آیا کہ براہِ کرم ملک و قوم کے بہترین مفاد میں پلیز ایک مہنگائی مارچ اور نکالیں۔ آپ دیکھیں تو سہی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کے باوجود پاکستانی عوام کو اِس کے ثمرات سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ذرا دیکھئے تو ایک درجن انڈے خریدنے کے لیے بھی اب کم از کم 275روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ دیکھئے تو ڈالر کتنی اونچی پرواز کررہا ہے۔ پلیز ایک اور مہنگائی مارچ نکالیں تاکہ ان حکمرانوں کو بھی آٹے اور دال کا بھاؤ معلوم پڑ سکے کیوں کہ آپ تو ویسے بھی اقتدار کا حصہ نہیں ہیں۔ ہمیں اُمیدِ واثق ہے کہ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے آپ ضرور اپنا کردار ادا کریں گے اور عوام کو کم از کم مہنگائی سے ضرور نجات دلائیں گے۔ اس مقصد کے لیے اگر کچھ کوئی قربانی بھی دینا پڑی تو وہ اس سے کسی صورت گریز نہیں کریں گے۔ باقی رہے ہم عوام تو اُنہیں انگلیوں پر نچانا کون سا مشکل ہے کہ ہم تو ویسے بھی ڈھول کی آواز سنتے ہی تھرکنا شروع کردیتے ہیں۔ ناچ ناچ کر بے حال ہوتے رہتے ہیں اور مفادات سمیٹنے والے مفادات سمیٹتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ملکی مفادات اور جمہوریت کی ڈگڈگی بجتی رہتی ہے اور دوسری طرف پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتا ہے۔ جیسے ہی انگلیاں کڑاہی سے نکلتی ہیں تو جمہوریت ڈی ریل ہونے لگتی ہے۔ اخلاقی قدریں پامال ہونے لگتی ہیں اور ملک خطرے میں آجاتا ہے۔ ایسے میں جب اندر کی باتیں باہر نکلنے لگتی ہیں تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں کہ باتیں کیا کی جاتی رہیں اور اندر کھاتے کیا ہوتا رہا۔ بس یہی سلسلہ چلتا چلا آرہا ہے اور یقین رکھئے کہ ایسے ہی چلتا چلا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں