"FBC" (space) message & send to 7575

سیاسی استحکام

نوید سنائی جارہی ہے کہ جو ہوگیا‘ سو ہوگیا۔ اب ویسا کچھ نہیں ہوگا جو کچھ ہوتا رہا ہے۔ اب پچھلی باتیں بھلا کر آگے بڑھنے کا وقت ہے لیکن یہ نہیں سوچا جارہا کہ گئے وقتوں کے دوران جو کچھ ہوا ہے یااُس دوران جو نقصان ہوا‘ اُس کا ازالہ کیسے ہو گا۔ یہ نوید بھی پہلی بار نہیں سنائی جارہی‘ ماضی میں متعدد مواقع پر اِسی طرح کی باتیں کی جا چکی ہیں لیکن کبھی بھی ''فروٹ فل‘‘ نتائج برآمدنہ ہوسکے۔ سنتے ہیں کہ اب سیاست سے دوری کا پختہ ارادہ کرلیا گیا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ سیاست دان اپنے مسائل خود ہی حل کریں۔ معاملہ یہ ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ اِن دعووں کی صداقت تو کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی سامنے آئے گی لیکن آج یہ کہنا کہ سیاست میں مداخلت ضرورہوتی رہی ہے لیکن اب پالیسی بدل دی گئی ہے‘ اتنا آسان معاملہ نہیں ہے۔ یہ کوئی ایک آدھ سال کی کہانی نہیں بلکہ دہائیوں پر پھیلی ہوئی داستان ہے۔ آپ اسکندر مرزاسے شروع ہوکر عمران خان تک آجائیں۔ ہردور میں صرف کردار ہی تبدیل ہوئے‘ باقی حالات تو ایک جیسے ہی رہے ہیں۔ اِنہی چکروں میں آدھا ملک گنوا دیا گیا۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ خود ایوب خان کئی مواقع پر ایسی آرا کا اظہار کرتے رہے تھے کہ بنگالیوں سے پیچھا چھوٹ ہی جائے تو اچھا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ سیاچن کا کیا ہے‘ وہاں تو گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا۔ کیا کسی سیاستدان کی جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ خواب میں بھی ایسے خیالات کے اظہار کا سوچ سکے۔ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ کبھی احتسابی قوانین کی آڑ میں مخالفین کو سیاسی دوڑ سے باہر کیا گیا اور کبھی من پسند افراد کو اس طرح نوازا گیا کہ انہیں ملک و قوم کا ایک مسیحا بنا کر نہ صرف پیش کیا گیا بلکہ ان کی راہ کے کانٹے بھی چنے گئے۔
ہمیں وہ بھی نہیں بھولے جو اپنے وقت کے مقبول ترین وزیراعظم کے آگے جھک جھک کر کورنش بجا لایا کرتے تھے۔ پھر اِسی وزیراعظم سے جان چھڑانے کے لیے ایک تحریک کا ڈول ڈالا گیا۔ ہرروز بڑے بڑے جلوس نکلا کرتے تھے جس دوران لاہور میں کئی سینما گھروں کو آگ بھی لگادی گئی۔ اِن جلوسوں میں بے شمار افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ صرف استعمال ہورہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اُنہیں سڑکوں پر اتار کر دراصل اپنے مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ جب منتخب حکومت کو رخصت کر دیا گیا تو پھر یہ تحریک بھی ماضی کا حصہ بن گئی۔ پورے ملک پراُترنے والی یہ طویل اور سرد رات گیارہ سالوں پہ محیط رہی۔ وعدہ ان کا یہی تھا کہ بس نوے دن! اس دوران انتخابات کرا کے ملک منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے گا۔ نوے دنوں کا یہ وعدہ تقریباً گیارہ سالوں کے بعد ایک حادثے پر منتج ہوا، ورنہ شاید جانے کا اس وقت بھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ ایسا تاریک دور تھا کہ کئی صورتو ں میں ہم آج تک اُس کے اثرات بھگت رہے ہیں۔
اِس سے پہلے بھی ایک شب خون مارا گیا تھا۔ 7 اکتوبر1958ء کو، تب کے صدر اسکندرمرزا نے 1956ء کا آئین معطل کیا تھا اور ٹھیک بیس دن بعد خود بھی معطل کرکے لندن روانہ کردیے گئے۔ تب یہ کام جنرل ایوب خان کے ہاتھوں انجام پایا تھا۔ آئین معطل کرکے ایوب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب اقتدار و حکومت کو سیاستدانوں سے چھین کر براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیا گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اِس میں اسکندر مرزا کی بھی بہت بڑی غلطی تھی کہ اُنہوں نے اپنے ہاتھوں آئین معطل کر کے اس امر کا جواز فراہم کیا تھا۔ انہوں نے طاقتور بننے کی کوشش کی تھی اور اُنہیں پور ا یقین تھا کہ اُن کا دوست ایوب خان اُن کا بھرپور ساتھ دے گا لیکن افسوس دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے ۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ اقتدار میں کوئی اپنا شریک برداشت نہیں کرتا۔ یہ اعزاز بھی اسکندرمرزا کو ہی حاصل رہے گا کہ وہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایوانِ اقتدار کی راہ اداروں کو دکھانے کا باعث بنے تھے۔ آئین معطل کرنے کی فاش غلطی کے بعد وہ جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ادھر ایوب خان نے بھی ایک ایسی ہی غلطی کی اور اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار براہِ راست یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ اس سنگین غلطی کے نتائج ملکی تاریخ کے سب سے المناک سانحے کی صورت میں برآمد ہوئے۔ اسی طرح پرویز مشرف بھی طویل عرصے تک براہِ راست اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ وہی پرویز مشرف‘ جنہوں نے مالا کنڈ ڈویژن مولوی فضل اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں اپنی مرضی کا نظام نافذ کر لو۔
غیرآئینی طور پر اقتدار میں آنے والے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے بے شمار ایسے اقدامات کرتے رہے جن کے سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر انتہائی منفی اثرات برآمد ہوئے۔ آج ہم روشنیوں کے شہر کراچی کا حال دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ اِس کو اس حال تک پہنچانے میں کس کس نے کردار ادا کیا۔ اگر کوئی نہیں جانتا تو جان لے کہ اِس شہر بے مثال میں مخالف سیاسی قوتوں کا زور توڑنے کے لیے لسانی سیاست کی نہ صرف بنیاد رکھی گئی بلکہ اسے منظم انداز میں فروغ بھی دیا گیا اور طویل عرصے تک کراچی کے معاملات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے مافیاز کے حوالے کردیا گیا۔ اِس دوران وہاں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ روشنیوں کا شہر تاریکیوں کا شہر بن کر اب اپنے ماضی کی تلاش میں سر گرداں دکھائی دیتا ہے۔ جب دیکھا گیا کہ ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا تن آور درخت بن چکا ہے تو پھر اِس کی شاخیں کاٹنے کا عمل شروع کردیا گیا۔ آج وہ لسانی جماعت کئی حصوں میں بٹ چکی ہے اور اِس کا تنا لندن میں ہے۔اب پھر منتشر ہوجانے والوں کواکٹھا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن اِس سیٹ اَپ میں لندن والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ویسے موصوف کو جس مقصد کے لیے کھڑا کیا گیا تھا‘ وہ ذمہ داری نبھائی جا چکی ہے۔ جن سیاسی قوتوں کا زور توڑنا مقصود تھا‘ وہ توڑ دیا گیا۔ کاش کبھی سود و زیاں کا دفتر بھی کھولا جائے کہ اِس تمام عمل کے دوران اہالیانِ کراچی کو کیاکیا نتائج بھگتنا پڑے۔ یا پھر یہ کہ بھٹو کو ہٹانے کے لیے چلائی گئی تحریک اور اُس کے بعد طویل سیاہ دور نے ملک پر کیا اثرات مرتب کیے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں‘ ورنہ تو ملکی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا دور رہا ہو جب ایسی جوڑ توڑ جاری نہ رہی ہو۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے حوالے سے کئی سربستہ راز اب آشکار ہوچکے ہیں۔ 2017ء میں الیکٹ ایبلز نامی آزاد پرندوں کی اڑان دیکھ کر ہی سیاسی پنڈتوں نے اگلے ممکنہ سیٹ اَپ کی پیش گوئی کرنا شروع کر دی تھی لیکن کبھی یہ سوچا گیا کہ 'اسے ہٹا دو‘ اُسے لے آؤ‘ کے طرزِ عمل نے آج ملک کو کہاں پہنچا دیا ہے۔ جانے والے تو یہ کہہ کر چلے جاتے رہے کہ اب کوئی مداخلت نہیں ہوگی لیکن جو کچھ ہوتا آیا اور اُس کے نتیجے میں جو نقصانات ہوئے، اُنہیں بھی تو تسلیم کرنا چاہیے۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز سیاسی استحکام میں پنہاں ہوتا ہے۔ جب پچھتر سالوں سے سیاسی استحکام ہی نصیب نہ ہوسکا ہو توملک کے ترقی نہ کرنے پر گلہ کیسا؟ یہاں تو ہر حکومت نے اسی فکر میں اپنی مدت گزار دی کہ وہ اپنا دور پورا بھی کرسکے گی یا نہیں۔ ہمہ وقت سیاسی جھمیلوں میں الجھی حکومتوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف کیا توجہ دینا تھی؟ یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ سیاسی رواداری رہی نہ معاشی استحکام۔
اکثر یہ بات کی جاتی ہے کہ فلاں بھی فلاں کے کندھوں پر سوار ہوکر آیا تھا‘ فلاں نے بھی فلاں سے مدد حاصل کی تھی۔ لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوں کے دامن پر ایسے چھینٹے ملیں گے۔ خود عمران خان طویل عرصے سے حصولِ اقتدار کی دوڑ میں شریک تھے لیکن کامیابی تبھی ملی جب سر پر دستِ شفقت رکھا گیا۔ یہ الگ بات کہ آج راہیں جدا ہو چکی ہیں۔ اب اگر کوئی نئی نوید سنائی گئی ہے تو اِس پر اِس خوش گمانی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ خدا کرے کہ اب ایسا ہی ہو۔ اس کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی نہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اب اُس کا مداوا یا ازالہ تو کسی بھی صورت نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی اُمید ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں