"FBC" (space) message & send to 7575

گیند چودھری پرویز الٰہی کی کورٹ میں

سیاسی رہنماؤں کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی اور سیاسی داؤپیچ کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔ اس وقت ملک بھر میں پنجاب کی سیاست بہت اہمیت اختیار کرچکی ہے۔دیکھا جائے تو اِس وقت تحریک انصاف کی سیاست کا انحصار پنجاب ہی کی سیاست پر ہے ۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ اس کے زیرِ حکومت صوبوں میں فوری طور پر صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ پی ٹی آئی کے خیال میں دو صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے فوری انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی یوں تو کئی ایک مواقع پر اِس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ عمران خان کے ایک اشارے پر فوری اسمبلی توڑ دی جائے گی اور وہ اپنے اِس عزم پر مضبوطی سے قائم نظر بھی آرہے ہیں لیکن اندرکھاتے خواہش اُن کی بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسمبلیاں توڑے بغیر جتنا وقت گزر جائے‘ اُتنا ہی اچھا ہوگا۔ دیکھا جائے تو اُن کی یہ خواہش حقائق کے منافی نہیں ہے ۔ دراصل مختلف اشاریوں کے پیشِ نظر عمران خان اور اُن کی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اِس وقت وہ مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر فوری طور پر انتخابات ہوجائیں تو پھر کوئی طاقت اُنہیں دوبارہ برسرِاقتدار آنے سے روک نہیں سکتی۔ اِس تناظر میں تحریک انصاف کی بھرپورکوشش ہے کہ کسی طرح سے فوری عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوجائے۔ تحریک انصاف کے ہر احتجاج کی تان فوری عام انتخابات پر آن کر ہی ٹوٹتی ہے۔اِسی تناظر میں عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے سترہ دسمبر کو حتمی حکمت عملی کے اعلان کی شنید سنائی جاچکی ہے۔ واقفانِ حال کا خیال ہے کہ شاید حتمی اعلان سترہ دسمبر کو بھی نہ ہوسکے کیونکہ یہ بھی ویسا ہی جذباتی اقدام نظر آتا ہے جیسا اقدام تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے استعفے دے کر کیا گیا تھا۔ دیکھا جائے تو وہ اقدام تحریک انصاف کے گلے میں اٹک چکا ہے۔ دوسری جانب چودھری پرویزالٰہی اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے اُنہیں کم از کم اتنا وقت ضرورمل جائے کہ وہ اپنے جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کر سکیں۔اتنا وہ بہرحال جانتے ہیں کہ اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اِسی لیے ہرروز وہ کسی نہ کسی نئے منصوبے کا افتتاح کرتے نظر آتے ہیں ۔
عمران خان جانتے ہیں کہ جب تک پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی‘ تب تک اُن کا مطالبہ پور انہیں ہوسکتا۔سو چودھری پرویز الٰہی کو قائل کیے بغیر وہ کبھی بھی کے پی کی اسمبلی توڑنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے جہاں اُن کی جماعت برسرِاقتدار ہے۔ اب ایک طرف پی ٹی آئی قیادت اُنہیں اسمبلیاں توڑنے پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے تو وہیں دوسری طرف سیاسی مخالفین اُنہیں اِس سے باز رکھنے کی تگ ودو کررہے ہیں۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن تو برملا اِس کا اظہار کرچکے ہیں کہ پرویز الٰہی کبھی بھی اسمبلیاں توڑنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ اُنہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ اُن کی چودھری پرویز الٰہی سے ون آن ون ملاقات ہوچکی ہے اور اِس ملاقات میں ملک‘ خصوصاً پنجاب کی سیاست کے حوالے سے کھل کر گفتگو ہوئی ہے لیکن اِس کی تفصیل نہیں بتائی جاسکتی۔گورنرصاحب تفصیل نہ بھی بتائیں تو بہت سے راز اوپن سیکرٹ ہیں۔ جیسے یہ کہ اگر چودھری پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کی طرف جاتے ہیں تو اِس سے پہلے اُنہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جاسکتا ہے اور جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں کی جاسکتی ۔ ظاہری سی بات ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ممکنہ نتائج سے وزیراعلیٰ پنجاب بھی ناواقف نہیں۔ اِس تمام صورت حال میں وہ دونوں طرف اچھا کھیل پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف پنجاب کی حد تک تحریک انصاف اُن پر تکیہ کیے بیٹھی ہے تو دوسری طرف سیاسی مخالفین سے بھی ان کے رابطے برقرار ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی نیاطرزِ سیاست نہیں ہے کہ اُنہوں نے ہمیشہ سبھی کے ساتھ بنا کررکھی ہے۔ ہاں‘ یہ الگ بات کہ بوجوہ اُن کے چودھری شجاعت حسین سے راستے مختلف ہوگئے۔ یہ خاندانی اختلافات بھی بہت سے افراد کے لیے حیرت کا باعث بنے تھے لیکن جس بات پر دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے‘ وہ بھی چودھری صاحب بتا چکے ہیں کہ کس کے کہنے پر اُنہوں نے عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اِس تمام ملکی صورت حال میں بیانیہ سبھی کا وہی ہے ''ملک و قوم کا بہترین مفاد‘‘۔اِسی نام پر اپنے تمام تر اقدامات کی جائزیت تلاش کی جاتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے پس پردہ اپنی اپنی سیاسی حکمت عملیاں کارفرما ہوتی ہیں۔ پنجاب سے ہٹ کر دیکھا جائے تو بھی ملک بھر کی سیاست میں یہ سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔ ایک طرف بھرپورکوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح سے عمران خان کی مقبولیت کو زک پہنچائی جائے۔ عوام کو باور کرایا جائے کہ دیکھو تحائف کی فروخت کی آڑ میں خان صاحب نے کتنی بڑی بڑی بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ ہرروز اِس حوالے سے کوئی نہ کوئی نئی خبر ''بریک‘‘ کی جاتی ہے لیکن دیکھاجائے تو بات کچھ بن نہیں رہی۔ یہ سچ ہے کہ اِس حوالے سے کچھ نہ کچھ گڑبڑ تو ہوئی ہے‘ تبھی خان صاحب بار بار کہتے ہیں کہ میری گھڑی ‘ میری مرضی لیکن یہ ''میری مرضی‘‘ والا معاملہ ہرگز نہیں ہے۔ ایک طرف یہ معاملہ ہے تو دوسری طرف نیب ترامیم کے بعد جو کچھ ہوا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ آج معلومات کا ایک طوفان ہروقت موجزن رہتا ہے جس تک ہرکوئی آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔سب کو معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے اِسی لیے بہت سے روایتی بیانیوں میں اب سننے والوں کے لیے زیادہ کشش باقی نہیں رہ گئی۔ جیسے آج ملک کی معاشی حالت کا ذمہ دار سابق حکومت کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اِس بیانیے میں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ہرآنے والی حکومت ہمیشہ جانے والوں ہی کو موردِالزام ٹھہرایا کرتی ہے۔جب یہ حکومت جائے گی تو نئی آنے والی حکومت مسائل کے لیے اِسے ذمہ دار ٹھہرانے میں ایک لمحہ کا توقف بھی نہیں کرے گی۔
خیر حکومتیں بدلیں گی تو کارکردگی کی بابت ہونے والے سوالات حسبِ روایت اپنی موت آپ مرجائیں گے کہ یہی ہماری سیاست کا چلن ہے۔ یہاں ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ فی الحال تو تمام نظریں پنجاب پر جمی ہوئی ہیں کہ یہاں کے ایوانوں سے کیا صدا بلند ہوتی ہے۔ کب اِس فیصلے کا اعلان ہوتا ہے کہ وزن کس کے پلڑے میں ڈالا جائے گا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرنے سے گریز کا رویہ اپنایا جائے گا ؛ تاہم ایسا ہونے کی صورت میں عمران خان کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اب یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں کہ اِن حالات میں وہ کون سی ایسی نئی حکمت عملی اپناتے ہیں کہ جس کے باعث فوری انتخابات کا راستہ ہموار ہوجائے لیکن بظاہر یہ آسان دکھائی نہیں دے رہا‘ اِس کے باوجود کہ اب تحریک انصاف کی طرف سے ''الیکشن کراؤ ، ملک بچاؤ‘‘ ریلیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اِس سے پہلے ایک لانگ مارچ بھی پنڈی یاترا کرچکا ہے ۔اِس لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کو توقع تھی کہ لانگ مارچ کے پنڈی پہنچنے سے پہلے ہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ جب اتنے بڑے لانگ مارچ سے مقصد حاصل نہیں ہوسکا تو پھر شاید یہ ریلیاں بھی زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوپائیں گی لیکن سیاسی جماعتوں کو عوامی پذیرائی کے لیے بہرحال حرکت میں رہنا پڑتا ہے۔اِن حالات میں اگر چودھری پرویز الٰہی اسمبلیاں نہ توڑنے کی طرف جاتے ہیں تو عمران خان کے لیے عام انتخابات کی تاریخ فوری حاصل کرنا ناممکن نہیں تو کم از انتہائی مشکل ضرور ہوجائے گا اور یہ بات سیاسی مخالفین بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ویسے وفاق نے ابھی تک تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست کا جس طرح مقابلہ کیا ہے‘ اسے بارہ‘، تیرہ جماعتی اتحاد کی کامیابی ہی قرار دیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں