"FBC" (space) message & send to 7575

عوامی مسائل سے لاتعلقی

مروجہ روایات کے مطابق کسی بھی تحریر کی ''ورتھ‘‘ تبھی بنتی ہے جب تحریر میں لکھنے والے کے اعلیٰ سطحی تعلقات کا بھرپور رنگ دکھائی دے۔ جب لکھنے والا یہ بتائے کہ فلاں تاریخ کو وہ ملک کی ایک اہم ترین شخصیت کے ساتھ موجود تھا اور اس ملاقات میں مختلف معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ابھی وہاں سے وہ ملاقات کے بعد باہر نکل ہی رہا تھا کہ اُسے ایک اور بڑی شخصیت کا فون آ گیا‘ اُس شخصیت سے ملاقات میں بھی اُس سے بہت سے مشورے کیے گئے وغیرہ‘ تو ہی سمجھا جاتا ہے کہ لکھنے والے کے پاس بہت اہم معلومات ہیں۔ غالباً یہ سب کچھ کرنا آج کی ضرورت بن چکا ہے لیکن اِس کا ایک منفی نتیجہ بھی برآمد ہو رہا ہے۔ وہ یہ کہ بڑے بڑے مسائل اور بڑی بڑی شخصیات پر بات کرنے کی دوڑ میں بیشتر لکھاری اُن مسائل سے لاتعلق ہوتے چلے جا رہے ہیں جن کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور عام آدمی کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے‘ تمام اشاریے یہ بتا رہے ہیں کہ آگے چل کر مہنگائی کا طوفان مزید زور پکڑنے والا ہے‘ بجلی کی قیمت میں 2.3 روپے سے 31.60 روپے تک اضافہ کرنے کی تجویز پر غور ہو رہا ہے‘ (گویا کہیں نہ کہیں یہ بات چل رہی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کیا جائے) گیس کی قیمتوں میں سو فیصد اضافے پر بحث چل رہی ہے‘ (آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اگر اِن دونوں تجاویز کو عملی جامہ پہنا دیا گیا تو صورتحال‘ جو پہلے ہی ہر کسی کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے‘ کیا سے کیا ہو جائے گی) 29 فیصد سے زائد شرح کے ساتھ گرانی عوام پر مسلسل ستم ڈھا رہی ہے‘ وہاں سب عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر سیاسی مسائل کا رونا رو رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آٹے جیسی بنیادی ضرورت کے نرخوں میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بیس کلو آٹے کے تھیلے کے نرخوں میں 1040 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گویا کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ اِس بات پر آنسو بہائے جائیں کہ ملک بری طرح سے ڈیفالٹ کے خطرے میں گھر چکا ہے یا اِس پر افسوس کا اظہار کیا جائے کہ آگے چل کر صورت حال میں بہتری کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ تو صرف دیگ کے چند دانے ہیں‘ ورنہ تو پوری دیگ کا ہی یہ حال ہوچکا ہے۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں سیاست ہی سے فرصت نہیں مل رہی۔ صبح سیاست‘ شام سیاست اور بس سیاست ہی سیاست۔
اس وقت آدھے سے زیادہ ملک گیس کے شدید بحران کا سامنا کررہا ہے اور ہمیں ہردم یہی نوید سنائی جارہی ہے کہ یہ بیڑے تو جانے والی حکومت نے غرق کیے ہیں‘ ہمارا بھلا کیا قصور ہے۔ صبح اخبار پر نظر پڑتے ہی یا تو دہشت گردی کے واقعات کی خبریں سامنے ہوتی ہیں یا پھر سیاست دانوں کے بیانات۔ عمران خان کا بیان پڑھیں تو وہ موجودہ حکومت کو امپورٹڈقرار دیتے ہیں اور حکومت کی جانب سے مسلسل گھڑی چور کی گردان جاری رہتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے محترم وزیراعظم صاحب نے قرار دیا کہ گھڑی چور نے دنیا بھر میں ملک کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ ان کی طرف سے یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ اُن کی حکومت نے دن رات کی محنت سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور اب عوام کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دن کے اوقات میں سیاستدانوں کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آتے ہیں اور پھر اُس کے بعد شام کے اوقات میں ٹی وی پروگرامز میں اِنہی بیانات پر ایک لاحاصل بحث شرو ع ہوجاتی ہے۔ سچی بات ہے کہ ہمیں آج تک اِس بات کی سمجھ نہیں آسکی کہ اتنے زوروشور سے ہونے والی بحث سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ ایک گھنٹے تک سب بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، پروگرام ختم ہونے کے بعد چائے کے کپ پر خوش گپیاں ہوتی ہیں اور اُس کے بعد سب اپنی اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ آج تک کوئی ایک بھی ایسا پروگرام کم از کم ہماری نظر سے تو نہیں گزرا کہ جب کسی نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو۔ جب کسی نے اپنے سیاسی مخالف کے دلائل سے اتفاق کیا ہو۔ ہمیشہ ایک دوسرے کے لتے لیے جاتے ہیں۔ ایسے میں میرے جیسا عام آدمی کم از کم یہ پوچھنے کا حق تو رکھتا ہے کہ اِس بحث سے عوام کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا؟
اِس صورت حال کا ایک نہایت منفی نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ عوامی مسائل کو اُجاگر کرنے والے عوامی مسائل سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ موجودہ صورت حال سے یہ تاثر بھی پیدا ہورہا ہے کہ جیسے 'مختلف اشاروں‘ کے مطابق نقل وحرکت کی جاتی ہے۔ وہ مہنگائی کا ایشو‘ جس پر موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے اُدھم مچاہواتھا‘ آج یہ مسئلہ ترجیحات میں کہیں نیچے جا چکا ہے حالانکہ مہنگائی کا براہِ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔ آج تو وہ بھی خاموشی سے اقتدار کی غلام گردشوں میں گھوم پھر رہے ہیں جو کبھی مہنگائی پر لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ نے تب مہنگائی کے مسئلہ پر حکومت کا ناک میں دم کررکھا تھا لیکن آج وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کم و بیش اپنے آٹھ قریبی عزیزوں کو بہترین عہدے دلانے کے بعد وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک اور جمہوریت کو بچا لیا گیا ہے۔ چلیں‘ ہم مان لیتے ہیں کہ جانے والوں کی وجہ سے حالات خراب ہو گئے تھے لیکن یہ جو آئے ہیں‘ اِنہیں بھی تو آئے ہوئے آٹھ ماہ ہو چلے ہیں‘ ابھی تک سوائے باتوں اور الزامات کے‘ کون سا تیر مارا گیا ہے۔ اُلٹا یہ ہورہا ہے کہ تیرہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے وزارتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جارہی ہیں۔ جس کو حصہ بقدرِ جثہ نہیں ملتا‘ وہ حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دیتا ہے اور پھر سب اُسے منانے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت ملکی معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہوگئی ہے‘ اگر ایسا ہے تو پھر کوئی بھی معاشی اشاریہ بہتری کی طرف جاتا کیوں دکھائی نہیں دے رہا؟مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ بھانت بھانت کی بولیوں نے سیاست کے ہنر کو مفادات کے کھیل میں تبدیل کردیا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ قوم کی رہنمائی ایسے ہاتھوں میں جاچکی ہے‘ جو ہردو‘چار گھنٹوں کے بعد اپنے ہی بیان سے مکر جاتے ہیں۔ ہر روز صبح کو کچھ اور شام کو کچھ اور بیانات سامنے آرہے ہیں۔ زبان ایسی استعمال کی جاتی ہے جیسے تھڑوںپر بیٹھ کر کسی موضوع پر گفتگو کی جارہی ہو۔ اِسی کھینچا تانی میں مسائل مزید گمبھیر ہوتے چلے جارہے ہیں جس میں دہشت گردی کے عنصر نے پھر سے اپنی جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔
اِن تمام حالات اور اس پر مستزاد سیاسی کھینچا تانی کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیاست کی جنگ عدالتوں میں منتقل ہوچکی ہے۔ یعنی ہمارا نظامِ عدل‘ جو پہلے بھی فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے نچلی سطح پر شمار ہوتا ہے‘ آئے روز کی سیاسی رِٹس کی بدولت مزید زیربار آ چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرلیا جاتا ہے جس کے بعد ایک طویل قانونی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ اِس دوران عام سائلین جس طرح سے ذلیل وخوار ہوتے ہیں‘ وہ ایک الگ داستانِ الم ہے۔ فیصلے بھی ایسے سامنے آرہے ہیں کہ جن کے بعد بحث سمٹنے کے بجائے مزید طول پکڑ جاتی ہے۔ بیشتر فیصلوں پر مخالف فریق سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کر دیتا ہے جس کے بعد ایک نئی قانونی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ ہرروز بڑی تعداد میں سیاسی مقدمات کی سماعت ہورہی ہے جس سے عام سائلین کے لیے انصاف کا حصول مزید مشکل ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ اتنی کثرت سے ہورہا ہے کہ اِس سے نظامِ عدل کا وقار بھی مجروح ہورہا ہے۔ اِن سب حالات میں صبح‘ شام سیاست اور محض سیاست کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جانے والے توشہ خانے کے تحائف بیچ گئے اور آنے والوں نے پہلی فرصت میں اپنے مقدمات سے جان چھڑا لی۔ سیاست کے اس کھیل کا عوام کو بھی تو کوئی فائدہ ہوتا۔ اس سیاسی گرد میں فائدہ جانے والے بھی اُٹھاتے رہے اور آنے والے بھی اُٹھا رہے ہیں۔ اِن دونوں سے ہمدردی رکھنے والے ہمارے سنگی ساتھیوں کی طرف سے اِن کے اقدامات کا دفاع بھی ہوتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ اِسی طرح چلتا چلا جارہا ہے۔ ایسے میں کسے فرصت ہے کہ عام آدمی کے مسائل پر اپنی آواز بلند کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں