"FBC" (space) message & send to 7575

ہندسے کی تبدیلی سے کیا فرق پڑتا ہے!

حسبِ روایت نئے سال کی آمدپرحکمرانوں کے اُمید بھرے بیانات سن چکے ہیں۔ سالِ نو کے حوالے سے حکمرانوں کے خوش کن بیانات نے اخبارات اور خبرناموں میں نمایاں جگہ حاصل کی ہے۔ عوام کی طرف سے بھی ایسی توقعات کا اظہار سامنے آچکا ہے کہ نیاسال ہمارے لیے خوشیوں کا سال ثابت ہو‘ وغیرہ وغیرہ۔ گزرے سال کی ا بتدا پر بھی یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے میں آیا تھا۔ سالِ گزشتہ کے آغاز پر اُمید تھی کہ عمران خان جس اچھے وقت کی نوید سناتے چلے آرہے ہیں‘ وہ اچھا وقت اس سال میں ضرور آئے گا۔ وہ وقت تو کیا آنا تھا‘خود عمران خان کی حکومت کو گھر کی راہ دکھا دی گئی۔ تب سے لے کر اب تک وہ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ آخر اُن کا قصور کیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے میاں نواز شریف بھی پوچھتے رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اِسی ''پوچھ گچھ‘‘ میں 2022ء نے عوام کا کچومر نکال دیا۔ جو سنہرے خواب دکھا کر شہباز حکومت کو لایا گیا تھا‘ وہ تو اس اتحادی حکومت کے آتے ہی دم توڑنا شروع ہوگئے تھے۔ ہاں‘ البتہ آنے والوں کے لیے یہ دور بہت مبارک ثابت ہوا ہے۔ ان کے سب مقدمات ختم ہوچکے ہیں‘ قرقی جائیدادیں واپس مل رہی ہیں‘ فریز اکائونٹس کو بحال کر دیا گیا ہے اور اب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ گرفتاری کے ڈر سے بیرونِ ملک مقیم شخصیات بلادھڑک واپس آرہی ہیں اور اُنہیں حفاظتی ضمانتیں بھی مل رہی ہیں۔
اتحادی حکومت کے لیے تو 2022ء مسرت و انبساط کا سال ثابت ہوا لیکن قربانی تو عوام کو دینا پڑ رہی ہے۔ آٹھ ماہ حکومت میں گزارنے کے بعد بھی وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے اُنہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ مشکلات کتنی زیادہ ہیں۔ یہی سب کچھ عمران خان بھی کہا کرتے تھے کہ تیس سالوں کا گند صاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اب یہی بیان موجودہ وزیراعظم صاحب دے رہے ہیں۔ ایک ہی ڈگر ہے‘ جس پر سب چلتے چلے جا رہے ہیں۔ جو بھی آتا ہے‘ دگرگوں حالات کے لیے جانے والوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور خود بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو قصور وار وہ بھی ہیں جنہوں نے سیاسی حکومتوں کو کبھی چلنے ہی نہیں دیا۔ قصہ مختصر‘ گزشتہ سال کے دوران کوئی ایک بھی اُمیدپوری نہیں ہوسکی بلکہ ملکی حالات انتہائی دگرگوں ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب معاشی ٹیم حوصلہ تو دے رہی ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن تمام معاشی اشاریے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر پچھلی ایک دہائی کی کم ترین سطح پر آچکے ہیں۔ مہنگائی پچاس سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اور تو اور آٹے جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی جنس بھی ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتی چلی جارہی ہے۔ حالیہ عرصے میں آٹے کے بیس کلو والے تھیلے کی قیمت میں دوسو روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک سال میں آٹے کی قیمت دوگنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ گندم اور آٹے کے نرخوں میں ہوشربا اضافے کے بعد اب نانبائی روٹی کی سرکاری قیمت پچیس روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نان کی قیمتوں میں بھی اضافے کامطالبہ کیا جارہا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آئندہ چندسالوں میں شاید روٹی کے لالے بھی پڑ جائیں۔ اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں گندم کی بمپر فصل ہو‘ تو بھی ہم بمشکل عوام کا پیٹ بھرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ گویا آبادی میں بے تحاشا اضافے کے ساتھ ساتھ گندم کی طلب بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اب یہ جو نیا سال شروع ہوا ہے تو اِس میں گندم کی پیداوار کا تخمینہ دوکروڑ چھبیس لاکھ میٹرک ٹن کے قریب لگایا گیا ہے جبکہ ضرورت تین کروڑ میٹرک ٹن کی ہے۔ مطلب کم از کم چوہتر لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ یہ اُس ملک کی بات ہو رہی ہے جو بڑے فخریہ انداز میں خود کو زرعی ملک کہلواتا ہے۔ لامحالہ جب گندم درآمد کی جائے گی تو درآمد ی اخراجات شامل کیے جانے سے گندم اور آٹے کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ جہاں گندم اور آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا کے حوالے سے یہ صورت حال ہو‘ وہاں دیگر شعبوں کی حالت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ معاشی میدان میں تو ہم ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچے ہی ہوئے ہیں‘ سیاست کے میدان میں بھی استحکام کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی جبکہ سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال بھی بگڑتی چلی جا رہی ہے۔
اس وقت مغربی سرحدوں پر صورت حال تشویش ناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ ملکی اداروں کی رپورٹس بتا رہی ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 52 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیاہے۔ خصوصاً جب سے افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں‘ تب سے صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے۔ گوادر میں بھی حالات کشیدہ ہیں‘ جہاں تاریخ میں پہلی بار خواتین کی بہت بڑی تعداد بھی اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ گزشتہ دنوں دھرنے پر بیٹھے ہوئے مردوخواتین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا تو احتجاجی تحریک میں مزید شدت آگئی۔ افسوناک امر یہ ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی طرف سے اِس تحریک کے رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ بجائے اِس کے کہ اُن کے مطالبات پر ہمدردی سے غور کیا جائے‘ اُلٹا اُنہیں سماج دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ یہ سوچنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی کہ کیا کسی بھی شہر کے باسیوں کی اتنی بڑی تعداد سماج دشمن ہوسکتی ہے؟وہاں تو خواتین اور بچے بھی احتجاجی تحریک میں شریک ہیں۔ دیکھا جائے تو اِن کے مطالبات غیر منطقی نہیں ہیں۔ مقامی باسیوں کا مطالبہ ہے کہ جگہ جگہ قائم چیک پوسٹوں میں کمی کی جائے، گوادر کے سمندروں میں غیرقانونی ماہی گیری کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ صوبہ سندھ سے بڑے بڑے ٹرالر یہاں ماہی گیری کے لیے آتے ہیں جس کے بعد یہاں کے مقامی ماہی گیروں کے لیے سمندر میں کچھ نہیں بچتا۔ اگر اِن کے دیگر مسائل کو بھی دیکھا جائے تو وہ بھی بالکل جائز اور مناسب ہیں۔ اسی طرح ملک کے بالائی علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو متعدد حوالوں سے وہاں بھی صورت حال سنگین ہو چکی ہے۔
اِن حالات میں 2023ء نے قدم تو رنجہ فرما دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہتری کی کوئی روشن اُمید نظر نہیں آرہی۔ بس وہی روایتی بیانات سننے میں آرہے ہیں کہ ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جائیں گے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کیسے یہ مقصد حاصل کیا جائے گا۔ مطلب جس ٹرک کی بتی کے پیچھے طویل عرصے سے ہم سب کو لگایا ہوا ہے‘ 2023ء میں بھی عوام اُسی بتی کے پیچھے بھاگتے رہیں گے اور سب اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیلتے رہیں گے۔ سیاستدان اپنے اپنے مقاصد و مفادات کے حصول کے لیے تگ و دو کرتے رہیں گے اور عام آدمی خود کو درپیش مسائل کا 'سیاپا‘ کرتا رہے گا۔ جیسے 2022ء نت نئی مشکلات اور بحرانوں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا تھا‘ ویسے ہی رواں سال بھی اختتام پذیر ہوجائے گا۔ اس سال کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر وہی پرانی باتیں سنیں گے جو ہر سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پر سنتے آئے ہیں۔ آسانیاں اُن کو میسر آتی ہیں جن کی منزل اُن کے سامنے ہو۔ ہم ٹھہرے مفادات میں لتھڑا ہوا بے ہنگم ہجوم۔ ہمیں کیا معلوم کہ قدم کس طرف بڑھانا ہے‘ اور منزل کس چڑیا کا نام ہے۔ جس طرف اشارہ کیا جاتا ہے‘ یا جدھر حالات چلا دیتے ہیں‘ ہم بلاچون وچرا اُس طرف کو چلنا شروع کردیتے ہیں اور بعد میں اپنی غلطیوں کی توضیحات تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ خود ہی غلطی کرتے ہیں اور خود ہی اِس پر افسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سو‘ اگر کسی کو یہ اُمید ہے کہ نئے سال کے دوران حالات بہتر ہوں گے یا اس سال سے وابستہ کوئی اُمید پوری ہوگی تو اُسے ابھی سے یہ حقیقت جان لینی چاہیے، کیونکہ ایسی صورت میں حقیقت زیادہ تلخ نہیں محسوس ہوتی۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ پرانا سال ہو یا نیا‘ کسی ہندسے کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے توحقیقی معنوں میں کچھ کرگزرنے کے جذبے سے‘ جو بحیثیتِ مجموعی ہمارے اندر موجود ہی نہیں رہ گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں