"FBC" (space) message & send to 7575

سیلاب زدگان کا شکریہ…

خوشی سے جھومیں‘ ناچیں‘ گائیں کہ سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر اب ہمیں عالمی برادری سے تقریباً 10ارب ڈالر ملیں گے۔ امداد کے وعدوں نے ہی ہمارے چہروں پر خوشیاں بکھیر دی ہیں۔ توقع پیدا ہو چلی ہے کہ اب ہمارا ملک ڈیفالٹ سے بچ جائے گا۔ سب سے زیادہ 4.2ارب ڈالر کی امداد اسلامی ترقیاتی بینک کی طرف سے ملے گی تو دو ارب ڈالر کا حصہ عالمی بینک بھی ڈالے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کا بھی شکریہ جس نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے متعدد دیگر ممالک کی طر ف سے بھی سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس پر ہم سب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ ہماری وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب صاحبہ نے قرار دیا ہے کہ دراصل یہ سب کچھ وزیراعظم شہباز شریف کی کوششوں سے ممکن ہو سکا ہے۔ خود وزیراعظم بھی امداد کے ان وعدوں پر کافی خوش نظر آرہے ہیں جن کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ امداد کی ایک ایک پائی شفاف طریقے سے خرچ کی جائے گی۔ آپ اندازہ کیجئے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب نہ آیا ہوتا تو پھر بھلا ہمیں کہاں سے اتنے زیادہ ڈالرز ملنے تھے۔ اور اگر اتنی بڑی امداد کے وعدے نہ ہوتے تو پھر بھلا ہم کیوں کر معاشی گرداب سے نکل سکتے تھے۔ سو ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ہم کم و بیش 90لاکھ ایسے سیلاب متاثرین کا خصوصی شکریہ ادا کریں جنہیں سیلاب نے خطِ غربت سے نیچے دھکیل دے دیا ہے۔ ان سمیت تقریباً تین کروڑ متاثرین کی بدولت ایک بار پھر ''ہمارے وارے نیارے‘‘ ہونے والے ہیں۔ ویسے اس موقع پر تو اچھا اچھا ہی لکھنا چاہیے اور امداد دینے والوں کو اس بات کی بھرپور یقین دہانی کرائی جانی چاہیے کہ بھیا اس مرتبہ سچ میں پوری کی پوری امداد سیلاب متاثرین کی بحالی پر ہی خرچ ہوگی۔ یقین رکھیں کہ اب کی بار ایک بھی پائی ادھر سے اُدھر نہیں ہوگی۔ اس مرتبہ کوئی ایک بھی ایسی شکایت سامنے نہیں آئے گی کہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ملنے والے ڈالرز کسی اور کی جیب سے برآمد ہوں۔ ویسے آپ کے ذہنوں میں وہ 2010ء میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ملنے والے ایک قیمتی ہار کا قصہ تو ابھی تازہ ہی ہوگا۔
یاد تو ہوگا ہی کہ ایک بہت بڑا سیلاب 2010میں بھی آیا تھا جس دوران تقریباً دوکروڑ افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔ تب بھی ایک وسیع و عریض رقبہ سیلاب کے پانی میں غرق ہوگیا تھا۔ تب اقوامِ متحدہ کی طرف سے ابتدائی طور پر سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے تقریباً 50کروڑ ڈالر کی ابتدائی امداد کی اپیل جاری کی گئی تھی۔ یہ امداد کافی جلدی حاصل ہوگئی تھی جس کے بعد بھی عالمی سطح سے ہمیں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے بھاری امداد ملتی رہی۔ یہ الگ بات رہی کہ حسبِ روایت یہ تمام امداد سیلاب متاثرین تک نہ پہنچ سکی۔ سیلاب متاثرین ایک عرصے تک کھلے میدانوں میں پڑے رہے۔ سیلاب گزر جانے کے کئی ماہ بعد بھی ان متاثرین کی طرف سے امداد کی دہائیاں سنائی دیتی رہی تھیں۔ خود ہمیں کئی ایک مواقع پر ان علاقوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یقین جانیے کہ بہت کم علاقوں میں سرکاری امداد کی موجودگی دیکھنے میں آئی ورنہ بیشتر متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنی بحالی کے کام میں مصروف نظر آتے تھے۔ تب ملنے والی امداد میں کہاں کہاں نقب لگتی رہی‘ اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے ہی کیا جا سکتا ہے کہ جب سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ملنے والا ایک قیمتی ہار ہماری تب کی خاتون اول سے ملا تھا۔ اس پر ایک وضاحت بھی سامنے آئی تھی کہ دراصل ہار کو اپنے پاس رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ اسے ترک خاتونِ اول کو واپس کردیا جائے۔ جب نیت اس ہار کو واپس کرنے کی تھی تو پھر معلوم نہیں اسے کیوں اتنے عرصے تک اپنے پاس رکھا گیا۔ جب بات کھل گئی تو پھر یہ ہار ملتان سے چلتے چلتے پھر اسلام آباد جا پہنچا جہاں اسے نادرا کے حوالے کردیا گیا۔ اس سے پہلے یہ ہار وزارتِ خارجہ‘ کیبنٹ ڈویژن اور توشہ خانے میں جمع کرانے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں لیکن ان تمام اداروں نے ہار وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر کسی طرح سے یہ قیمتی ہار نادرا کے حوالے کرکے جان چھڑائی گئی۔ شاید یہ ہار مل نہ پاتا لیکن بات کھلنے پر جب ایف آئی اے نے اس بابت تفتیش شروع کی تو پھر پرتیں کھلتی گئیں۔ خیر یہ ماضی کی باتیں ہیں لیکن اب جو امداد ملے گی‘ اسے ہم انتہائی احسن طریقے سے ضرور سیلاب متاثرین تک پہنچائیں گے۔
ویسے دیکھا جائے تو 2005ء کے انتہائی قیامت خیز زلزلے کے بعد بھی ہمیں بہت بھاری امداد ملی تھی۔ اس سے پہلے روس کے خلاف لڑی جانے والی افغان جنگ نے بھی ہمیں نہال کردیا تھا۔ چلیں وہ تو پرانی بات ہوگئی لیکن یہ جو ابھی افغانستان میں امریکہ نے جنگ لڑی ہے‘ اس دوران بھی ہم پر عنایات کی بارش ہوتی رہی۔ جیسے ہی نائن الیون ہوا تو ایک معاہدے کے تحت سب سے پہلے تو ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں لگنے والی پابندیاں اٹھالی گئیں۔ 2002-03ء کے دوران ہمیں کم و بیش پونے دو ارب ڈالرز ملے۔ اسی دوران تب کے امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کے لیے تین ارب ڈالرز کے امدادی پیکیج کا اعلان بھی کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے دوران ایک طرف ڈالرز ملتے رہے اور دوسری طرف پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کا نشانہ بنی رہی۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے دوران ہم نے ستر ہزار کے قریب شہری اور سکیورٹی اہلکاروں کو کھویا۔ اس سے پہلے صدر ضیا الحق کے دور میں لڑی جانے والی افغان جنگ کے دوران بھی یہی صورت حال رہی تھی۔ جس سے ڈالروں کی بارش ہوتی رہی لیکن ملک اور عوام کے حالات نہ بدل سکے۔ تب یہ باتیں بھی بلند ہوئیں کہ اتنے زیادہ ڈالروں کے باوجود عام آدمی کی حالت میں کیوں بہتری نہ آسکی۔ کچھ نام بھی لیے جاتے رہے کہ جو مبینہ طور پر امریکی ڈالروں سے جیبیں بھرتے رہے تھے۔ بہت کچھ کہا اور سنا جاتا رہا لیکن پھر یہ سب کچھ حسبِ روایت وقت کی گرد میں چھپ کر رہ گیا۔
یہ سب اس وقت کی باتیں ہیں کہ جب ہمارے ملک کو معاشی طور پر ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ بے شمار معدنیات کے خزانے رکھنے‘ دنیا کی بہترین قوم کے حامل اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی حالت آج کافی دگرگوں ہے۔ توقعات تو ظاہر کی جارہی ہیں کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن خدشات بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں سیلاب زدگان کے لیے بھاری امداد کے وعدوں سے بہت حوصلہ ہوا ہے کہ شاید ہم ڈیفالٹ سے بچ جائیں۔ اس تناظر میں سیلاب زدگان بہرحال خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔ وہ بھی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے امداد کا اعلان کیا۔ اگرچہ یہ سوالات بھی اُٹھے تو سہی کہ آخر پاکستان سیلاب سے بچاؤ کی مستقل بنیادوں پر تدابیر کیوں نہیں کرتا۔ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھی پوچھا گیا کہ جب 2010ء میں پاکستان میں اتنا بڑا سیلاب آیا تھا تو اُس کے بعد کیا حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے۔ کیوں مستقبل میں اتنی بڑی تباہی سے بچنے کی تدبیر نہ کی گئی کہ آج ایک مرتبہ پھر پاکستان اتنی بڑی تباہی کا شکار ہوگیا۔ اس صورت حال کے باوجود اگر کم و بیش ساڑھے دس ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کیے گئے ہیں تو اس کے بہرحال ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونے کی امید ہے۔ بہرحال امداد دینے والے ہم سے اس بات کی توقع بھی رکھتے ہیں کہ یہ امداد صحیح معنوں میں سیلاب زدگان کی بحالی پر ہی خرچ ہوگی۔ امید تو ہے کہ آئندہ تین برسوں کے دوران یہ تمام امداد ہمیں مل جائے گی لیکن ضروری یہ بھی کہ اس حوالے سے ہمارا ہوم ورک بھی مکمل ہو۔ اگر ہم اپنا ہوم ورک مکمل نہ کر سکے تو پھر رقم کی آمد میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہماری طرف سے ایک مرتبہ پھر سیلاب زدگان کا شکریہ کہ جن کی بدولت ہمیں معاشی محاذ پر بہتری کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے ورنہ تو ہم نے کون سی اپنی روش تبدیل کرنی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں