"FBC" (space) message & send to 7575

آئین کی پاسداری لازم

جب مختلف جماعتوں کا ایک غیرفطری اتحاد معرضِ وجود میں آجائے تو پھر ایسی ہی مارا ماری کی اُمید رکھی جاسکتی ہے جو اِن دنوں دیکھنے میں آرہی ہے۔آئے روز ایسے ایسے تماشے ہورہے ہیں کہ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، اپنے مفادات کے تحفظ اور مقدمات کی واپسی کے لیے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ حکومت قائم رکھنے کے لیے بڑی جماعتیں چھوٹی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہورہی ہیں۔ یوں تو سب کو حصہ بقدرِ جثہ مل چکا ہے لیکن مزید حصہ حاصل کرنے کی تگ و دو بھی مستقل بنیادوں پر جاری ہے۔ یوں تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی مختلف حوالوں سے کافی مسائل درپیش تھے لیکن موجودہ حکومت تو ہر شعبے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے، اس کی اب تک صرف ایک ہی کامیابی نظر آئی ہے کہ اقتدار بہرحال اب بھی اس کے پاس ہے۔ یہ اقتدار ہی کے کرشمے ہیں کہ ماضی قریب تک ایک دوسرے سے سخت ناراض رہنے والے آج شیروشکر دکھائی دے رہے ہیں۔ زرداری فیملی اور شریف خاندان ماضی قریب تک ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں۔ایک فریق کی طرف سے تو برملا یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر دوسرے فریق کا پیٹ چاک کردے گا، اُسے چوک میں لٹکائے گا وغیرہ‘ وغیرہ۔ اسی طرح دوسرا فریق پہلے فریق کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ ملک توڑنے کی سازش کر رہا ہے۔ اقتدار سے پہلے یہ تمام صاحبان اداروں پر بھی خوب گرجتے برستے رہتے تھے۔ جیسے ہی اِنہیں علم ہوا کہ اب عمران خان مزید قابلِ قبول نہیں رہے اور اقتدار کا ہما ان کے سر پہ بیٹھ سکتا ہے تو پھر کہاں کے اختلافات اور کہاں کی سیاسی دشمنیاں۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے قبل پی ڈی ایم کی طویل نشستوں میں یہ طے کیا گیا کہ کس کے حصے میں کیا آئے گا۔ تحریک عدم اعتماد سے وزیراعظم عمران خان کو رخصت کرنے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حصے میں وزارتِ خارجہ آئی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کا تعلق بھی پیپلزپارٹی سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی من پسند وزارتیں اور کے پی کی گورنرشپ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی دلچسپی وزارتِ مواصلات اور ہاؤسنگ میں تھی جو ابتدا میں اُن کی جماعت کو نہیں مل سکی تھی‘ اِس پر انہوں نے سخت احتجاج کیا تھا، یہاں تک کہ فوری طور پر انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن اب (حکومتی صفوں میں)ہر جگہ امن و سکون ہے۔ کل تک جو عوام کے مہنگائی کی چکی میں پسنے پر ہلکان ہو رہے تھے‘ وہ اب مہنگائی کے تین گنا تک بڑھ جانے پر بالکل خاموش ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ملک اور قوم کے یہ خیرخواہ اپنے اپنے مفادات کے لیے کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اب چونکہ سب کو قابلِ اطمینان حد تک حصہ مل چکا ہے اس لیے نہ تو اُنہیں45.27فیصد تک پہنچ جانے والی مہنگائی دکھائی دے رہی ہے اورنہ ہی مہنگائی سے روتے بلکتے عوام کا دکھ بے چین کر رہا ہے۔ وجہ وہی ہے کہ اب چونکہ سب اقتدار کا حصہ ہیں‘ اس لیے اُنہیں ہرطرف ہرا ہرا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ دن رات عوام کے دکھ میں گھلنے والی ایم کیو ایم بھی اب کافی خوش ہے کیونکہ وزارتوں کے ساتھ ساتھ سندھ کی گورنرشپ بھی ہاتھ لگی ہوئی ہے۔ اِسی طرح دوسری جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ دے کر ساتھ رکھا گیا ہے۔ کبھی کبھار کوئی جماعت چون و چرا کرتی ہے تو فوراًاُسے کوئی نہ کوئی مزید سیٹ دے دی جاتی ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ ہوتے ہوتے ہمارے وفاقی کابینہ، مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی تعداد 86 اراکین تک جا پہنچی ہے۔ خدا کی پناہ! یہ ایسے ملک کی کابینہ کا سائز ہے جو دیوالیہ ہونے کے کنارے کھڑا ہے۔ جس ملک میں معاشی بدحالی کے نئے ریکارڈز قائم ہورہے ہیں لیکن چونکہ مقصد محض اقتدار ہے تو پھر کیا پروا ہے کہ کون اِس حوالے سے کیا کہہ رہا ہے۔ حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ کابینہ کے بیشتر اراکین وہ ہیں جو عمران خان کی کابینہ کے سائز پر دن رات تنقید کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے وہ اراکین جو ماضی میں بے شمار مواقع پر عمران خان کے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر تنقید کرتے رہتے تھے‘ اب خود بھی ہیلی کاپٹر کی اُڑان سے مستفید ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اِس صورت حال کا بدیہی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک سنبھالے نہیں سنبھل رہا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ فطری اصولوں کے خلاف جو بھی کیا جائے گا‘ اس کے نتائج منفی ہی نکلیں گے۔ 2018ء میں جس طرح عمران خان حکومت برسراقتدار آئی تھی‘ اُس بابت اب سب کچھ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ دیکھا جائے تو تب ملک اچھا خاصا چل رہا تھا۔ موٹرویز بن رہی تھیں۔ مہنگائی کا تناسب بھی قابلِ برداشت تھا۔ سالانہ شرحِ نمو بھی قابلِ اطمینان تھی۔ بیرونی ممالک سے تعلقات اچھے تھے۔ اِس سب کے باوجود اناؤں کی تسکین کے لیے اچھی خاصی چلتی ہوئی حکومت کو رخصت کر کے ملک کو پٹڑی سے اُتار دیا گیا۔ جس شخص کو اقتدار میں لانے کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا‘ جب اُس کے ساتھ تعلقات بگڑے تو پھر ملک کو ایک نئے تجربے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ 2018ء کی تبدیلی اور پی ڈی ایم کو مسندِ اقتدار پر بٹھانا‘ یہ دونوں تبدیلیاں غلط طریقے سے لائی گئیں اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ستم بالائے ستم‘ ہماری سمجھ میں اب بھی یہ بات نہیں آرہی کہ یہاں تک پہنچ جانے کے باوجود کیوں ہم نت نئے تجربات کرنے کی روش ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اگر ہم واقعتاً ملک کے خیرخواہ ہیں تو پھر ہمیں بہرصورت آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے بغیر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے تو ہمیشہ کی طرح‘ وہ آج بھی غلطی پر ہے۔
کیا آئین یہ تقاضا نہیں کرتا کہ اسمبلی کی میعاد ختم ہونے یا ٹوٹ جانے کی صورت میں نوے دنوں کے اندر نئے انتخابات کرانا لازمی ہے؟اِس بارے میں اعلیٰ عدالتیں بھی واضح احکامات جاری کرچکی ہیں لیکن اِس کے باوجود حکومتی سطح پر واضح طور پر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ''پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ڈرایا جارہا ہے کہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کا خطرہ ہے لہٰذا اِنہیں ملتوی کر دینا ہی مناسب ہے۔ گزشتہ دنوں اِس حوالے سے ہونے والے ایک حکومتی اجلاس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی خطرہ ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اُسے دور کرکے آئینی تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ حیرت ہے کہ حکومت کو یہ تو معلوم ہے کہ خطرہ موجود ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ اِسے دور کیسے کرنا ہے۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں گزشتہ کم از کم دو دہائیوں کے دوران‘ کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب دہشت گردی کا خطرہ نہ ہو۔جب طویل عرصے سے صورتحال یہی چلی آرہی ہے تو پھر انتخابات کا آئینی تقاضا پورا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جا رہی ؟ سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اگر نیت نیک ہو تو... جب کچھ کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو پھر ہزار حجتیں ہوتی ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے تو دوسری طرف اقتدار کے مزے لوٹنے والا بارہ‘ تیرہ جماعتی اتحاد اِس سے مسلسل راہِ فرار اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ یقینا آئین کی متضاد سمت جانے کا نتیجہ اچھا برآمد نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں