"FBC" (space) message & send to 7575

اپنی اپنی جمہوریت

سیاسی مخالفین کو دبانے کے حکومتی حربے یہی ہوتے ہیں کہ اُن کے خلاف بے تحاشا مقدمات درج کر لیے جائیں۔ اتنے مقدمات کہ اُنہیں تاریخیں بھگتنے ہی سے فرصت نہ مل سکے۔ مخالفین ہمہ وقت اِسی فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ مقدمات سے کس طرح جان چھڑائی جائے۔ ایک حربہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف عملاً ریاستی طاقت کا استعمال کرکے اُنہیں نیست و نابود کر دیا جائے۔ ہمارے ملک میں یہ حربہ سب سے زیادہ کارگر سمجھا جاتا ہے۔ اِس وقت بھی کچھ اسی قسم کی صورتِ حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بارہ‘ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کیلئے تمام دستیاب حربے استعمال کر رہا ہے۔ طاقت کا استعمال کر کے بھی دیکھ لیا اور مقدمات کی بھی بھرمار کر دی گئی لیکن اِس کے باوجود بات بن نہیں رہی۔ مینارِ پاکستان پر ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے نے پوری طرح سے ثابت کر دیا ہے کہ عوامی حمایت کس کے ساتھ ہے۔ اِس کے باوجود کہ جلسے کے روز پورے شہر کو عملاً 'کرفیو زدہ‘ کر دیا گیا تھا، جگہ جگہ کنٹینرز لگا کر آمد و رفت کے راستوں کو ہر ممکن حد تک محدود کر دیا گیا تھا، دوسرے شہروں سے آنے والوں کے راستوں میں بھی بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں لیکن اِس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں عوام کا مینارِ پاکستان پر جمع ہو جانا حکومتی اتحاد کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اُس روز پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران مجھے بے شمار شہریوں سے ملنے اور ان سے بات چیت کرنے کا موقع میسر آیا۔ عوام کے جذبات اپنے عروج پر پہنچے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ میرے لیے یہ بات کافی حیران کن تھی کیونکہ بہت عرصے کے بعد کسی سیاسی رہنما کیلئے شہریوں کی طرف سے ایسے جذبات کا اظہار دیکھنے میں آ رہا تھا۔ ورنہ اب تو عوام کی اکثریت سیاسی رہنماؤں کے بیانات پر کان دھرنے کیلئے بھی تیار نظر نہیں آتی۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ سیاسی رہنما اپنے مفادات کیلئے تمام تر اصولوں کو بالائے طاق رکھ دینے کے خوگر ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک سیاسی رہنما کیلئے بے پناہ عوامی جذبات کم از کم میرے لیے بہت حیران کن تھے۔ جلسے میں آنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ دکھائی دی کہ وہ کسی بڑے مقصد کیلئے جلسے میں شرکت کیلئے آئے ہیں۔
تصویر کا یہ رخ اِس لیے بھی حیران کن دکھائی دے رہا تھا کہ اپنے 27 سالہ سیاسی سفر کے دوران عمران خان نے شاید ہی کبھی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اُن کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کی حمایت سے برسر اقتدار آئے تھے ورنہ اِس سے پہلے وہ اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں سے انتخابات ہار گئے تھے۔ اِس کے بعد ہی اُنہیں ادراک ہوا تھا کہ اقتدار کا راستہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ کسی اور راستے پر چلنے سے طے ہوتا ہے۔ الزام ہے کہ اِس کے بعد اُنہوں نے وہی راستہ اختیار کر لیا جس پر چل کر سبھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں۔ اُن کی قسمت اچھی تھی کہ تب تک اَناؤں کی جنگ میں شکست کھا کر میاں نواز شریف تاحیات نااہل ہو چکے تھے۔ میاں نواز شریف کو چونکہ بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی‘ اِسی زعم میں اُنہوں نے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد 'اِٹ کھڑکا‘ شروع کر دیا جس کا نتیجہ وہی نکلا جو ایسے مواقع پر نکلتا ہے۔ پاناما لیکس کے بعد ایک تیز رفتار عمل کے نتیجے میں نواز شریف نہ صرف اقتدار سے باہر کردیے گئے بلکہ تاحیات نااہل بھی ٹھہرے۔ دوسری جانب محنت رنگ لائی اور اقتدار کا ہُما عمران خان کے سر پر آن بیٹھا۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران خان صاحب کی توجہ سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے پر مرکوز رہی۔ احتساب کے نام پر ایک اُدھم مچایا گیا لیکن حاصل وصول کچھ بھی نہ ہو سکا۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اُن کی بیساکھیاں سرکنے لگیں اور اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگا۔ اِیسے میں اُنہوں نے کیا کیا ہاتھ پیر نہیں مارے لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور بالآخر ایوانِ اقتدار سے نکلتے ہی بنی۔
یہ حقیقت ہے کہ اقتدار سے محرومی کے وقت وہ اپنی مقبولیت کے نچلے ترین درجے پر آ چکے تھے۔ ملک میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ اپنے انتخابی وعدے پورے نہیں کر سکے تھے۔ اب اِسے اُن کی خوش قسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ پی ڈی ایم اتحاد نے اُن کی تمام کوتاہیوں اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کو اپنے سر لے لیا۔ شہباز شریف وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہو گئے اور دیگر جماعتوں کو حصہ بقدرِ جثہ مل گیا۔ اُمید تھی کہ جن ایشوز پر عمران حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے‘ اُن مسائل کو حل کرنے کیلئے اتحادی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گی۔ لیکن مسائل تو کیا حل ہونے تھے‘ حالات پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہو گئے۔ ڈالر ایسا بے لگام ہوا کہ اب تک کنٹرول میں نہیں آ سکا۔ ملک معاشی طور پر وینٹی لیٹر پر چلا گیا۔ مسائل حل کرنے کے بجائے اتحادی حکومت کی توجہ اپنا اپنا حصہ وصول کرنے پر رہی جس کے نتیجے میں 86 رکنی کابینہ کا بوجھ قوم پر ڈال دیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مہنگائی نے سب کی چیخیں نکلوا دیں۔ پورے ملک میں ہاہاکار مچ گئی لیکن مجال ہے جو حکومت کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ حد تو تب ہوئی جب آٹے جیسی انتہائی بنیادی چیز کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا۔ افسوس‘ صد افسوس! کہ آٹا حاصل کرنے کی تگ و دو میں اب تک درجن بھر مرد و خواتین اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ مفت آٹے کی تقسیم کے مراکز پر انتہائی دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ صبح سے شام تک لوگ آٹا حاصل کرنے کیلئے ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ایک زرعی ملک کی صورتحال ہے جس نے شہریوں کو خون کے آنسو رلا دیا ہے۔ دیگر حوالوں سے بھی ملک تنزلی کا شکار ہوا تو عمران خان ایک مرتبہ پھر مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
مختصراً یہ کہ آئین اور قانون کی پاسداری کرنے میں طرفین کا طرزِ عمل ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے لیکن اِس وقت بہرحال عمران خان بازی لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب حکومتی زعما کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی کم ہوتی اور عمران خان کی بڑھتی عوامی مقبولیت کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے۔ مقدمات درج کرکے‘ آڈیو ٹیپس لیک کرکے دیکھ لیا‘ طاقت کا استعمال کر کے بھی دیکھ لیا لیکن عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مینارِ پاکستان پر ہونے والے جلسے نے تو جیسے راتوں کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں۔ جب سب حربے ناکام ہو گئے تو معاملات کو انتہا کی طرف لے جانا شروع کر دیا گیا۔ ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھیے کہ آئین اور قانون کی رَٹ لگانے والوں نے تمام آئینی و قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر انتخابات ہی ملتوی کر دیے ہیں۔ انتخابات کیلئے شرائط وہ رکھی گئی ہیں جو کبھی پوری ہی نہیں ہو سکتیں۔ گویا اگر اخلاقیات کا تھوڑا بہت بھرم تھا تو اُسے بھی فراموش کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ فرما رہے ہیں کہ یہ بقا کی جنگ ہے اور اب دونوں میں سے ایک باقی رہے گا۔ اُدھر سے جواب ملا کہ اگر صورتحال واقعی اِس نہج پر پہنچ گئی ہے تو پھر ایسا کہنے والے باقی نہیں رہیں گے۔ گویا حالات کو اِس سطح پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر آئین کو موم کی ناک بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس نے ہر پاکستانی کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ آخر حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اگر ہم ہمہ وقت جمہوریت‘ جمہوریت کی رٹ لگائے رکھتے ہیں تو پھر ہمیں اِس کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا چاہیے۔ آئین کہتا ہے کہ اسمبلیاں توڑے جانے کے نوے روز کے اندر انتخابات کرانا ہیں‘ تو یہ آئینی تقاضا کسی لیت و لعل‘ کسی ٹال مٹول اور عذر و حیلے کے بغیر‘ بہرصورت پورا ہونا چاہیے۔انتخابات ہی جمہوریت کی روح اور آئین کا تقاضا ہیں جنہیں ہر صورت پورا کیا جانا چاہیے لیکن کیا کیا جائے‘ ہمارے یہاں ہر کسی کا اپنا اپنا قانون اور اپنا اپنا آئین ہے اور وہ اُسی پر عمل کرنے کو جمہوریت گردانتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں