"FBC" (space) message & send to 7575

خواہ مخواہ کے گلے شکوے

معروف نثر نگار، شاعر، ماہر تعلیم اور کالم نگار عرفان صدیقی صاحب ہمارے ملک کی ایک قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کی رہنمائی کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ایک قاری کے طور پر ہم اُن کے مداح ہیں اور اُن کی تحریروں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ وہی عرفان صدیقی ہیں جنہیں شریف فیملی سے قربت کی بنا پر عمران خان کے دورِ حکومت میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی الزام‘ کچھ لوگ وردی میں آئے اور 78 سالہ بزرگ کو گھر سے اُٹھا کر لے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اُن پر دو الزامات عائد کیے گئے تھے۔ ایک الزام تو یہ تھا کہ اُنہوں نے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی ہے اور دوسرا الزام یہ تھا کہ اُنہوں نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ الزامات خود ہی یہ بتانے کو کافی ہیں کہ اِن کی گرفتاری کا مقصد کیا تھا۔ گزشتہ دنوں استادِ محترم کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں عرفان صدیقی صاحب نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی زبانی اُن کے ''بے اختیار وزیراعظم‘‘ ہونے کا کچھ احوال بیان کیا ہے۔ وہی بیانیہ جو ہمارے بیشتر وزرائے اعظم اقتدار سے محرومی کے بعد کثرت سے سناتے رہتے ہیں۔ جب تک اقتدار میں رہتے ہیں‘ اِس کیلئے ہر حد سے گزرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی صورت اُن کا اقتدار قائم رہے‘ چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے‘ پوری قوم پاتال میں جا گرے لیکن اُن کا اقتدار قائم رہنا چاہیے۔ اِس سب کے باوجود جب اقتدار ہاتھ سے پھسل جاتا ہے تو پھر اُنہیں احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ تو بے اختیار وزیراعظم تھے۔
اِسی تناظر میں محترم عرفان صدیقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ڈان لیکس پر بننے والی کمیٹی نے ایک ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا لیکن وزیراعظم کو اذیت میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ کمیٹی کچھوے کی چال چلتی رہی، اِسی دوران راحیل شریف گھر چلے گئے لیکن اُن کی متروکہ املاک سرگرم رہیں، اِس کے بعد جنرل باجوہ کی تقرری میں اُن کا بھی کافی اہم کردار رہا۔ اُنہوں نے سوچا کہ کیوں نا جنرل باجوہ سے مل کر اِس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ جب اُنہوں نے جنرل باجوہ کو ملاقات کیلئے پیغام بھیجا تو اُن کی طرف سے بتایا گیا کہ اب تو کمیٹی میں سب کچھ طے پا گیا ہے۔ جنرل باجوہ کی طرف سے مزید کہا گیا کہ جس دن پرویز رشید کو اُن کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا، اُس دن یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہیے تھا، وغیرہ وغیرہ۔ استاد محترم لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ تمام احوال وزیراعظم میاں نواز شریف کو بتایا تو وہ بہت افسردہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ دیکھیں صدیقی صاحب! ملک کے وزیراعظم کا یہ حال ہے کہ چیف ایگزیکٹو ہوتے ہوئے بھی وہ اپنی مرضی کی کابینہ تک نہیں بنا سکتا، اِسی لیے میں کہتا ہوں کہ وزارتِ عظمیٰ تو اب ایک نوکری بن کر رہ گئی ہے کہ سر جھکا کر نوکری کرتے رہو ورنہ کٹہرے میں کھڑے کر دیے جاؤ گے۔ میاں نواز شریف صاحب کی طرف سے کچھ اور بھی گلے شکوے کیے گئے ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اتنے ہی بے اختیار تھے تو اُنہوں نے کیوں یہ 'نوکری‘ کرنا گوارا کی۔ اگر وہ اتنے ہی بے اختیار تھے تو یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر قوم کو بتاتے کہ ہمارے ملک کا وزیراعظم کتنا بے اختیار ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ بے اختیار ہیں لیکن اقتدار پھر بھی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ آپ گلے شکوے بھی کرتے رہے اور تب تک اقتدار سے بھی چمٹے رہے جب تک اقتدار سے محروم نہ کر دیا گیا۔
دیکھا جائے تو اوپر سے نیچے تک یہی چلن رائج ہے۔ ہمارے سامنے ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب صاحبِ اختیار ہوتے ہیں تو اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دیتے۔ اکثر و بیشتر ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کماتے ہیں۔ نہ صرف مقتدر حلقوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں بلکہ اُن کا دست و بازو بھی بنتے ہیں۔ پوری عملی زندگی اس طور گزارنے کے بعد جب ریٹائر ہوتے ہیں تو پھر نیکی اور سچائی کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ شاید ہی ایسی کوئی مثال ملتی ہو کہ سیدھی راہ پر چلنے سے پہلے ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت سے جان چھڑائی گئی ہو۔ ہمیں آج تک اِس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ جب اختیار ہاتھ میں ہو تو دوسروں کے حقوق غصب اور سلب کرو۔ جائز اور ناجائز طریقے سے خوب دولت کماؤ اور پھر سچائی کے راستے پر چل نکلو۔ ہم نے کئی علمائے کرام سے بھی پوچھا کہ کیا ایسا کرنے سے دوسروں کے حقوق پامال کرنے کا ازالہ ہو جاتا ہے؟ ہر کسی کی طرف سے اِس کا جواب نفی میں دیا گیا۔ یہ بات یقینا عوام کو بھی پتا ہے لیکن کیا کیا جائے‘ آج ہمارے معاشرے میں یہی چلن رائج ہو چکا ہے۔ اِسی طرح جب تک سیاستدان اقتدار میں رہتے ہیں تو سب اچھا کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو پھر اس بات پر تاسف کا اظہار کرنے لگتے ہیں کہ ہمیں تو کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد شکایات کے انبار لگا دیے جاتے ہیں۔ یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت اور وزیراعظم کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ قریب ایک سال قبل جب عمران خان اقتدار سے باہر آئے تو آتے ہی اُنہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اُنہیں تو کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا تھا اور وہ بے اختیار وزیراعظم تھے۔ اُنہوں نے واضح طور پر کہا کہ وزیراعظم تو وہ تھے لیکن حکومت کوئی اور کر رہا تھا۔ یہ بات اُس سابق وزیراعظم کی طرف سے کہی گئی جو اپنے دورِ اقتدار میں بیشتر وقت میں ایک پیج‘ ایک پیج کی گردان کیا کرتا تھا۔
قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان تو ابھی کل کی با ت ہے جس میں اُنہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ حمزہ شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے پر اُنہوں نے خوب کلاس لی تھی۔ بقول باجوہ صاحب‘ شہباز شریف سے کچھ بھی کہتے رہیں‘ وہ سر جھکا کر سنتے رہتے ہیں۔ آج تک شہباز شریف کی طرف سے اِس بیان کی تردید نہیں آئی۔ حالات اِس نہج پر پہنچ جانے کے باوجود اقتدار بچانے کے لیے کون کون سے پاپڑ نہیں بیلے جا رہے۔ سو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چاہے سیاست دان کتنے ہی بے اختیار کیوں نہ ہوں لیکن پھر بھی اپنا اقتدار بچانے کے لیے وہ ہر ممکن حد تک جاتے ہیں۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو بے اختیار ہونے کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل اقتدار میں موجودگی ہی تمام شان و شوکت کا جواز فراہم کرتی ہے۔ اپنے خلاف مقدمات ختم کرائے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ سے تحائف لیے جاتے ہیں۔ بیرونِ ملک جائیدادیں بنائی جاتی ہیں۔ آف شور کمپنیاں بنا کر ملکی دولت دوسرے ممالک میں منتقل کی جاتی ہے۔ کوئی ایک بڑا سیاستدان بتا دیں جس پر بدعنوانی کے الزامات نہ ہوں۔ یہ سب اقتدار کی مرہونِ منت ہی ہوتا ہے۔ سیاستدانوں نے قوم کو لے کر چلنا ہوتا ہے۔ جب یہ خواہ مخواہ کے گلے شکوے کرتے ہیں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اگر آج سیاستدان یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ کسی غیر جمہوری طاقت کو اپنا کندھا پیش نہیں کریں گے تو کون اپنے دائرے سے باہر نکل کر اِن کی کلاس لے سکے گا؟ لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ اقتدار کا چسکا ہی ایسا ہے جو ایک بار لگ جائے تو پھر جان نہیں چھوڑتا۔ سو یہ سب اقتدار کیلئے آپس میں لڑتے بھی رہیں گے اور اپنے بے اختیار ہونے کا رونا بھی روتے رہیں گے۔ اس حرمان نصیب ملک اور اس کے سیاستدانوں کی بس اتنی ہی کہانی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں