"FBC" (space) message & send to 7575

جب حکومت ہی اپنا اعتبار کھو دے…

سب کچھ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، اعلیٰ ترین سطح پر بھی دن رات جھوٹ ہی سننے کو مل رہا ہے۔ عوام کو ایمانداری اور کفایت شعاری سے زندگی گزارنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور خود مختلف حیلے بہانوں سے قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا جس کی کوئی کریڈیبلٹی باقی رہ گئی ہو۔ مہنگائی الگ سے عام آدمی کی سانسیں کھینچ رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب کچھ سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ حکومت اپنی کرنی پر آئے تو سپریم کورٹ کے احکام ماننے سے بھی انکاری ہو جائے۔ آئین کی گارڈین سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کرائے جائیں لیکن پوری حکومتی مشینری اِس حکم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہو گئی کہ ہم اِس حکم کو نہیں مانتے۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے ایسی ایسی شرائط پیش کی جا رہی ہیں کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ قوم کو باور کرایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم غیر آئینی اور ملک و قوم کے مفادات کے خلاف ہے اِس لیے اسے نہیں مانا جا سکتا۔ وزیرداخلہ ببانگِ دہل کہہ چکے ہیں کہ جو مرضی کر لیں‘ سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ پر انتخابات نہیں ہوں گے۔ اندازہ لگائیے کہ حکومت ہمیں کہاں تک لے جانے کا تہیہ کر چکی ہے۔ وزیر دفاع صاحب فرما رہے ہیں کہ اگر عدالت نے وزیراعظم کو توہینِ عدالت پر نااہل کیا تو حکومت یہ حکم نہیں مانے گی۔ ملک کا وزیر دفاع ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر ملک کے ایک اہم آئینی ادارے کی حکم عدولی کا عندیہ دیا رہا ہے۔ مخصوص سیاسی مقاصد کی خاطر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر ایسے ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ آڈیو، وڈیو لیکس ماہرین اپنا کردار بخوبی ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہر ٹیپ لیک کے بعد الزامات کی ایک 'پنڈ‘ کھول لی جاتی ہے۔ یہ اعزاز بھی ہمارے ملک کے حصے میں ہی آیا ہے کہ انتخابات کرانے کا ذمہ دار ادارہ کہتا ہے کہ وہ الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وزارتِ دفاع کہتی ہے کہ اس کے پاس سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے اہلکاروں کی شدید کمی ہے۔ سب کو بخوبی علم ہے کہ یہ بہانے بازیاں بلکہ یہ ہٹ دھرمی کیوں دکھائی جا رہی ہے۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب ساتھ ہی آئین کی بالادستی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کا راگ بھی الاپا جاتا ہے۔ یعنی ایک طرف تو آئین سے متضاد سمت کا انتخاب کیا جاتا ہے، اعلیٰ ترین عدلیہ کے احکامات کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے اور پھر ایسی بیان بازی کر کے عوام کر زخموں پر نمک بھی چھڑکا جاتا ہے۔
لگ بھگ ایک سال قبل ایک ڈگمگاتی مگر چلتی ہوئی حکومت کو راتوں رات گھر کا راستہ دکھا دیا گیا اور پھر مفلس ملک و قوم پر 86 رکنی کابینہ والی ایسی حکومت کا بوجھ لاد دیا گیا جسے اُٹھانے کے چکر میں پہلے سے ہانپتے کانپتے عوام مزید زیربار ہو گئے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود ملک میں اِس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اورکوئی سوال کرنے والا نہیں۔ جب سابق دورِ حکومت میں پٹرول کی قیمت بڑھتی تھی تو مریم اورنگزیب صاحبہ، نور عالم، رضا ربانی، مصدق ملک، رانا ثناء اللہ اور مولانا فضل الرحمن صاحب سمیت سب کے سب آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے۔ تب کی حکومت کو ایسے ایسے القابات سے نوازا جاتا تھا کہ اب انہیں دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔ ایوان میں کیا کیا پوسٹر نہیں لہرائے جاتے تھے مگر آج یہ عالم ہو چکا ہے کہ ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 280 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ بجلی کے نرخوں کو آسمان پر پہنچا دیا گیا ہے، پوری قوم آٹے کی لائنوں میں لگی ہوئی ہے۔ مارکیٹ میں آٹا نایاب ہے۔ گندم کی ''بمپر فصل‘‘ کی کٹائی ہو چکی ہے مگر آٹا نہیں مل رہا۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال فی من گندم کی قیمت دوگنا ہو چکی ہے۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے لیکن بارہ‘ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کے لیے سب اچھا ہے۔ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ جو ماضی میں آج کے برسر اقتدار لوگوں کی بدعنوانی کے ثبوت دکھایا کرتے تھے‘ جو گلہ کرتے تھے کہ جب ایک ہی جیسے لوگوں کو بار بار چُنا جائے گا تو ملک کیسے سیدھی راہ پر پڑے گا‘ آج وہ بھی خاموش ہیں۔ پہلے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جوڑ کر پی ٹی آئی کا کنبہ تراشا گیا اور جب عمران خان سے دوریاں پیدا ہوئیں تو پھر انہی پرانے لوگوں کو لاکر بٹھا دیا گیا۔ اب ملک کی جو حالت ہو چکی ہے‘ اِس کے لیے سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔ سات دہائیوں سے ملک کو ایک تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے جہاں نت نئے حکومتی تجربے کیے جاتے ہیں۔ اب یہ بات بلاشک و شبہ کی جا سکتی ہے کہ ہمارے دامن میں اب صرف پچھتاوے ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن اِس کے باوجود کہیں بھی کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔
اِس تمام تر صورتِ حال کا اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو ہم بحیثیت قوم اور ریاست ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمیں یہاں تک پہنچانے میں ہمارے اداروں کا کردار نمایاں رہا ہے جنہوں نے آئین اور قانون کی رٹ ہی قائم نہیں ہونے دی۔ ہوتے ہوتے صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ اب کسی کو کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ یہ کسی ایک ادارے کی بات ہرگز نہیں۔ اوپر سے نیچے تک پورا نظام اپنی جگہ سے ہلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حصولِ انصاف کی جدوجہد میں لوگوں کی نسلیں کھپ جاتی ہیں، گھربار بک جاتے ہیں لیکن انصاف میسر نہیں ہو پاتا۔ کچہریوں میں صبح صبح آنے والے سائلین تمام دن بیٹھ بیٹھ کر کل دوبارہ آنے کے لیے مایوس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے مسیحا بھی اپنے چاقو چھریاں تیز کیے بیٹھے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی وہ رپورٹ ذہنوں میں تازہ کر لیں جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں کم از کم 70 فیصد تک ٹیسٹ بلاوجہ لکھ دیے جاتے ہیں، بظاہر اس کا مقصد اپنے کمیشن کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟ ملاوٹ پر قابو پانے کے ذمہ دار ادارے خود ملاوٹ کے طریقے بتاتے ہیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے ذمہ دار اداروں کے اہلکار خود ٹیکس چوری کے راستے سجھاتے ہیں اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا جس پر عوام کو اعتبار و یقین ہو۔ افسوس کہ یہ چلن اوپر کی سطح سے شروع ہوا اور آج یہ جڑوں تک پہنچ کر پورے سسٹم کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ حکمرانوں نے اپنے مقاصد اور مفادات کے تحت آئین و قانون سے کھلواڑ شروع کیا تو ہوتے ہوتے یہ کلچر نچلی سطح تک سرایت کرنے لگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت ایماندار ہو‘ قانون پر عمل پیرا ہو اور کوئی شخص ٹریفک سگنل بھی توڑ جائے۔ اُس کو یہ جرأت ہی نہیں ہو سکتی لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ حکمران اور طاقتور اشرافیہ خود تو عیش کر رہے ہیں تو پھر وہ قانون توڑنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ آج دیکھ لیں کہ بجلی اور گیس وغیرہ کے ادارے کس طرح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ بلنگ کے ایسے ایسے فارمولے وضع کیے گئے ہیں کہ جنہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات ہی نہیں۔ آئے دن مختلف مدات میں ٹیکسوں اور چارجز میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں گیس کا میٹر رینٹ 40 روپے سے بڑھا کر 500 روپے کر دیا گیا۔ سالہا سال سے یہ چارجز ادا کیے جا رہے ہیں مگر عوام کے سروں پر لادا گیا یہ ''قرض‘‘ ادا ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ کیا ریاست نہیں جانتی کہ اُس کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے؟ لیکن وہ اِس ظلم و ستم کو کبھی نہیں روکے گی کیونکہ یہ سب کچھ اُسی کے ایما پر ہو رہا ہے۔ تین‘ تین دہائیوں تک ملک میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے اب بھی گزشتہ حکومت کو تمام برائیوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ آج ہماری نظریں ماضی کے ان رہنماؤں کو ڈھونڈ رہی ہیں‘ ماضی قریب میں جو دو روپے پٹرول مہنگا ہونے‘ روٹی یا آٹے کی قیمت بڑھ جانے اور بجلی کے ہوشربا بلوں پر آسمان سر پر اٹھا لیا کرتے تھے۔عوام کے غم میں جنہیں رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی لیکن آج نجانے یہ سب کیسے لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات کے بارے میں کبھی کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم اِس حالت کو بھی پہنچ سکتے ہیں، مگر یہ ہونی بھی ہو کر رہی۔ سب سے بڑھ کر افسوس اِس بات کا ہے کہ آج ہم اخلاقی طور پر بھی پسماندہ ہو چکے ہیں۔ بارہ‘ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد میں سے کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں جو ان حالات پر احتجاجاً ہی استعفیٰ دے دیتا۔ شاید ایسا کوئی منظر دیکھنے کو ملے گا بھی نہیں‘ کیونکہ ہم بحیثیت قوم مفاد پرست اور اقتدار پرست ہو چکے ہیں۔ ہمیں صرف اپنے لیے طاقت اور بے تحاشا پیسہ چاہیے‘ ملک و قوم کی کسے فکر ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں