"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ نہیں تبدیل ہونے والا

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں پر بیشتر شہری ارکانِ دین پر پوری پابندی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پورے ملک میں لاکھوں مساجد ہیں‘ جہاں ہر روز پانچ وقت کی نماز کے بعد خشوع و خضوع سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے رحم کی درخواست کی جاتی ہے۔ دعا کی جاتی ہے کہ یا باری تعالیٰ ہمیں نیک بنا دے، اپنے راستے پر چلنے والا بنا دے، پاکستان کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ کر دے، دوسروں کا حق غصب کرنے والوں کو ہدایت دے، اس ملک و معاشرے کو امن کو گہوارا بنا دے۔ مساجد میں مانگی جانے والی دعاؤں کے ساتھ گھروں میں بھی محافل کے دوران رو‘ رو کر ایسی دعائیں مانگی جاتی ہیں، لاتعداد علمائے کرام ہرروز ہمیں جوش وخروش سے تلقین کرتے سنائی دیتے ہیں اور آخرت کی جوابدہی اور قبر و جہنم کے عذاب سے خبردار کرتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنی دعائیں مانگے جانے کے باوجود اور برائی کے راستے پر چلنے کی وعید سے باخبر ہونے کے باوجود عملی زندگی میں ان کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں کم و بیش چھیانوے فیصد مسلمان آباد ہیں اور اسلام وہ دین ہے جو مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضوابط بھی لاگو کرتا ہے۔ اس کے باوجود آج ہمارا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ رشوت خون کی طرح ہمارے جسموں میں دوڑتی ہے اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مائی کا لعل صورت حال میں بہتری نہیں لا سکتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر سے نیچے تک پورا سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے۔ ہر کوئی دونوں ہاتھوں سے مال بٹورنے کی فکر میں غلطاں ہے تاکہ بیرونِ ملک جائیددایں خریدی جا سکیں۔ جو ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں‘ وہ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں بیرونِ ملک جانے کے خواہشمندوں کی تعداد میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ نوجوان نسل پوری طرح سے حالات سے ناامید ہو چکی ہے۔ صرف نوجوان ہی نہیں‘ تجربہ کار سیاستدان بھی ملکی نظام کے ''کولیپس‘‘ کر جانے کی خبریں سنا رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ ہمارا پورا نظام کرپٹ ہو چکا ہے، اچھے سے اچھے منصوبے کا بیس سے پچیس فیصد کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ 25 فیصد کرپشن کے اعداد و شمار کم ہیں۔ مسائل کے حل کے حوالے سے انہوں نے کہا انتخابات اس مسئلے کا حل نہیں ہیں، یہ انتخابات کا معاملہ نہیں ہے کہ کون اقتدار یا حکومت میں ہے بلکہ نظام ہی خراب ہو چکا ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف ہم سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور دن‘ رات دعاؤں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم خلوص سے عاری ہیں۔ ہم سبھی اس برائی میں حصہ دار ہیں‘ پھر اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش ہم میں کیوں ہو گی؟ یہی وجہ ہے کہ ہم دعائیں مانگ کر مساجد سے باہر نکلتے ہیں اور نکلنے کے ساتھ ہی دوبارہ پہلے جیسے ہوجاتے ہیں۔ مجھے معاف کیجئے گا‘ اگر میں یہ کہوں کہ بیشتر صورتوں میں ہم عبادت کے دوران بھی یہی کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ میں واپسی پر فلاں سے رشوت کی باقی رقم وصول کروں گا‘ فلاں طریقے سے اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا لوں گا، تو غلط نہ ہو گا۔ اپنی آنکھوں سے ہم اتنے واقعات دیکھ چکے ہیں کہ اب یہ سب کچھ معمول کی بات لگتی ہے۔ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا جہاں بدعنوانی نے اپنے پنجے نہیں گاڑ رکھے لیکن سسٹم کو بدلنے کی خواہش بھی جوش وخروش سے موجزن رہتی ہے۔
کم از کم دس لوگوں کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں جنہوں نے سرکاری ملازمت کے دوران اتنا مال کمایا کہ اُن کے لیے اِسے سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔ ریٹائر ہوئے تو پھرہم نے اُنہیں روروکر دعائیں کرتے ہوئے دیکھا۔اُن کی باتیں سن کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے کیے پر بہت شرمند ہ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہولیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا شرمندہ ہونے پر اُنہوں نے اپنا ناجائز طریقے سے کمایا گیا مال اُن کو واپس کردیا تھا جن سے یہ اینٹھا گیا تھا؟کیا تائب ہونے پر اُنہوں نے اِس مال سے جان چھڑا لی تھی؟ ہرگز نہیں! بلکہ اسی مال سے انہوں نے کوٹھیاں اور بنگلے بنائے ، اپنی اولاد کو بیرونِ ملک پڑھنے کے لیے بھیجا اور سب کچھ کرنے کے بعد پچھتاوے کا ڈھونگ رچانے لگے۔ یہ لوگ بھی دعائیں کررہے ہوتے ہیں کہ یااللہ! ہمارے ملک سے رشوت کا خاتمہ کردے۔ یہ تو دس بارہ ان لوگوں کی بابت بتایا جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں‘ ورنہ یہاں تو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ہاں‘ اُن میں اتنی تبدیلی ضروردیکھی کہ وہ کافی خیرات کرنے لگے تھے ۔یہ تو وہی بات ہوگئی کہ پہلے زور زبردستی سے لوگوں کا حق چھینو‘ انہیں دو وقت کی روٹی سے محروم کر دو اور پھر ان میں راشن تقسیم کرنے لگو۔ ایسے افراد مقتدر حلقوں سے بھی خوب بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں قیمتی تحائف دیے جاتے ہیں۔ ہمارے رہنماؤں کی ڈھٹائی ملاحظہ کریں کہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی یہ تحفے قبول کرتے ہیں۔ اُنہیں خوب معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحفہ اُنہیں کس مقصد کے لیے دیا جارہا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ دولت کی ہوس نے ہماری روحوں تک پر قبضہ کررکھا ہے۔ رہنماؤں کی دیکھا دیکھااب یہ چلن نیچے تک اپنی جڑیں سرایت کر چکا ہے۔ ایک طرف جس تیز رفتاری سے بدعنوانی‘، اپنے فرائض سے غفلت اور اپنے حلف سے روگردانی جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، اُسی تناسب سے ہمارا گریہ بھی رقت آمیز ہوتا جارہا ہے۔ عمرہ زائرین کی سب سے زیادہ تعداد ہمارے ملک ہی سے جاتی ہے۔ حج کرنے والوں میں بھی پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہوتی ہے لیکن پھر بھی اِن عبادات کا ہماری زندگیوں پر کوئی اثر کیوں مرتب نہیں ہورہا؟یہ اثر کبھی مرتب ہوگا بھی نہیں؟ کیا ہم فطرتاً بدنیت ہوچکے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہماری زبان پر کچھ اور ہوتا ہے اور دلوں میں کچھ اور ہوتا ہے؟ بابا بلھے شاہ نے کہا تھا:
باروں دھوتے لتاں گوڈے، اندرے رہی پلیتی
تیرا دل کھڈاوے منڈے کڑیاں، سجدے کریں مسیتیں
پہلے لاویں ہتھ کناں نوں، فیر نماز تئیں نیتی
دنیا دارا رب نال وی چار سو وی تئیں کیتی
مفہوم: ''تم باہر سے تو اپنا جسم دھو لیتے ہو مگر تمہارے اندر کی ناپاکی وہیں رہتی ہے۔ مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے بھی تمہارا دھیان اپنے بال بچوں‘ پوتے پوتیوں کی طرف ہوتا ہے۔ تکبیر تحریمہ سے تم نماز تو شروع کر لیتے ہو مگر اپنا آپ نہیں بدلتے، تم ایسے دنیا دار ہو جو رب کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتاہے‘‘۔ سب جانتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کا مال کھانے والا تب تک اپنے گناہوں سے نجات نہیں حاصل کرسکے گا جب تک متاثرہ شخص اُسے معاف نہیں کرے گا۔ کیالوگوں کا مال چھین کر کچھ پیسوں سے خیرات کر دینے سے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے؟کیا رشوت کے مال سے ہرسال عمرہ اور قربانی کرنے سے گناہ بخش دیے جاتے ہیں؟ہم کوئی عالم فاضل تو نہیں ہیں کہ مذہبی تناظر میں کوئی توضیح پیش کرسکیں لیکن اِن سادہ سی باتوں کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہرگز نہیں۔ بے شمار سکالرز ہمیں سیدھے راستے پر چلانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے جو ہم پر اُن کی باتوں کا رتی برابر بھی اثر دکھائی دے۔یہ اثر ہو بھی نہیں سکتا ۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری ہر سرگرمی اپنی جیب کے گرد گھومتی ہے ۔ ہمارے دلوں میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان کچھ اور ورد کررہی ہوتی ہے۔ جب تک ہم دوسروں کے حقوق غصب کرنا نہیں چھوڑیں گے‘ تب تک رسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔ ہم نے آج تک حالات کو بگڑتے ہی دیکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں کا کھوٹ دور کیے بغیر کچھ نہیں سکتا۔ جب تک ہم اپنے حلف کی پاسداری نہیں کریں گے‘ جب تک قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوگی‘ جب تک دلوں کا کھوٹ دور نہیں کریں گے‘ تب تک ہم لاکھ تبدیلی کی خواہش کرتے رہیں‘ کچھ تبدیل ہونے والا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں