"FBC" (space) message & send to 7575

میکاولی کے ’’اقوالِ زریں‘‘

سیاسیات کے میدان میں میکاولی کا ایک خاص مقام ہے۔ یہ حکمرانوں یا حکمرانی کے خواہش مندوں کو ایسی ایسی باتیں بتا کر گیا ہے کہ اگر ان باتوں کو پلے باندھ لیں تو اپنے مقاصد حاصل کر لیں۔ 1469ء میں پیدا ہونے والے اِس اطالوی مفکر کو دنیا سے گزرے ہوئے کئی صدیاں بیت چکی ہیں مگر اُس کے ''شاندار افکار‘‘ ہمارے جیسے ممالک میں حکمرانی کے خواہش مندوں کی آج بھی بھرپور رہنمائی کررہے ہیں۔ کبھی موقع ملے تو اِس کی کتاب ''دی پرنس‘‘ کا مطالعہ کیجئے، اسے پڑھ کر یہ سمجھنا بہت آسان ہوجائے گاکہ حکمران یا حکمرانی کے خواہش مند کس طرح کی پالیسی اپناتے ہیں۔ اپنی کتاب میں میکاولی کہتا ہے کہ صحیح معنوں میں حکمران بننا چاہتے ہو تو خبردار! کبھی اخلاقیات کا دامن نہ تھامنا۔ میکاولی کا ایک ''سنہری‘‘ قول ہے کہ اگر ایک کامیاب سیاستدان کو اپنے وعدے نبھانے سے کوئی سیاسی نقصان ہورہا ہو تو اُسے ہرگز اپنے الفاظ کی پاسداری نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں 2008ء کا سیاسی منظر نامہ یاد کیجیے۔ ملک میں پیپلزپارٹی برسرِ اقتدار آچکی تھی‘ آصف علی زرداری ملکی صدارت کے اُمیدوار تھے۔ اس وقت ملک میں ججز بحالی کی تحریک چل رہی تھی‘ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی حکمران جماعت سے اُن ججوں کی بحالی کا مطالبہ کررہی تھی جنہیں پرویز مشرف نے یک جنبشِ قلم برطرف کر دیا تھا۔ یہ مطالبہ اُس معاہدے کے تناظر میں کیا جارہا تھا جو انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مابین طے پایا تھا۔ اِس معاہدے میں ججوں کی بحالی پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن اب پیپلز پارٹی اِس پر آمادہ نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اِس موقع پر آصف علی زرداری نے ایک مشہور جملہ بولا‘ جو ہماری ملکی سیاسی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے جن میں وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق تبدیلی نہ کی جاسکے۔ یہ یقینا میکا ولی کے اصولوں سے اخذ کردہ بیان تھا۔ اس کے اقوال سے فائدہ اُٹھانے کی ایسی بے شمار مثالیں اب ہماری سیاست میں لازوال حیثیت حاصل کرچکی ہیں۔ کتابِ سیاست کے ہرصفحے پر ایسی کوئی نہ کوئی مثال ہماری رہنمائی کے لیے ضرور موجود ہے۔ اِس کے لیے کسی مخصوص دور کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ ایک بھولا بسرا مگر تلخ واقعہ وہ ہے جب آج سے لگ بھگ 62سال پہلے ایک ڈکٹیٹر نے باغی بلوچ سرداروں کو عام معافی کا وعدہ کر کے پہاڑوں سے اُتارا تھا اور بعد میں وعدہ خلافی کرتے ہوئے اِن میں سے کئی افراد کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
یہ میکا ولی کے ہی 'اقوالِ زریں‘ ہیں جو حکمرانوں کو شاندار اندازِ حکمرانی اپنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ موصوف کا مشورہ ہے کہ اگر آپ کے خلاف کوئی جال بچھایا جائے تو اِسے پہچاننے کے لیے آپ کو لومڑی کی طرح ہوشیار اور چالاک ہونا چاہیے، بھیڑیوں کو ڈرا کر بھگانے کے لیے شیر کی طرح بہادر ہونا چاہیے۔ جو لوگ محض شیر کی طرح بہادر بننے کی کوشش کرتے ہیں اور لومڑی والی ہوشیاری اور چالاکی کو فراموش کر دیتے ہیں‘ وہ اکثر ناکام ہوتے ہیں۔ کیا شاندار فلسفہ ہے کہ ایک حکمران کے اندر لومڑی اور شیر‘ دونوں جیسی خصوصیات ہونی چاہئیں اور اُسے اپنے کسی بھی ایسے وعدے پر قائم نہیں رہنا چاہیے جس کے باعث اُسے سیاسی طور پر نقصان ہورہا ہو۔ سب سے اچھا قول‘ جس پر ہمارے تقریباً سبھی حکمران پورے جوش وخروش سے عمل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یہ انتخاب کرنا ہو کہ آپ کو ایسا حکمران بننا چاہیے جس سے عوام خوفزدہ ہوں یا پھر ایسا حکمران جس سے عوام محبت کریں‘ پھرآپ کو ایسا حکمران بننا چاہیے جو عوام کو خوفزدہ کرکے حکمرانی کرے۔ کیا ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی ایسا ہے جس نے اِس بات پر عمل نہ کیا ہو؟ وہ لوگ جو دوسرے ممالک میں قطار میں کھڑے ہو کر سڑک پار کرنے کے لیے سنگل کھلنے کے منتظر رہتے ہیں‘ ہمارے حکمران بنتے ہی اُن کا تکبر اور کروفر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اگر کسی حاکمِ وقت نے کہیں جانا ہوتو کئی روز پہلے ہی دورے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ ایک سے دوسری جگہ جانے کے دوران درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول قافلے کی صورت میں ساتھ حرکت کرتا ہے۔ ایمبولینسز اور آگ بجھانے والی گاڑیاں بھی پروٹوکول قافلے کا حصہ ہوتی ہیں۔ ہٹو بچوکی ایسی آوازیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کیا ہم ہرروز ایسے مناظر نہیں دیکھتے کہ پروٹوکول کے راستے میں آجانے والوں کو خوب سبق سکھایا جاتا ہے۔ اگر کسی افسر سے جانے‘ انجانے میں کوئی غلطی ہوجائے تو اُس کے کان بھی اچھی طرح کھینچے جاتے ہیں۔ کیا یہ مثالیں ہماری تاریخ کا حصہ نہیں کہ کسی افسر کو محض اس لیے معطل کر دیا کہ شاہانِ زماں کے قافلے کو فلاں جگہ ایک اشارہ بند ملا تھا یا وہاں ٹریفک جام کی سی صورتحال تھی۔ یہ معطلی صرف ایک شخص کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اِس کا مقصد دوسروں کو سبق سکھانا بھی ہوتا ہے۔
میکا ولی نے حکمرانوں کو خوب اچھی طرح یہ سبق پڑھادیا کہ خبردار! کبھی اخلاقیات اور کردار کے جنجال میں پھنسنے کی غلطی مت کربیٹھنا۔ میکا ولی کے نزدیک کسی بادشاہ کے لیے اخلاق و کردار سے کام لینا ایک بہت بڑی غلطی ہے اور آفرین ہے کہ بیشتر حکمرانوں نے اس اصول کو بھی دل و جان سے اپنایا۔ ایک اور سبق اُس نے یہ پڑھایا کہ اپنے مفادات کے لیے باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مطلب اگرآپ کے ملک کی معیشت دم رہی ہوتو بھی آپ نے یہی گردان اپنائے رکھنی ہے کہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ عوام بھلے بھوکوں مر رہے ہوں‘ لیکن آپ نے دن رات یہی کہنا ہے کہ عوام کی حالت میں تیزی سے بہتری آرہی ہے۔ چاہے آئین و قانون کا جنازہ نکل چکا ہو لیکن آپ نے خود کو انصاف پسند حکمران قرار دیتے رہنا ہے۔ ایک شاندار نسخہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو فیاض اور غنی بادشاہ یا حکمران کے طور پر جانا جائے تو ایسا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کہ لوگ آپ کو فیاض اور غنی تسلیم کریں۔ اِس کے لیے بڑے بڑے اشتہارات کی صورت میں اپنی عنایات کا خوب اظہار کریں۔ میکاولی کے مطابق کسی حکمران کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ اخلاقی اقدار کی طرف زیادہ توجہ دے‘ کیونکہ اِس سے اس کی حکمرانی کے کمزور ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح کے اور کتنے ہی مشورے ہیں جو میکاولی نے حکمرانوں کو مفت میں دیے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن کاش کہ وہ ساتھ یہ بھی بتا دیتا کہ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود اگر حکومت کوئی کارکردگی نہ دکھا سکے تو پھر کیا کیا جائے۔ اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اقتدار کو دوام حاصل نہ ہورہا ہو تو پھر کیا کیا جائے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ لگے ہاتھوں ایسے بھی چند ٹوٹکے بتا جاتا۔ دل پر ہاتھ رکھ بتائیے‘ کیا ہمارے بیشتر حکمرانوں نے مذکورہ باتوں پر عمل کر کے حکومت حاصل کرنے یا اِسے برقرار رکھنے کی کوششیں نہیں کیں؟افسوس کہ اِس کے باوجود اقتدار ہاتھ سے کھسک جاتا ہے۔ کون سی ایسی حکومت ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ اُس نے خوف کی فضا پیدا کرنے کے بجائے عوام کے دلوں میں محبت راسخ کرنے کو فروغ دیا؟کوئی ایسا حکمران ہے جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ اُس نے صحیح معنوں میں حقِ حکمرانی اداکیا؟ سب کی ایک ہی روش رہی کہ اپنی حکومت کو قائم رکھو‘ خواہ زور زبردستی سے کام لو۔ اقتدار کے حصول کا مقصد ہی ذاتی مفادات کا تحفظ رہا۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جس نے اب بگاڑ کو چہار سو پھیلا دیا ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہی پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ سانچ کو آنچ نہیں‘ دوسروں کا احترام کرنا چاہیے‘ ملکی مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ ایسی کتنی ہی باتیں ہیں مگر کیا اِن پر کوئی عمل ہوتا ہوا نظر آیا؟ آج صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ رہی سہی اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑتی نظرآ رہی ہیں۔ ملکی تاریخ میں جو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا‘ آج وہ سب بھی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یقینا میکاولی اس تمام صورتحال پر بہت خوش ہو گا کہ آج بھی دنیا اس کے اصولوں پر عمل پیرا ہے اور شاید اُس کی باتوں پر سب سے زیادہ عمل ہمارے حکمرانوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں