"FBC" (space) message & send to 7575

کردار بدلتے ہیں‘ کہانی نہیں

ایسا ہی ہے میرا ملک‘ جس کا ہردور ایک جیسا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے وقت تھم چکا ہے۔ وہی کھیل تماشے اور ملکی مفادات کے نام پر ذاتی مفادات کے تحفظ کا کھیل۔ وہی سیاسی مخالفین پر ظلم و تشدد کا سلسلہ اور وہی ایک دوسرے کے خلاف ناقابلِ بیان الزامات کا لامتناہی سلسلہ۔ وہی روتے بلبلاتے اور فریاد کرتے ہوئے عوام کہ اگر کھیل تماشوں سے فرصت مل جائے تو خدارا! ہماری طرف بھی توجہ دے لیں۔ بس ایسا ہی ہے میرا ملک‘ جہاں سات دہائیوں سے زائد عرصے میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ وہی روش کہ ایک پارٹی بنا لو اور جب اُس سے دل بھر جائے تو پھر اُسے توڑنے کا عمل شروع کردو۔ اِس عمل کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی ابتدا قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد شروع ہوگئی تھی۔ خیر‘ وہ تو پرانی باتیں ہیں‘ گزشتہ ڈیڑھ‘ دو دہائیوں کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے توبھی یہی سب کچھ ہوتا نظرآتا ہے۔ کبھی مسلم لیگ سے مسلم لیگ (ق) نکل آتی ہے تو کبھی پیپلزپارٹی سے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ جنم لیتی ہے۔ ایم کیوایم کے تو کئی حصے بخرے ہوچکے اور اب یہی کھیل ایک بار پھر پورے زوروشور سے کھیلا جارہا ہے۔ اب تحریک انصاف کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پہلے اس میں اتنی ہوا بھری گئی کہ پھول کر کپا بن گئی مگر آج اِس پر بھی وہی حربے آزمائے جا رہے ہیں جو ماضی میں دیگر جماعتوں پر آزمائے جاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے آئین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے‘ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی تمام حربے استعمال ہورہے ہیں۔ صد افسوس کہ اِس کارِخیر میں ملک کی تیرہ سیاسی جماعتیں بھرپورحصہ لے رہی ہیں۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں‘ جو ہمیشہ جمہوریت کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی کا سبق پڑھاتی رہی ہیں‘آج ان جماعتوں کے رہنماؤں کی گفتگو سنیں تو کہیں سے خیر کا کوئی پہلو نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ صبح و شام بس ایک گردان کہ ملک دشمنوں سے مذاکرات نہیں ہوں گے، اُنہوں نے یہ کردیا،اُنہوں نے وہ کردیا۔ ہر وقت یہی بیانات سنائی دیتے رہتے ہیں۔
اگرچہ ہماری سیاسی تاریخ میں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے لیکن اِس مرتبہ بہت کچھ ایسا بھی ہورہا ہے جو پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ کچھ ایسا جس نے نہ صرف ہمارے دلوں کو دکھی کیا ہے بلکہ جس نے بیرونی دنیا میں ہمارے تشخص کو مزید مجروح کیا ہے۔ جیلوں میں خواتین کو قید کرنا اور پھر ان سے متعلق افواہیں۔ بیرونی ادارے بھی اب اِس پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ صد شکر کہ گزشتہ روز پیشی پر عدالت آنے والی خواتین نے جیل میں کسی بھی بدسلوکی کی تردید کی ہے۔ ہم تو پہلے دن سے دعا کر رہے تھے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہو؛ البتہ دل پھر بھی افسردہ ہے کہ ایسی باتیں کیے جانے کی نوبت ہی کیوں آئی۔ حد تو یہ ہے کہ وہ حکومتی شخصیات بھی ایسے معاملات پر چپ سادھے بیٹھی ہیں جو خود بھی کسی نہ کسی طور ماضی میں اِس قسم کی صورت حال کا سامنا کرچکی ہیں۔ اُن کے اِس طرزِ عمل سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بس اقتدار ہی سب سے اہم ترجیح ہے‘ چاہے اِس کے لیے اپنے ضمیر یا اصولوں کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
ایسے وقت میں جب ملک اپنی معاشی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے‘ جب مہنگائی کی شرح 47 فیصد تک جا پہنچی ہے‘ جب مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے‘ جب ہرروز بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے‘ جب عالمی ادارے متنبہ کررہے ہیں کہ پاکستان خوراک کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جب تمام تر اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کی طرف سے قرض فراہم نہیں کیا جا رہا‘ جب بیرونی دنیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اُٹھا رہی ہے‘ جب دشمن ہماری بھد اُڑا رہے ہیں‘ جب ہمارے دوست ممالک اور مالیاتی ادارے ہمیں سیاسی استحکام کا مشورہ دے رہے ہیں‘ جب موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک طوفان ہمارے ملک میں داخل ہوچکا ہے‘ جب امن و امان کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہو چکی ہے‘ ایسے میں کسی بھی سطح پر کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ حکومت کی تمام تر توجہ لیول پلیئنگ فیلڈ کی طرف مرکوز ہے۔ بس یہ مقصد حاصل ہونا چاہیے‘ چاہے اِس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ کاش اتنی سنجیدگی سے ملکی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دی جاتی‘ اس سے کچھ نہ کچھ بہتری کی صورت ضرور پیدا ہوجاتی لیکن کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ فکر ہے تو اِس بات کی مخالفین کو کس طرح دیوار سے لگایا جائے۔
کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی نو مئی کے افسوسناک واقعات کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ یقینا ہرذی ہوش کو اِن واقعات پر شدید رنج اور افسوس ہے۔ اِن واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اُنہیں اپنے کیے کی سزا بہرطور ملنی چاہیے۔ ملک و قوم سے مخلص کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو اِس امر کی حمایت نہیں کرتا لیکن اِس کی آڑ میں اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی یا آئین اور قانون کو پس پشت ڈالا جائے گا تو لامحالہ سوالات بھی اُٹھیں گے اور آج بدقسمتی سے یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ ہمیں شاید اندازہ ہی نہیں ہوپارہا کہ سیاسی دشمنیوں کو ہم کس سطح پر لے جاچکے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں حکومت کی لاٹھی آجاتی ہے‘ وہ اِسے ایسی بے دردی سے گھماتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ افسوس کہ ہمارا ماضی ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں ملک کے منتخب وزیراعظم کی پھانسی کو بھلاکون بھول سکتا ہے۔ سندھ میں جام صادق کے دور کو بھلا کون بھولا ہوگا۔ 12مئی 2007ء کو بقول پرویز مشرف‘ کراچی میں عوام نے اپنی جو طاقت دکھائی تھی‘ وہ بھی بہت سے ذہنوں میں ابھی تک تازہ ہے۔ سیاسی مخالفین سالوں تک جیلوں میں پڑے رہتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہونے دی جاتی۔ حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی مخالفین کو زیادہ سے زیادہ وقت کے لیے جیلوں میں رکھا جائے۔ گزشتہ دنوں ہی سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی آپ بیتی سنائی کہ کیسے ان پر مقدمات قائم کیے گئے اور کیسے جیلوں میں قید رکھا گیا۔ نواز شریف بھی گلہ کرتے نظر آئے کہ وہ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے مگر ہر بار انہیں مدت پوری کرنے سے قبل ہی ہٹا دیا گیا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ گزشتہ دور کو کون بھول سکتا ہے کہ جب موجودہ وزیر داخلہ کو ہیروئن سمگلنگ کیس میں جیل میں قید بند کر دیا گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی سے کوئی بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ کردار بدل گئے ہیں لیکن کہانی آج بھی وہی ہے جو ہم ہمیشہ سے دیکھتے اور سنتے آئے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوجائے اور آج جو حکومت میں شادیانے بجا رہے ہیں‘ کل کو ایک مرتبہ پھر اُن کی چیخ و پکار سننے کو مل سکتی ہے۔
ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ جبر کی حکومت کبھی قائم نہیں رہ سکتی مگر یہ محاورہ ہر دور میں غلط ثابت ہوتا دکھائی دیا۔ آج تک ہمارے ملک میں کوئی بھی ایسی حکومت آئی ہے جو انصاف پر قائم رہی ہو؟اگر ہرحکومت نہیں تو بیشتر نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طاقت و جبر کا ہر حربہ استعمال کیا۔ مخالفین کو جیلوں میں ٹھونسنے سمیت ہروہ طریقہ استعمال کیا جس سے اُن کے اقتدار کو دوام مل سکتا تھا۔ وہی سب کچھ جو آج بھی ہورہا ہے۔ دو صوبوں میں نگران حکومتیں ہیں‘ جو نوے دن کی اپنی میعاد کب کی پوری کر چکی ہیں مگر دور‘ دور تک الیکشن کرانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود حکومت الیکشن سے راہِ فرار اختیار کر رہی ہے۔ اپنے مفاد کے لیے واضح آئینی شقوں کو پسِ پشت ڈال دینا‘ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ظلم صرف جسمانی نہیں ہوتا بلکہ بہت سے مظالم ایسے ہوتے ہیں جو روحوں تک کو زخمی کردیتے ہیں‘ جو ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں‘ جو عوام کے ذہنوں میں زہر بھر دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر سب کچھ نہیں تو بہت کچھ اِس وقت غلط ہورہا ہے لیکن ہم اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ حالیہ پکڑ دھکڑ نے سب کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل ہو سکتا ہے؟ لیکن حکومت اپنی ڈگر پر خوشی سے چلتی چلی جا رہی ہے‘ اسے کچھ پروا ہی نہیں کہ عام آدمی پر کیا بیت رہی ہے‘ حالات کس نہج تک پہنچ چکے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں