"FBC" (space) message & send to 7575

ایک دن اندرون شہر لاہور میں…(2)

''مغلاں دے کھوہ‘‘کی بابت علاقے کے ایک معمر بزرگ جلال دین کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچپن میں یہاں سے پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ تب علاقے کے بیشتر گھروں میں ایسے ہی کنویں ہوتے تھے لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ اب یہ کنواں ماضی کی ایک یاد بن کر موجود ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اِسے بہتر حالت میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ یہاں سے تھوڑا آگے بڑھے تو میاں محمد سلطان کی حویلی آ گئی۔ اب اِس حویلی کی ہیئت بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے لیکن یہ عمارت آج بھی سلطان کی حویلی کہلاتی ہے۔ اِس حویلی کو تعمیر کرانے والے میاں محمد سلطان لاہور کا انتہائی مشہور کردار تھے۔ لاہور کے ریلوے سٹیشن سمیت شہر کی متعدد عمارات کی تعمیر کا سہرا اِنہی کے سر ہے۔ اپنا بچپن محنت مزدوری کے دوران گزارنے والے میاں سلطان نے ایسا عروج پایا کہ آج لاہور کی تاریخ اُن کا تذکرہ کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اُن کے عروج کا سلسلہ تو سکھ دور میں ہی شروع ہوچکا تھا لیکن جب انگریزوں نے لاہور میں چھاؤنی کی تعمیر شروع کی تو بیرکیں بنانے کا ٹھیکہ میاں محمد سلطان کو ملا۔ یہ اُن کے کیریئر کا بہترین زمانہ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بیرکوں کی تعمیر کے لیے اینٹیں حاصل کرنے کے لیے اُنہوں نے متعدد پرانی عمارتوں کو مسمار کرا دیا تھا۔ ان سے حاصل ہونے والی اینٹیں ہی بیرکوں کی تعمیر میں استعمال کی گئیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تب دوسرے بہت سے ٹھیکیداروں نے بھی پرانی عمارتوں کو گرا کر چھوٹی اینٹیں حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اِس مقصد کے لیے متعدد نادر عمارتوں کے ساتھ کئی مساجد بھی شہید کردی گئی تھیں۔ اِس بات کا تذکرہ ''تحقیقاتِ چشتی‘‘ میں بھی ملتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ میاں میر دربار کے گرد واقع بہت سی عمارتیں چھوٹی اینٹ حاصل کرنے کی ہوس کا شکار ہوئیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں مغل شہزادے دارا شکوہ نے بے شمار شاندار عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔ دراصل دارا شکوہ صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ کا بہت معتقد تھا جس کے باعث اُس نے دربار میاں میر کے قرب و جوار میں بے شمار عمارتیں تعمیر کرائی تھیں۔ اِس کی دیکھا دیکھی اُس وقت کے دیگر صاحبانِ ثروت نے بھی اِس علاقے میں اپنی حویلیاں وغیرہ تعمیر کرا لیں۔ آج بھی عظمت رفتہ کی کچھ جھلکیاں یہاں ملتی ہیں جن میں سے سب سے نمایاں دارا شکوہ کی محبوب بیوی کا مقبرہ ہے، جس کا تذکرہ پھر کبھی !
مختصر۱ً یہ ہے کہ میاں سلطان کے ہاتھوں جہاں بہت سی نئی عمارتیں تعمیر ہوئیں‘ وہاں بہت سی پرانی و تاریخی عمارتوں کا وجود ختم بھی ہوا۔ اب میاں سلطان کی حویلی ہماری نظروں کے سامنے تھی۔ آج اِس حویلی کی عظمت رفتہ ماند پڑچکی ہے لیکن اِس عمارت میں ایک بہت ہی شاندار جگہ موجود ہے۔ اِس حویلی میں ایک چھوٹا سا ''شیش محل‘‘ بھی ہے جو طویل عرصے تک دیکھنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ بہت عرصہ پہلے جب ہمیں اِسے شیش محل کی بابت معلوم ہواتو ہم اِسے دیکھنے کے لیے گئے تھے۔ تب اِس شیش محل کی حالت بہت خستہ تھی۔ شیشوں کی چمک دمک ماند پڑ چکی تھی اور ہرطرف گندگی دکھائی دے رہی تھی۔ شاید گھروالوں کو بھی معلوم نہیں تھاکہ یہ کتنی نایاب جگہ ہے۔ اسی دوران والڈ سٹی اتھارٹی کو اِس شیش محل کی بابت معلوم ہوا‘ جس کے بعد کامران لاشاری صاحب کی خصوصی ہدایات پر اِسے بڑی حد تک بحال کردیا گیا۔ اِس شیش محل کو دوبارہ دیکھنا کافی خوشگوار تجربہ تھا۔ حویلی میاں سلطان سے تھوڑا سا آگے بڑھیں تو ''چٹا گیٹ‘‘ آن موجود ہوتا ہے۔ یہ گیٹ مسجد وزیرخان سے کچھ پہلے واقع ہے۔ کچھ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دروازہ 1650ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ بعض مؤرخین کی آرا میں اپنی تعمیر کے وقت یہی دروازہ اندرون شہر میں داخل ہونے کا راستہ تھا۔ پھر وقت کے ساتھ شہر کا پھیلائو بڑھا تو شہر کا داخلی راستہ وہ بن گیا جہاں آج ہمیں دہلی دروازہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ سفید چونے سے تعمیر کیے جانے کی وجہ سے اِس دروازے کا نام چٹا گیٹ پڑ گیا اور یہ دروازہ آج تک اِسی نام سے مشہور ہے۔ اب اِس دروازے کی حالت بہت خراب ہوچکی ہے اور یہ تقریباً اپنی آخری سانسیں لیتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ اِس کی کسی حد تک مرمت بھی کی گئی ہے لیکن اِس کی حالت میں کچھ خاص بہتری نہیں آسکی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ چٹا دروازے کی باقیات کو بچانے کے لیے جلد کوئی قدم اُٹھایا جائے گا۔ جیسے ہی اِس دروازے کو پار کیا تو لاہور کی شان‘ مسجد وزیر خان نظروں کے سامنے آ گئی۔ بلاشبہ یہ مسجد لاہور کے ماتھے کا جھومر قرار دی جاسکتی ہے۔ اِس کی تعمیر کا سہرا حکیم علم الدین کے سر ہے۔ مسجد کا تذکرہ کرنے سے پہلے اِس کے عین سامنے واقع ''کنواں دینا ناتھ‘‘ کا کچھ ذکر ہو جائے۔
کنواں دینا ناتھ مسجد وزیرخان کے عین سامنے واقع ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔ کنویں کو اس کے معمار دینا ناتھ کا نام دیا گیا ہے جو رنجیت سنگھ دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ سر لیپل گریفن نے اپنی کتاب ''رئیسانِ پنجاب‘‘ میں دینا ناتھ کا خاصی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پنجاب کی تاریخ کے حوالے سے لکھی گئی دیگر کتب میں بھی دینا ناتھ کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے خاصے مشہور آدمی تھے۔ اُنہوں نے مسجد وزیرخان کے پاس ایک کنواں تعمیر کرایا جو اُنہی کے نام سے مشہور ہوا‘ اور آج بھی اپنے بنانے والے کی یاد کے طور پر موجود ہے۔ وقت کے ساتھ اِس کنویں کی حالت کافی خستہ ہوگئی تھی جو مرمت کے بعد ماضی کی نسبت اب کافی بہتر حالت میں ہے؛ تاہم اِس کی مرمت کے بعد اب اِسے چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہے۔ بظاہر بند کرنے کی کوئی خاص وجہ دکھائی نہیں دیتی لیکن شاید اِس کی حفاظت مقصود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب مسجد وزیرخان میں پانی کی کمی ہوجاتی تھی تو نمازی حضرات اِس کنویں کے پانی سے استفادہ کرتے تھے جس کے باعث یہ کنویں مذہبی ہم آہنگی کا استعارہ سمجھا جانے لگا۔ یہ وہی دور تھا جب شہر میں ہندواور سکھ بڑی تعداد میں رہا کرتے تھے جن کا مسلمانوں کے ساتھ بہت بھائی چارہ رہتا تھا۔ 1947ء سے پہلے شاید ہی لاہور کی تاریخ میں ہندو‘ مسلم فساد کا کوئی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہو؛ تاہم تقسیم کا عمل مکمل ہونے کے بعد لاہور‘ اندرون شہر میں بھی ایسے شدید مذہبی فسادات ہوئے جن کے زخموں سے آج بھی خون رِس رہا ہے۔
اِس کنویں کے عین سامنے مسجد وزیرخان اپنی پوری شان وشوکت سے کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ چند دہائیاں قبل اِسے دیکھنے اورآج اِس کا مشاہدہ کرنے میں خاصا فرق ہے۔ ہم نے اِسے تب بھی دیکھ رکھا ہے جب اِس کے گرداگرد گھوڑے بندھے ہوئے اور مختلف قسم کا کاروبارہ ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ تب صفائی ستھرائی کی صورتحال بہت ناقص تھی لیکن آج منظر یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ مسجد کے اردگرد واقع مکانات کے بیرونی حصوں کو سرکاری خرچ پر دیدہ زیب بنا یا گیاہے۔ یہاں سے تجاوزات کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مسجد کے بیرونی حصے سے زمین میں دبے چند حجرے بھی دریافت ہوئے تھے۔ اِن حجروں کی بحالی کے بعد اب کسی حجرے میں خطاطی سکھائی جاتی ہے تو کسی میں نوادرات فروخت ہوتے نظرآتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ ایک تاریخی مقام کے اردگرد کا ماحول بھی اُس کے شایانِ شان دکھائی دیتا ہے۔ مسجد کی شان و شوکت کے تو کیا ہی کہنے!خوبصورت نقش ونگار سے مزین کاریگری کا یہ منہ بولتا ثبوت حکیم علم الدین انصاری نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مسجد‘ بادشاہی مسجد سے 32سال پہلے تعمیر ہوئی تھی اور اپنے دور تو کیا‘ آج بھی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ کسی بھی وقت اسے دیکھنا ایک شاندار تجربے سے کم نہیں ہے۔ مغل دور حکومت میں جب اہم شخصیات دہلی دروازے کے راستے اندرون شہر میں داخل ہوتی تھیں تو اکثر یہاں نوافل ادا کرنے کے بعد آگے بڑھتی تھیں اور پھر ان کی حتمی منزل لاہور کا شاہی قلعہ ہوا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد اُن چند عمارات میں سے ایک ہے‘ سکھ دور میں جو کسی بڑے نقصان سے بچ گئی تھیں۔ اِس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ حکیم علم الدین سکھوں کے گروارجن سنگھ کے کافی معتقد تھے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں