"FBC" (space) message & send to 7575

ایک دن اندرون شہر لاہور میں… (3)

لاہور‘ اندرون شہر کی شاہی گزرگاہ پر سفر جاری ہے جس کی بابت گزشتہ قسط میں مسجد وزیرخان کا تفصیلی تذکرہ ہوا۔ اِس مسجد کے حوالے سے مزید بہت کچھ کہنا ابھی باقی ہے کیونکہ یہ مسجد ہے ہی اتنی شاندار کہ اِسے بلاشبہ لاہور کے ماتھے کا جھومر قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں بھی اِس کا ذکر بہت تفصیل سے ملتا ہے سو اِس حوالے سے کچھ مزید بات کرتے ہیں۔ یہ تو ہم بتا چکے کہ ماضی کی نسبت آج مسجد کے اردگرد کا ماحول بہت صاف ستھرا دکھائی دیتا ہے جس وجہ سے اب یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ بھی بتا چکے کہ سکھ دور میں لاہور میں موجود بیشتر تاریخی عمارات کو قصداً تباہ کر دیا گیا تھا لیکن بوجوہ یہ مسجد سکھ دور کی چیرہ دستیوں سے بڑی حد تک محفوظ رہی تھی۔ اِس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ کنہیا لال نے اپنی کتاب ''تاریخِ لاہور‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ وہی کنہیا لال ہیں جنہیں لاہور سے عشق تھا۔ اتنا عشق کہ اُتر پردیش میں پیدا ہونے والے کنہیا لال جب 1850ء میں لاہور آئے تو یہاں کی آب و ہوا اُنہیں اتنی پسند آئی کہ پھر وہ یہیں کے ہو رہے۔ اُنہوں نے لاہور کی تاریخ پر بہت کام کیا اور پھر اس حوالے سے ایک کتاب 'تاریخِ لاہور‘ رقم کی‘ جسے ایک مستند دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے سکھ دورِ حکومت کے حوالے سے بھی ایک کتاب لکھی جس میں سکھ حکمرانوں کے اچھے کاموں کی تعریف کی اور اُن کے غلط کاموں پر تنقید۔ اِس کتاب پر کچھ سکھ طبقات کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا تھا اور کہتے ہیں کہ اِس پر اُنہیں مجبوراً اپنی کتاب میں کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ اِس پر کافی حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے انگریز دورِ حکومت کے بارے میں کچھ نہ لکھا۔ اِس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شاید وہ انگریز حکمرانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال اپنی کتاب میں کنہیا لال لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہاراجہ رنجیت سنگھ مائی موراں کے ساتھ اِس مسجد (وزیر خان) میں آیا اور اِس کے ایک مینار پر جا کر وہ غیراخلاقی حرکتیں کرتا رہا۔ اُسی شب وہ بیمار پڑ گیا جس کے باعث اُس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہونہ ہو‘ اِس کی وجہ مسجد میں کی جانے والی غیراخلاقی حرکات بنی ہیں۔ یہ سوچ اُس کے ذہن میں اتنی پختہ ہو گئی کہ دوسرے روز مہاراجہ دوبارہ مسجد میں گیا اور پانچ سوروپے نذرکرنے کے ساتھ اس نے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ آج اِس مسجد کی تعمیر کو کئی صدیاں گزر چکی ہیں لیکن اِس کی شان وشوکت آج بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ ہم یہ سب کچھ دیکھتے جاتے اور اُن کاریگر ہاتھوں کی مہارت کو داد دیے جاتے جنہوں نے یہ شاندار مسجد تعمیر کی تھی۔ مسجد کی تعمیر میں سنگِ سرخ کا استعمال بہت کثرت سے نظرآتا ہے۔ اس کے وسیع و عریض صحن میں چھوٹی اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کی عمارت ایسی پختگی سے تعمیر کی گئی ہے کہ تقریباً چار سو سال گزرجانے کے باوجود یہ آج بھی بغیر کسی نقص کے دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کی دیواروں پر کی جانے والی کانسی کار نقاشی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی شاندار کہ بڑے بڑے اُستاد اِس بابت سیکھنے کے لیے یہاں کثرت سے آیا کرتے اور اِن طاقچوں کی نقول اُتار کر لے جاتے تھے۔ کتبوں پر کی جانے والی عربی اور فارسی خطاطی بھی لاجواب دکھائی دیتی ہے اور جسے آج بھی دیکھنا ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
1880ء میں میو سکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) کے پرنسپل وُڈ کپلنگ نے اِس مسجد کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ خوب صورت عمارت بذاتِ خود تزئین کی ایک شاندار درسگاہ ہے لیکن سال بسال اِس کی نگہداشت کی طرف توجہ کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ وُڈ کپلنگ نے تجویز کیا تھا کہ مسجد میں مختلف نمونوں کے چربے لے کر اُنہیں عجائب گھروں میں محفوظ کردیا جانا چاہیے تاکہ بعد میں آنیوالے فنکار اِن سے استفادہ کرسکیں۔ اِسی سے اندازہ لگا لیں کہ یہ مسجد کتنی شاندار ہے۔ مسجد کے مختلف حصے دیکھتے ہوئے یہ تمام خیالات ذہن میں آتے چلے جارہے تھے اور اِس بات کی خوشی ہورہی تھی کہ اِس مسجد کے بیرونی حصے کو سنوارنے کے بعد اب اِس کے اندرونی حصے پر کام جاری ہے۔ مختلف کاموں کے ماہرین اپنے اپنے کام میں مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ تزئین و آرائش کا یہ کام مکمل ہونے کے بعد مسجد کی شان و شوکت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ مسجد کی تزئین و آرائش کے حوالے سے متعدد دیگر منصوبوں پر بھی کام جاری ہے جس کی بابت والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے حکام کی طرف سے کافی تفصیل سے بتایا گیا۔ ایک بات بہت نمایاں طور پر محسوس ہوئی کہ اب ہمارے ہاں نقاشی وغیرہ کے کاریگروں کی بہت کمی ہوچکی ہے کیونکہ مناسب معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان اِن پیشوں کی طرف راغب نہیں ہورہے۔
مسجد وزیرخان کو دیکھنے کے بعد باہر نکلے تو کافی تھکن محسوس ہورہی تھی لیکن کوشش تھی کہ اِسی شاہراہ پر واقع مسجد مریم زمانی کو بھی دیکھ لیا جائے۔ یہ مسجد شاہی گزرگاہ کے بالکل آخر میں واقع ہے جہاں سے تھوڑا آگے بڑھتے ہی لاہور کا مشہور شاہی قلعہ نظروں کے سامنے آن موجود ہوتا ہے۔ آج مسجد مریم زمانی کے اردگرد کا تمام علاقہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے جس کے باعث مسجد کا حسن گہنا چکا ہے۔ یہ شاندار مسجد مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے اپنی والدہ مریم زمانی کی یاد میں تعمیر کرائی تھی۔ ''آئینِ اکبری‘‘ میں مریم زمانی کا تعارف کچھ یوں ملتا ہے: مریم زمانی نورالدین جہانگیر کی والدہ، جلال الدین محمد اکبر کی اہلیہ، راجہ بہاری مل کی بیٹی اور بھگوان داس کی ہمشیرہ تھیں۔ مسجد مریم زمانی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ مسجد اِس خطے میں مغل دورِحکومت کی اولین مساجد میں سے ایک ہے۔ مسجد مریم زمانی وسطی بلند محرابی دروازے کیساتھ پانچ محرابوں پر مشتمل ہے جنہیں اعلیٰ قسم کے چونے کیساتھ بہت مہارت کے ساتھ تعمیر کیا گیا۔ تکون نما محرابیں اِس مسجد کا سب سے خوب صورت حصہ قرار دی جاسکتی ہیں جنہیں بلاشبہ تخلیق کا شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ مسجد کو بنظر غائر دیکھنے سے ایک اور انفرادیت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بیشتر مغل عمارات میں طاق اعداد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لیکن یہاں جفت اعداد کی اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پوری مسجد میں خوبصورت بیل بوٹے دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ سب کچھ دیکھنا ہمیں بھی مہبوت کیے دے رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مسجدمریم زمانی کی تعمیر کے بعد مغلوں نے لاہور میں جتنی بھی مساجد بنوائیں‘ اُن سب میں کسی نہ کسی طور مسجد مریم زمانی کے طرزِ تعمیر کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ اِس حوالے سے سب سے بڑی مثال بادشاہی مسجد کی دی جاتی ہے۔ بادشاہی مسجد میں بھی ویسے ہی گل بوٹے نظرآتے ہیں جو مسجد مریم زمانی میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مسجد کو دیکھ کر اِسے تعمیر کرنیوالے ہاتھوں کو دل ہی دل میں داددیتے ہوئے ہم باہر نکلے تو مغرب کی طرف چند قدم آگے بڑھنے کے بعد شاہی قلعہ کا ایک بہت بڑا دروازہ آگیا۔ اب یہ دروازہ مستقل بنیادوں پر مقفل رہتا ہے اور یہاں سے آمدورفت کا سلسلہ یکسر منقطع ہوچکا ہے۔ مغل دورِ حکومت میں جب اربابِ اختیار دہلی دروازے سے اندرون شہر میں داخل ہوتے تھے تو پھر شاہی گزرگاہ کے اختتام پر اِسی دروازے سے شاہی قلعہ میں داخل ہوتے تھے۔ مگر اب یہ تمام علاقہ بھرپور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور مسجد مریم زمانی بھی بری طرح سے تجاوزات کے نرغے میں آچکی ہے۔ کافی عرصے سے یہ سنا جارہا ہے کہ حکومت یہاں قائم مارکیٹوں کو متبادل جگہ دے کر یہاں سے ہٹا دے گی لیکن حسبِ روایت ابھی تک یہ سب کچھ فائلوں کی حد تک ہی دکھائی دے رہا ہے۔ یوں بھی جس رفتار سے لاہور کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے‘ سب کچھ جیسے اُ سی کی نذر ہوتا چلا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں مسجد مریم زمانی کا رقبہ کافی وسیع وعریض ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اِس کے حصے بخرے ہوتے رہے۔
ایک ہی دن میں اندرون لاہور میں متعدد تاریخی عمارات کو دیکھناکافی خوشگوار تجربہ رہا۔ یہ آسان کام تو نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ ٹاسک پورا کر ہی لیا۔ ان شاء اللہ اب گاہے گاہے یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور وقتاً فوقتاًلاہور کی عظمتِ رفتہ پر بات ہوتی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں