"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ تلخ حقائق

کیا کیا رونقیں لگی ہوئی ہیں‘ صبح و شام پریس کانفرنسز۔ آئے دن اربابِ حکومت کے غیرملکی دورے اور حاصل جمع کچھ بھی نہیں۔ پارلیمنٹ میں مراعات یا پھر سیاسی مخالفین کو شکنجے میں لانے کے لیے بلوں کی منظوری۔ آئی ایم ایف کی منتیں اور پھر سٹینڈ بائی معاہدہ ہوجانے پر بھنگڑے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سبھی سیاسی جماعتیں اس وقت حکومت کا حصہ ہیں اور موجیں کر رہی ہیں۔ آج کسی حکومتی اتحادی کو مہنگائی دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کا ادراک ہے۔ اگر ادراک ہوبھی تو سب کے سب چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے تو خواہ مخواہ سے مراعات کو لات مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ البتہ جیسے ہی حکومت سے دوبارہ اپوزیشن میں آنا ہو گا تو پھر سے عوامی اضطراب، بے چینی اور مسائل دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔ تب انہیں علم ہو گا کہ عوام تو بدترین مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ تب صبح و شام گردان سنائی دے گی کہ بیرونی محاذ پر بھی بہت بڑے خطرات پید ا ہوچکے ہیں۔ تب یہ احساس بھی ہونا شروع ہوجائے گا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے نے بہت کچھ زیروزبر کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت سے اپوزیشن میں آنے کی دیر ہوتی ہے‘ پھر تصویر کا حقیقی رخ بہت واضح طور پر نظرآنا شروع ہوجاتا ہے اور شور بھی خوب مچایا جاتا ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے جو طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے‘ آج کل اس کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خود دیکھ لیجئے کہ سب کی سب جماعتیں چپ سادھے بیٹھی ہیں۔ کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی کہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے ہی ایک آدھ صدائے احتجاج بلند کر دیں۔ گزشتہ ادوار میں چند جماعتیں آئے روز ''عوامی مفادات‘‘ کی خاطر حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دیا کرتی تھیں، ان کے وزرا استعفے اپنی جیب میں لیے گھومتے تھے مگر اب تو ایسا بھی کوئی منظر دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر عوام کی بات کی جائے تو انہیں بس ایک سرنگ نظر آ رہی ہے‘ جس میں اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔ سب کے سب ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں کہ کہیں سے کوئی خیر کی خبر آجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت حال نے بے شمار جمہوریت پسندوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیے ہیں۔ معلوم نہیں آئندہ یہ کون سے نئے چہروں کے ساتھ عوام کے درمیان جائیں گے اور کس انداز میں اپنی مجبوریاں بتائیں گے۔ اِن تمام حالات کا جو نتیجہ نکلنا چاہیے تھا‘ وہ نکل چکا ہے۔ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اربابِ اختیار کو سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہے مگر کب تک وہ دھول کو قالین کے نیچے چھپاتے رہیں گے؟
ہمارے وہ ہمسائے‘ جن کے ساتھ ہم ہمیشہ سے اپنا موازنہ کرتے آئے ہیں‘ آج ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ آج ہمارے وزیراعظم کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے خود اِس ادارے کے اعلیٰ حکام سے درخواست کرنا پڑتی ہے۔ اُدھر ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک کے وزیراعظم کو دورۂ امریکہ کے دوران یوں سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے کہ پوری دنیا حیران رہ گئی۔ یہ وہی موصوف ہیں کہ جن پر کسی دور میں امریکہ میں داخلے پر ہی پابندی عائد تھی لیکن اب صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اپنے دورۂ امریکہ کے دوران انہوں نے اتنا کچھ حاصل کیا جس کا ہم فرنٹ لائن اور نان نیٹو امریکی اتحادی ہونے کے باوجود تصوربھی نہیں کرسکتے۔ سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کا نام لے کر یہ مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ فیٹف سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ سو جتن کر کے ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مطلب ہم نے دہشت گردی کے خلاف جو کچھ کیا ہے‘ کم از کم یہ دونوں ممالک اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں بھلا اِن کی کیا پروا‘ مگر ایسا نہیں ہے۔ ہمارے وزیرخزانہ بھی ایسے ہی اعلانات کرتے رہے تھے کہ اُنہیں آئی ایم ایف کی کوئی پروا نہیں مگر اِن بیانات کے بعد ایسی پروا کرنا پڑی کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو سر جھکا کر تسلیم کرنا پڑا۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر معاہدہ ہوگیا تو ٹھیک‘ ورنہ معاملات تو چل ہی رہے ہیں۔ حالانکہ معاملات جس طرح چل رہے تھے‘ وہ بھی سب کے سامنے تھا۔ اب بہت سے مضمون نگاروں نے دہشت گردی کے حوالے سے دیرینہ ملکی موقف کو دہرایا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملک میں حالات کی خرابی میں مشرقی ہمسائے کا بہت بڑا ہاتھ ہے مگر لیکن اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ امریکہ نے بھارت کو ایسی ٹیکنالوجی دینے کی پیشکش کی ہے جو ابھی تک صرف برطانیہ اور اسرائیل کو فراہم کی گئی ہے۔ بھارت کو جیٹ طیاروں کے انجن بنانے کی ٹیکنالوجی کے ساتھ نیوکلیئر انرجی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی گئی ہے جس کیلئے ساڑھے تین ارب ڈالرکے ایک معاہدے پر دستخط بھی ہو گئے ہیں۔ مائیکروچپ بنانے والی بڑی کمپنی مائیکرون بھارت میں اپنا پلانٹ لگانے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کرے گی۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں‘ متعدد دیگر اہم معاہدے بھی ہوئے ہیں۔
اِس بات کے بھی واضح آثار دکھائی دیتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کیلئے ہر ممکن مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ بھارت ماضی میں کئی مواقع پر یہ کوشش کرچکا ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کیلئے اسے اقوام متحدہ کے 129اراکین کی حمایت درکار ہے۔ یہ حمایت ابھی تک تو حاصل نہیں لیکن اگر امریکہ نے اِس حوالے سے اس کی مدد کرنا شروع کردی تو پھر صورتحال میں کسی واضح تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کے اشارے اِس تناظر میں بھی مل رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ بھارت کو ویسی ہی اہمیت دے رہی ہے جیسی اہمیت نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا کو دی جاتی ہے۔ امریکہ ان تمام ممالک کے ساتھ مل کر چین کے خلاف گھیرا تنگ کررہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام ممالک میں سے صرف بھارت ہی ایسا ملک ہے‘ جس کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ امریکہ کو اِس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ چین کا بھرپورمقابلہ کرنے کیلئے اُسے بھارت کی بھرپور مدد درکار ہو گی۔ اِسی مقصد کیلئے وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہے۔ دوسری طرف ورلڈ سپر پاور سے ہمارے تعلقات اب زیادہ اچھے نہیں رہے۔ اِن حالات میں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں ممالک مستقبل میں ہمارے لیے کتنی بڑی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
مختصراً یہ ہے کہ ممالک کے مابین تعلقات صرف اور صرف مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ جس ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوتے ہیں‘ اُس کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔ ہمیشہ سے ہم سہارے تلاش کرتے آئے ہیں مگر اب جس تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں‘ دور دور تک اس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے دوست ممالک نہ صرف اشاروں کنایوں میں بلکہ متعدد بار کھلے عام بھی ہمیں سیاسی استحکام اور مل جل کر آگے چلنے کا مشورہ دے چکے ہیں مگر اس مشورے کا جو حال کیا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ یہی نہیں‘ ملکی سیاست میں بھی ہم خارجہ تعلقات کو گھسیٹنے سے باز نہیں رہتے۔ ابھی حال ہی میں ایک وفاقی وزیر نے ایک دیرینہ دوست ملک کے حوالے سے ایک بیان دے کر گویا معاملات میں کھنڈت ڈال دی۔ ہمارے اندرونی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں اور اِنہیں بہتر بنانے کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے مشرقی ہمسائے کے اندرونی حالات خاصے خراب ہیں۔ ذات پات کا گہرا نظام اور متعدد ریاستوں میں برپا شورش‘ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اب وہ لگ بھگ سبھی شعبوں میں ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور ہمارا سفر تنزلی کی طرف تیز تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ دوسروں کی کمزوریوں میں اپنے لیے طاقت تلاش کرنے والے ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ اصل طاقت یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر دوسروں کو کمتر ثابت کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں