"FBC" (space) message & send to 7575

خدا کے لیے بس کر دیں

کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ تلخ ترین حقیقت ہے کہ تنزلی کی طرف ہمارا سفر تیز تر ہو چکا ہے۔ ہم اخلاقی پستی کی گہرائیوں میں گر نہیں رہے بلکہ گر چکے ہیں۔ ملک بھر میں لاقانونیت کا ایسا ناچ جاری ہے کہ جس سے کوئی بھی محفوظ نظر نہیں آتا۔ حکمران زور و شور سے اپنے مقدمات معاف کرانے اور دیگر مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ معیشت کا ستیا ناس ہو چکا ہے۔ مہنگائی نے عوام کی سانسیں تک کھینچ لی ہیں لیکن حرام ہے کسی بھی سطح سے سنجیدگی کا معمولی سا مظاہرہ بھی ہوتا ہوا دکھائی دے۔ اتنی لاقانونیت کہ کسی کی کہیں شنوائی ہی نہیں ہو رہی۔ یہ ہے ہمارا پاکستان جہاں رشوت کا کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ ہر روز کرپشن اور لوٹ مار کی ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ چلو مان لیا کہ اِن طاقتوروں کو دنیاکے قانون کی تو کوئی پروا نہیں لیکن وہ تو جیسے خدا کو بھی بھول چکے ہیں۔ کیا انہیں ذرا سا بھی خوفِ خدا نہیں رہا کہ آخر تو ایک دن اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہے۔ صبح سے شام تک جھوٹ کا ایسا کاروبار چل رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ طاقتور لوگ اور حکمران اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں‘ اس لیے کچھ درندے یہاں کھل کر خباثت کا ننگا ناچ‘ ناچ رہے ہیں۔ ایک معروف یونیورسٹی کا چیف سکیورٹی افسر نہ جانے کب سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کی فحش وڈیوز بناکر انہیں بلیک میل کرنے کا دھندہ کررہا ہے۔ اس کے ساتھ یونیورسٹی کا ٹرانسپورٹ انچارج بھی اس قبیح دھندے میں شریک کار پایا گیا اور دونوں سے طالبات کی ہزاروں وڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ حکمرانوں کو اپنے مقدمات معاف کرانے سے فرصت نہیں ہے اور یہاں لوگ تلاشِ معاش کے دوران سمندروں میں ڈوب کر مررہے ہیں۔ حکمران کیوں نہیں سمجھتے کہ نفرتیں گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہیں۔ جب آپس میں اتفاق ہی نہ رہاتو باقی کیا بچے گا۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب عوامی غیظ وغضب سے بچنے کے لیے انتخابات نہ کرانے والے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر دعویٰ کرتے ہیں کہ چوبیس کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں۔معلوم نہیں وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے ذریعے ہمارے حکمران یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ دو‘ چار نہیں بلکہ چوبیس کے چوبیس کروڑ عوام ان کے ساتھ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو انتخابات کرائیں اور عوا م کی براہِ راست رائے لے لیں ۔
اندازہ کریں کہ ہم کس سطح پر جا پہنچے ہیں کہ ہمارے لیے جھوٹ اور سچ کا فرق ہی ختم ہو گیا ہے۔ وزرا‘ مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی ایک فوج ظفر موج ہے جو ملک کی خطرناک ترین صورتحال پر بھی ایسے گفتگو کرتی ہے جیسے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ قتل کوئٹہ میں ہوتا ہے اور لاہور میں بیٹھا ایک شخص پریس کانفرنس کر رہا ہوتا ہے کہ وہ جی اس میں تو اپوزیشن کا فلاں رہنما ملوث ہے۔ او اللہ کے بندو! آپ کیا سمجھتے ہوکہ یہ سب کچھ کرنے سے آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہو؟ نہیں کامیاب ہو پا رہے لیکن عوام کے دلوں میں اپنے لیے نفرتیں ضرور بڑھا رہے ہو۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ حقیقت کے برعکس بیانات پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ چوبیس کروڑ عوام کے اپنے ساتھ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو صحیح راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ اس بات پر کون یقین کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہرکسی کو عقل سے نوازا ہے اور سب کو سب دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں اگر ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہو۔ معیشت بہتری کی طرف جاتی نظر آرہی ہو اور عام آدمی کے لیے اشیائے خورونوش سستی ہورہی ہوں۔ امن و امان کی صورت حال میں بہتری آرہی ہو۔ نظام انصاف میں بہتری کے لیے قانون سازی ہوتی نظرآرہی ہو تو آپ کو اتنے بڑے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پچھلے پندرہ ماہ کے دوران آپ نے مفادِ عامہ کے کون سے قوانین منظور کرائے ہیں۔ پندرہ ماہ کے دوران وہی قانون سازی ہوئی ہے جس سے حکمرانوں کو فائدہ پہنچتا ہو یا پھر مراعات کے بل منظور کیے گئے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ حکمران اپنے عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں لیکن یہاں صورت یکسر الٹ دکھائی دیتی ہے۔ آج کے دور میں بھی آپ 1970والا طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے ورنہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کا طرزِ عمل یہ بن چکا ہے کہ وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک والی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور خود کو عوام کا خادم قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسے خادم ہیں جو مالک سے ہزاروں گنا بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ اس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پھر یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ان کی باتوں پر یقین کیا جائے۔ معیشت کی بدحالی کی باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں لیکن اپنی عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اور کچھ نہیں سوجھا تو بیٹھے بٹھائے چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں شاندار اضافے کا بل منظور کر لیا۔ اور کچھ نہیں سوجھا تو پنجاب میں دو سو افسران کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی۔ اس مقصد کے لیے دوارب 33کروڑ روپے بھی منظور کیے جا چکے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیے گا کچھ ہی عرصہ پہلے بھی نئی گاڑیاں خریدی گئی تھیں اور اب ایک مرتبہ پھر نئی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔ جب نگران حکمرانوں سے اس بابت ایک صحافی نے سوال کیا تو جوا ب یہ دیا گیا کہ آپ تو چاہتے ہیں کہ افسران ٹیکسیوں پر سفر کیا کریں۔ توشہ خانے کا دیکھ لیں کہ ہم نے کیا حال کردیا ہے۔ سب کے سب یہاں سے سستے داموں تحائف لے کر جاتے رہے۔ عوام کا سب سے زیادہ درد سینے میں لے کر لندن بیٹھے ایک صاحب تو انتہائی قیمتی گاڑی چھ لاکھ روپے میں لے گئے تھے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ہمارے سامنے کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں لیکن اندرکھاتے یہ کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ جب حکمرانوں کا کردار یہ ہو تو پھر ہمارے جیسے عام آدمی کیوں نہ غلط کاموں میں ملوث ہوکر پیسہ کمانے کی کوشش کریں گے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں زبان زد خاص و عام ہوں اور اس ملک کے عوام سے ایمانداری کی توقع رکھی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم بحیثیت مجموعی ہی کرپٹ ہو چکے ہیں یا پھر دنیا میں ہمارا یہ تاثر بن چکا ہے۔کیا یہ اسی کا نتیجہ نہیں ہے کہ آج ہم دنیاکے انتہائی بدعنوان ممالک میں شامل ہو چکے ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ دنیا کے 128ممالک میں سے ہم انصاف کے معاملے میں 120ویں نمبر پر ہیں۔ حصولِ انصاف کے لیے لوگوں کی نسلیں برباد ہو جاتی ہیں لیکن اس ملک کا نظامِ انصاف اپنی روش تبدیل کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ کیا یہ بات ہمارے سامنے نہیں ہے کہ ہمارے ملک کا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شامل ہو چکا ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا ہمیشہ دہشت گردی کا سدباب کرنے کے لیے ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ کیا ہمیں احساس نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مہنگائی کا تناسب 38فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف حکمران باتوں سے رات کو دن اور دن کو رات ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ببانگ دہل یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ چوبیس کروڑ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ تو جیسے اب معمول ہی بن چکا ہے ۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات کبھی درست نہیں ہوں گے۔ ہمارے نصیب میں بس یہی جھوٹی باتیں لکھی جا چکی ہیں کہ یہ سنتے رہو اور حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہو۔ اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ زبان بندی کے قوانین بھی زور و شور سے متعارف کرائے جارہے ہیں۔ ان حالات میں تو اپیل ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا کے لیے بس کردیں۔ عوام کے حال پر کچھ تو رحم کر لیں۔ یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں‘ انہیں بھی جینے کا حق دے دیں۔ باقی آپ طاقتور ہیں اور کچھ بھی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن بے جا طاقت کا استعمال ہمیشہ خوفناک نتائج کا باعث بنتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں