"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ تو اثر درکار ہے

دوستوں کو اعتراض ہونے لگا ہے کہ ہماری تحریروں میں نااُمیدی کا پہلو کچھ زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ ہمیں ان کی رائے کا بھرپور احترام ہے لیکن کیا کریں‘ کسی طرف سے روشنی کی کوئی کرن بھی تو دکھائی پڑے۔ کوئی تو ایسا اشارہ ملے کہ چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور شدید رنج و آلام میں مبتلا عام آدمی کے لیے سکھ کا سانس لینا ممکن ہونے لگا ہے۔ وہ عام آدمی جو آج ایک کلو آٹا خریدنے کے لیے 170 روپے اداکرنے پر مجبور ہے‘ وہ عام آدمی جس کے گھر میں ٹی وی ہے نہ ریڈیو لیکن وہ بجلی کے بلوں میں اِن کی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہے‘ وہ عام آدمی جس کی قوتِ خرید وہیں پر ہے یا شاید کم ہو گئی ہے مگر گزشتہ محض ڈیڑھ سال کے دوران مہنگائی تین گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے‘ وہ عام آدمی جس کی عزتِ نفس ہر روز مجروح ہوتی ہے لیکن کوئی اُس کی داد رسی کرنے والا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تو اِس عام آدمی کی حالت میں کوئی بہتری آنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں تو ہماری تحریروں میں بھی اُمید کی کرنیں دکھائی دینے لگیں گی لیکن فی الحال تو ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کہیں سے یہ خبر سنائی نہیں دیتی کہ تمام سیاسی جماعتوں نے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے کمر کس لی ہے، انہوں نے عوامی فلاح کے لیے قانون سازی پر اتفاق کر لیا ہے۔ آخر یہ سب معاملات کہاں جا کر رکیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ اِس بابت جب کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں‘ تو کوئی بتائے گا کیا۔ سب ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے چہروں کی طرف ہونقوں کی طرح دیکھ رہے ہیں کہ ملک کا اور ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا۔ ایسی لاقانونیت اور اتنا ظلم کہ اب تو آئین اور قانون کی بالادستی جیسی باتوں سے یقین ہی اُٹھنے لگا ہے۔ عوامی فلاح کا کوئی ایک بھی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر کوئی کام ڈھنگ سے ہوا ہے تو وہ محض اپنے مقدمات کا خاتمہ ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کے قلفی فروش جیسوں کے مسائل کون حل کرے گا، ان کی داد رسی کون کرے گا؟ مختصراً اِس واقعے کی روداد بھی سن لیجئے اور سر دھنیے۔ فرمان اللہ نامی ایک شخص فیصل مسجد کی پارکنگ میں قلفی کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ سی ڈے اے کے عملے نے بغیر لائسنس فیصل مسجد میں ریڑھی لگانے پر اُسے ''سرکاری زمین پر قبضے‘‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ بعد از گرفتاری اس کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سی ڈی اے کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے فرمان اللہ کو تین ماہ قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی، جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید ایک ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ بھلا ہو اسلام آباد ہائیکورٹ کا‘ جس نے فرمان اللہ کی درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور اُس کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ فرمان اللہ پچھلے تیس سال سے فیصل مسجد کے سامنے ریڑھی لگا رہا ہے اور اسی سے وہ اپنا اور اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ اس کے پانچ بچوں میں سے چار جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے علاج کا خرچہ بھی اسی کمائی سے نکلتا ہے جو ماہانہ محض آٹھ ہزار روپے ہے۔ ایسے فرد کو‘ جس کے پانچ میں سے چار بچے معذور ہیں‘ سی ڈی اے کا عملہ ''سرکاری زمین پر قبضہ‘‘ کرنے کے الزام میں 11 جولائی کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بھجوا دیتا ہے اور 23 جولائی کو ہائیکورٹ کے حکم پر اس کی رہائی عمل میں آتی ہے۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرم تو جرم ہوتا ہے‘ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہمیں یقینا اِس موقف سے مکمل اتفاق ہے لیکن عرض یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کرانے والی یہ پھرتیاں سبھی کے لیے یکساں ہونی چاہیے۔ سزا اُن کو بھی ملنی چاہیے جو لوگوں کی گرفتاری کے لیے بغیر وارنٹ گھروں میں گھستے اور شدید توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ آئین و قانون کو ہم نے موم کی ناک بنا کر رکھ دیا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج ہمارے ملک کی جو حالت ہو چکی ہے‘ کیا یہ آگے بڑھتا، پھلتا پھولتا نظر آتا ہے؟
اپنے معاشرے کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے دلوں سے خدا خوفی بھی ختم ہو چکی ہے۔ کرپشن، لوٹ مار، دھوکا دہی اور فریب کاری انتہائوں کو چھو رہی ہیں۔ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون ہے۔ طاقتوروں کی من مانیاں آسمان کو پہنچ چکی ہیں۔ زمینوں پر قبضے تو جیسے معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اپنے ہی شہریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کوئی ایک بھی کام ایسا نہیں ہو رہا کہ جسے دیکھ کر بہتری کی کوئی امید وابستہ کی جا سکے۔ ہمارا ملک ''اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ نہ اسلامی تعلیمات کا اثر ہماری زندگیوں میں دکھائی دیتا ہے اور نہ جمہوری اصولوں کی پاسداری نظر آتی ہے۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کہ یہ سب کچھ کرکے ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ہم خودفریبی کا شکار ہو چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم زندگی بھر جو کچھ بھی کرتے رہیں‘ چند ایک اچھائیوں سے ہماری ساری برائیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ اس خود فریبی کے سبب ہی ہم کمزوروں کے حقوق سلب کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک معروف عالم اور مبلغ کی تقریر سننے کا موقع ملا۔ اپنی تقریر کے دوران اُنہوں نے سادگی پر دلنشین انداز سے گفتگو کی۔ تقریر کے اختتام پر وہ حاضرینِ محفل سے کہنے لگے کہ آئیں میرے ساتھ مل کر تین مرتبہ کہیں کہ یا اللہ میری توبہ! یا اللہ میری توبہ! یا اللہ میری توبہ! سب نے اُن کی تقلید میں تین بار یہ الفاظ دہرائے‘ اس پر وہ کہنے لگے کہ اب آپ کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں‘ جو صدقِ دل سے خدا کے حضور توبہ کرتا ہے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ کوشش کیجئے گا کہ آئندہ خود کو گناہ سے بچائیں۔ میں نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح اُن سے ملاقات کا موقع مل جائے تو اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات اُن کے گوش گزار کروں۔ جب مولانا صاحب کا خطاب ختم ہوا تو ہم اپنے سوالات اُن سے پوچھنے کے لیے اُن کی جانب لپکے لیکن ہمارے پہنچنے سے قبل ہی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔
یہ ہیں ہمارے وہ رویے جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عملاً کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ آج کل لاہور میں ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کے خلاف زور و شور سے مہم جاری ہے۔ ہر روز فخریہ انداز سے بتایا جاتا ہے کہ آج اتنے چالان کیے گئے اور اتنا جرمانہ وصول کیا گیا۔ یقینا ہیلمٹ کی پابندی کی جانی چاہیے اور عوام کو کسی خوف یا جرمانے کے بغیر اپنی سیفٹی یقینی بنانی چاہیے مگر ہمارا مدعا صرف یہ ہے کہ اگر آج کل پولیس کمپین چلا ہی رہی ہے تو یہ کمپین بلا تخصیص ہونی چاہیے۔ یقین کیجئے کہ ہم آج بھی بے شمار ٹریفک وارڈنز اور پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہیں جو ہیلمٹ پہنے بغیر بائیک چلا رہے ہوتے ہیں‘ اُن کوروک کر کوئی بھی باز پرس نہیں کرتا۔ اسی طرح ہمارے حکمران ہمیشہ سادگی کا درس دیتے ہیں لیکن خود ان کا پروٹوکول دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ یہ سب ایسی باتیں کرکے ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ آزادی کی پہلی صبح سے یہی روش دیکھنے میں آ رہی ہے جو اب ایک روایت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ البتہ ایک بہت واضح فرق اب ضرور دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب چیزیں پہلے جیسی نہیں رہیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ بہت سے بت ٹوٹ چکے ہیں۔ اب لوگ کھل کر سوال کرنے لگے ہیں۔ کسی جھجک کے بغیر اپنی بات سامنے رکھنے لگے ہیں۔ اگر پھر بھی کسی کو کوئی زعم ہے تو ماضی قریب پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے ورنہ وقت ہاتھ سے ریت کی طرح مکمل طور پر پھسل جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اور ہمارے ملک کا نظام اِسی طور چلتا رہے گا لیکن پھر بھی آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔ گھنٹی ہلاتے رہنا چاہیے، حکمرانوں کو بتاتے رہنا چاہیے کہ نفرتیں بہت گہری ہو چکی ہیں‘ عوام شدید متنفر ہو چکے ہیں۔ مگر عام لوگوں کے بارے میں اربابِ حکومت کو کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اپنی طاقت اور اپنے اختیار کے زعم میں رہتے ہیں۔ ہم چونکہ عام آدمی ہیں‘ لہٰذا ضروری ہے کہ خاصوں تک عام آدمی کی حالت اور اُس کی سوچ کے بارے میں حقائق پہنچاتے رہیں شاید اسی لیے کالم میں ناامیدی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے مگر کیا خبر کہ ان بے سرو پا باتوں کا کبھی اُن پر کچھ اثر دکھائی دے جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں