"FBC" (space) message & send to 7575

یہ عالم بے یقینی کا!

ہر روز ایک نیا پینترا‘ ہرروز ایک نیا بیان لیکن عمل اپنے بیانات سے یکسر مختلف۔ قول وفعل میں تضاد تو خیر ہمیشہ سے حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے لیکن اِس مرتبہ جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے‘ ماضی میں اِس کی مثال ملنا مشکل ہے۔زیادہ افسوس اِس بات کا ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ملک کے آئینی اور قانونی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ یوںمحسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آئین اور قانون کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف سیاسی روایات سے انحراف اور قانون سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مسلسل یہ گردان جاری ہے کہ حکومت آئین اور قانون کی بالادستی پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ قول و فعل کے اتنے واضح تضادات کے باوجود یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ سننے والے تمام باتوں پر من و عن یقین کریں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے مگر اب جو اقتدار ہاتھ لگا تو سب کچھ بھول کر بگٹٹ اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو ہمیشہ سے ہمارے حکمرانوں کی پسندیدہ رہی ہے۔ افسوس کہ اس سارے کھیل میں آئین کو بے توقیر کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ماضی قریب تک اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کا بھی یہی عالم تھا۔ اُنہوں نے بھی جی حضوری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، ایک پیج والی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی۔ یہ بھی عجب تماشا رہا کہ دورانِ اقتدار مقبولیت کی نچلی ترین سطح تک پہنچ جانے والوں کو اقتدار سے محروم کیا گیا تو وہ ایک مرتبہ پھر مقبولیت کی چوٹیوں پر جا پہنچے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہر قسم کی سخت مخالفانہ مہم کے باوجود مقبولیت ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہرحربہ آزمایا جاچکا اور آزمایا جارہا ہے ، تیرہ‘ چودہ جماعتوں کے زعما دن رات ایک ہی جماعت کو رگیدنے میں مصروف ہیں‘ صبح سے شام تک ایک ہی بات سماعتوں میں انڈیلی جاتی ہے کہ انہوں نے یہ کر دیا‘ وہ کر دیا‘ ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا‘ قوم کو تقسیم کر دیا‘ معیشت کو برباد کر دیا مگر اِس کے باوجود بات بن نہیں رہی۔
حسبِ منشا نتائج حاصل نہ ہونے کے باوجود کوششیں بدستور جاری ہیں اور اِن کوششوںمیں عوام کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔ محاورے کی زبان میں‘ انہیں مارا بھی جارہا ہے اور رونے بھی نہیں دیا جارہا۔ ایسے وقت میں جب حکومت اپنے آخری ہفتے میں داخل ہو چکی ہے‘ حکمران اتحاد نو اگست کو اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاقِ رائے کر رہا ہے‘ پارلیمنٹ سے بلوں پر بل منظور کرائے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں دونوں ایوانوں سے منظور کرائے جانے والے بلز کی تعداد ستر سے اسّی ہو چکی ہے لیکن مجال ہے کہ مفادِ عامہ کا کوئی ایک بھی بل پیش کیا گیا ہو۔ ہروہ قانون سازی کی جا رہی ہے جس کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہے کہ اس سے حکومت کے لیے نہایت آسان ہو جائے گا کہ اپوزیشن پر شکنجہ کسا جا سکے۔ اسی وجہ سے سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے طبقات پریشان ہیں کہ کل کو حکومت سے باہر ہونے کے بعد یہی قوانین خود انہی جماعتوں کے خلاف کام آئیں گے‘ جنہوں نے انہیں منظور کیا ہے۔ آج بنائے جانے والے قوانین‘ جن کی بہت زوروشور سے وکالت کی جارہی ہے‘ جب کل کلاں کو اِنہی جماعتوں کے خلاف استعمال ہوں گے تو پھر یہ پچھتائیں گے۔ پھر قوم کو بتایا جائے گا کہ سیاسی مخالفین کو ذاتی بغض و عناد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ہمیشہ ایک ہی پتھر سے ٹھوکر کھاتے ہیں اور اسے راستے سے ہٹاتے بھی نہیں ہیں۔
چند دنوں کے بعد ان سیاستدانوں کو دوبارہ عوام میں جانا ہے‘ یہ اپنی کارکردگی کے طور پر عوام کے سامنے کیا پیش کریں گے؟ شاید اُن کے ذہنوں میں یہ ہو کہ پہلے حکومت سازی میں عوام کے ووٹوں کا کون سا کردار رہا جو اب وہ عوام کی پروا کریں۔یہ بات ہے تو حقیقت کہ یہاں حکومتیں بنانے اور گرانے کے فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ جنہوں نے عوام میں جانا ہوتا ہے‘ وہ بھی ملک کے بجائے دوسرے ممالک میں بیٹھ کر عوام کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران یا تو لندن یا پھر دبئی میں بیٹھ کر عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ایسی مثالیں ملتی ہوں جو ہمارے سیاستدان آئے روز رقم کرتے رہتے ہیں۔ ہردو‘چار روز بعد ہمارے سیاستدان ہواکے گھوڑے پر سوا ہو کر کبھی لندن تو کبھی دبئی جا پہنچتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کیا بھی جائے تو اس بات پر نہیں کیا جاتا کہ فیصلے باہر کیوں ہو رہے ہیں‘ اس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ ہمیں اس مشاورت میں کیوں شریک نہیں کیا گیا۔
اب عوام بھی ان باتوں کو سمجھنے لگے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد اِس قدر متزلزل ہوچکا ہے کہ اب شاید انہیں اپنے حکمرانوں کی کسی بات پر یقین ہی نہیں رہا۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے ہمارا واسطہ عام آدمی سے پڑتا رہتا ہے۔ اِس وقت اُس کی جو حالت ہو چکی ہے‘ اُسے بیان کرنے کے لیے بہت مضبوط دل چاہیے کہ لوگ کسی قدر شدید تکلیف میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب یہ نوید دی جاتی ہے کہ حکومت نے اپنی سیاست قربان کر کے ملک کو صحیح ٹریک پر ڈال دیا ہے‘ یا یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ اب ملک کے تمام اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں‘ یا یہ کہا جاتا ہے کہ اب اگر عوام نے دوبارہ اتحادی جماعتوں کو موقع دیا تو یہ لوگ ملک کی خاطر جان لڑا دیں گے‘ جب اُنہیں حکومت کے شاندار عزائم کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو جو جوابات اُن کی طرف سے سننے کو ملتے ہیں‘ اُنہیں احاطۂ تحریر میں بھی نہیں لایاجاسکتا۔ اکثر لوگوں کی طرف سے یہ آرا بھی سامنے آتی ہیں کہ چلیں! یہ مان لیتے ہیں کہ سابق حکومت کی غلط پالیسیوں کو درست کرنے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی لہر آئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جوآج کل ہرطرف لاقانونیت اور آئین شکنی کا دور دورہ نظر آرہا ہے‘ اِس کا ذمہ دار کون ہے؟وہ بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ حکومتی ایما پر جس طرح لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جاتی ہے‘ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے‘ املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے‘ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور اِس کا ذمہ دار کون ہے؟وزیر‘ مشیر‘ معاونین ایسے سوالات کا جو مرضی جواب دیتے رہیں لیکن شاید ہی کسی کو ان کی باتوں پر یقین ہو۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ آج کے دور میں چیزوں کو چھپانا ممکن نہیں رہا لیکن اِس کے باوجود 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کا طرزِ سیاست چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
عوامی سطح پر یہ سوال بھی بکثرت پوچھا جارہا ہے کہ عوام پر ہرروز نیا بجلی بم گرایا جارہا ہے لیکن دوسری طرف اشرافیہ کو وسیع پیمانے پر بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے‘ یہ دہرا معیار کیوں؟ایک طرف معیشت کی بدحالی کا رونا رویا جارہا ہے تو دوسری طرف حکومتی اراکین اور چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافہ‘ کیوں؟ ایک طرف عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوچکا ہے اور دوسری طرف پنجاب میں بیورو کریسی کے لیے تین ارب روپے کی دو سو سے زائد نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ کیا ان اقدامات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک معاشی طور پر مشکل حالات سے گزر رہا ہے؟ کسی ایک کو بھی ایسی جرأتِ رندانہ نصیب نہ ہوئی کہ وہ جھوٹے منہ ہی سہی‘ مراعات لینے سے انکار کر دیتا کہ ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ آپ دیکھیں ہمارے بااختیار اور طاقتور لوگ‘ سب کے سب بھرپور مراعات سے لطف اُٹھا رہے ہیں لیکن عوام کو مہنگائی کے جھٹکوں پر جھٹکے دیے جارہے ہیں۔ جو لوگ امیر ہیں‘ صاحبِ استطاعت ہیں‘ اُنہیں تو سرکاری سطح پر بجلی‘ پٹرول مفت فراہم کیے جا رہے ہیں‘ مراعات دی جا رہی ہیں اور جو مستحق ہیں‘ جن کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے‘ اُن پر نت نئے ٹیکسز کا بوجھ لادا جا رہا ہے‘ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے بدترین معاشی حالات میں بھی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کام کر رہی ہے جس کے اراکین بھرپور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ جب مراعات کی بات آتی ہے تو یہ سب ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک وزارت کے لیے اپنا نظریہ تک ترک کردیتے ہیں۔ اِس سب کے باوجود یہ توقع رکھتے ہیں کہ عوام اِن کے عمل کے بجائے ان کی باتوں اور دعووں پر یقین کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں