"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی منطق نہ جواز

ریاست اور جمہوریت بچانے کے نا م پر برسراقتدار آنے والی اتحادی حکومت کے جانے میں اب زیادہ دن باقی نہیں رہ گئے۔ حکومت کی رخصتی کا وقت قریب آنے کے ساتھ ہی اب اِس کی کارکردگی جانچنے اور پرکھنے کا سلسلہ بھی زوروشور سے شروع ہوچکا ہے۔ دیکھا جائے تو چند دن کی مہمان حکومت کے پلے کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے لے کر وہ آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس جا سکے۔ مہنگائی تو جو ہوئی سو ہوئی‘ لیکن اِس کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اپنے ہی دعووں کی نفی نے اسے انتہائی کمزور پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ مسلم لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی (ایف) اور حکومتی اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں کے پاس بظاہر کوئی منطق‘ کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ وہ آنے والے دنوں کے دوران خود کو اس سے مبرا قرار دے سکیں جہاں اُنہوں نے ملک کو لا کھڑا کیا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جاتے جاتے بھی یہ حکومت جو کچھ کررہی ہے‘ وہ سراسر جمہوریت اور جمہوری اُصولوں کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ اِن حالات میں وزیراعظم کے طرزِ عمل پر تو سوالات اُٹھ ہی رہے ہیں لیکن میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو بھی اِس صورت حال سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ آئین اور قانون سے اس طرح کھلواڑ کیا گیا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ سب وہ رہنما ہیں جو گزشتہ دورِ حکومت کے دوران حکومت کو ہمیشہ انسانی حقوق کی پاسداری کا درس دیا کرتے تھے‘ مگر جب یہ سب ایک اتحاد کی شکل میں حکومت میں آئے تو اپنی تمام باتیں اور پچھلے تمام بیانات جیسے یکسر بھول چکے تھے۔ حکومت سنبھالنے سے قبل یہ ساڑھے تین سال تک مہنگائی‘ مہنگائی کی گردان کرتے رہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہیں نہ مہنگائی یاد رہی نہ تاریخی بلند ترین سطح پر موجود ٹیکسز‘ نہ پٹرولیم لیوی کی ریکارڈ سطح یاد رہی ہے اور نہ ہی سیاسی کارکنوں اور اپوزیشن سے ہونے والا سلوک۔
یہ سچ ہے کہ اِس حکومتی اتحاد کے تقریباً سولہ ماہ کے عرصے میں ہرشعبے میں تنزلی ہی دیکھنے میں آئی۔ مہنگائی نے اب لوگوں کی سانسیں تک کھینچ لی ہیں۔ دوسری جانب اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ اس حکومتی اتحاد پر نظر ڈالی جائے تو ایک جماعت وہ ہے جو ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتی تھی۔ دوسری جماعت وہ ہے جس کے زعما اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ اُن کی جماعت نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے اپنے متعدد رہنمائوں تک کی قربانی دی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جمہوریت کے خلاف کوئی سازش برداشت نہیں کی جائے گی مگر جیسے ہی حکومت میں شامل ہوئے تو اِن کے رویے یکسر تبدیل ہو گئے۔ جاتے جاتے اِس حکومت نے قانون سازی کے نام پر جو کچھ کیا ہے، اُسے ملکی تاریخ میں ہمیشہ منفی الفاظ سے یاد رکھا جائے گا۔ یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ اِن قوانین سے جمہوریت مزید کمزور ہوئی ہے۔ حکومت کے ذہن میں شاید یہ ہے کہ یہ سب قوانین مخالفین کو کچلنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ وقتی طور پر اِن قوانین کی مدد سے مخالفین کودیوار کے ساتھ لگا دینے میں مدد ملے گی لیکن جب کل کودن پھر جائیں گے‘ تب کیا ہوگیا؟یہ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال ہو کر یہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ان کا بھی آشیانہ ہے۔ اگر حالات کل کو تبدیل ہوجاتے ہیں‘ تب اِن جماعتوں کا کیا حال ہو گا؟یہ وہ خدشات ہیں جو حکومتی اراکینِ پارلیمنٹ بھی محسوس کررہے ہیں۔
سینیٹ کے 24 جولائی سے شروع ہونے والے اجلاس میں بھی درجنوں نئے بل منظور کرائے جا چکے ہیں جن میں سے کچھ بل ایوانِ بالا میں براہِ راست پیش کر کے فوری طور پر ایجنڈے میں شامل کیے گئے اور اسی وقت منظور کر لیے گئے۔ ان بلوں پر کیا بحث ہوئی ہو گی اور ان کا کس قدر مطالعہ اور ان کے مضمرات پر کس قدر غور کیا ہو گا‘ یہ قطعاً سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف صرف دو دنوں کے دوران قومی اسمبلی سے 52 بل منظور کرائے گئے جن کی منظوری کے لیے مجوزہ طریقہ کار کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا۔ متعدد اراکینِ پارلیمنٹ کا موقف ہے کہ اُنہیں بل کی کاپیاں تک فراہم نہیں کی جا رہیں۔ نئی قانون سازی کے بلز متعلقہ کمیٹیوں کو بھی نہیں بھیجے جا رہے اور ان پر ایوان میں بحث بھی نہیں کرائی جا رہی۔ 27 جولائی کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے 29 بلز کی منظوری کے وقت ایوان میں صرف پندرہ ارکان موجود تھے جن میں سے دو سینیٹر تھے‘ یعنی محض تیرہ ارکانِ قومی اسمبلی نے محض ایک گھنٹے میں تمام بلوں کی منظوری دی۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ جمہوری حکومت قانون سازی کے عمل کو اِس طرح بھی بلڈوز کرسکتی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا بیرونِ ملک بیٹھے میاں نواز شریف خود کو اِس تمام کارروائی سے مبرا قرار دے سکتے ہیں؟کل کو جب وہ انتخابی مہم میں جائیں گے تو کیا اُنہیں ان سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کہ وہ ایسے حالات پر کیوں خاموش رہے؟دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی بلوں کو منظور کرانے میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کل کو اِن دونوں جماعتوں کو اپنے ہی اقدامات کا بوجھ نہ اُٹھانا پڑے۔ اِن حالات میں سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ آخر ہمارے ملک کا بنے گا کیا؟ یہ سلسلہ کہاں جا کررکے گا؟اِن حالات کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام نے اب حالات میں بہتری کی اُمید ہی چھوڑ دی ہے۔ مایوسی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے لیکن حکمرانوں کا اطمینان سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال رہا ہے۔ کیا اِنہیں واقعی کچھ ادراک نہیں ہوپارہا کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں‘اُس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
اِس تمام صورت حال کو ایک دوسرے تناظر میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ اِس کا دوسرا پہلو یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اِس وقت حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کے کرتا دھرتا خودکو وزارتِ عظمیٰ کے لیے موزوں ترین اُمیدوار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اِسی لیے ہر کوئی نت نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ یہ حالات اِس بات کو بھی ثابت کررہے ہیں کہ جمہوریت کی مالا جپنے والی ہماری جماعتیں جمہور کے کسی کھاتے میں نہیں لاتیں۔ اگر ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہوتے کہ اُنہیں عوام کے ووٹوں ہی سے دوبارہ منتخب ہو کر برسراقتدار آنا ہے تو وہ حالات کو اس نہج تک پہنچانے سے قبل ضرور سوچتے ۔ اگر وہ اپنی سیاست اور اپنے اقتدار کے لیے انتخابی راستے کے علاوہ کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں تو اِس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل مخدوش ہوتا جارہا ہے۔ بڑے میاں صاحب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اُ ن کی کبھی مقتدر حلقوں سے نہیں بنی۔ دوسری طرف موجودہ وزیراعظم صاحب آئندہ کے لیے بھی وزارتِ عظمیٰ کے پسندیدہ اُمیدوار بنتے جا رہے ہیں۔ یوں بھی وہ ہمیشہ مفاہمت اور اداروں کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کرتے رہے ہیں اور اب انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے اِ س کو ثابت بھی کر دیا ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ایسے میں پارٹی کہاں کھڑی ہو گی؟ کیا اس میں دراڑیں مزید گہری نہیں ہوں گی؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر حالات تبدیل ہو گئے‘ تو پھر کیا ہو گا؟ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اِس کے باوجود اگر کسی منطق اور جواز کے بغیر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر بگٹٹ بھاگنے کی کوشش کی جائے تو ایسا کرنے والے کی مرضی! باقی رہا عوام کا سوال‘ تو ان کی سانسیں تو ایسے انداز سے کھینچی گئی ہیں کہ اب ان میں اپنی آواز بلند کرنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں