"FBC" (space) message & send to 7575

لُو کے تھپیڑوں میں ڈھارس

پہلے کچھ بات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے‘ جس نے عوام کے ایک بار پھر کڑاکے نکال دیے ہیں۔ ویسے تو عوام کے کڑاکے آئے روز نکلتے رہتے ہیں مگر صرف پندرہ روز میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 37روپے فی لیٹر تک اضافہ ہوچکا ہے۔ لامحالہ اِس کے اثرات دیگر حوالوں سے بھی سامنے آرہے ہیں اور آنیوالے دنوں میں مزید سامنے آئیں گے۔ سب سے پہلے تو ٹرانسپورٹرحضرات نے فوری طور پر کرایوں میں اضافہ کردیا ہے۔ جب کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اشیا کے ایک سے دوسری جگہ منتقلی کے نرخ بڑھ جاتے ہیں‘ یوں تمام اشیا کی قیمتیں براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ دوسری جانب ڈیزل کے نرخ میں 20روپے فی لیٹر اضافہ ہونے سے پاکستان ریلویز کو بھی زیربار ہونا پڑا ہے۔ پاکستان ریلویز ہرروز تقریباً ساڑھے تین لاکھ لیٹر ڈیزل استعمال کرتا ہے۔ حالیہ اضافے سے اِسے ہرروز 70لاکھ روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ اضافی بوجھ کسی شک و شبہ کے بغیر عوام پر منتقل کیا جائے گا۔ گویا مہنگائی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوچکا ہے جس کیلئے نگران حکومت آتے ہی ہدفِ تنقید بننا شروع ہو گئی ہے۔
ہم گرم ہوا کے تھپیڑے برداشت کرتے کرتے اِس قدر دلبرداشتہ ہوچکے ہیں کہ معمولی سی تبدیلی سے بھی بہتری کی اُمیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ نگران حکومت کے حوالے سے تھا جس کی آمد پر یہ توقعات وابستہ کرلی گئی تھیں کہ شاید حالات میں کچھ بہتری آ جائے۔ بہتری کی توقعات تو کیا پوری ہونا تھیں‘ اُلٹاآتے ہی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اوگرا کی جانب سے پٹرول کی قیمت میں دس روپے اضافے کی سمری ارسال کی گئی مگر وزارتِ پٹرولیم نے ''عوام کے درد کا احساس کرتے ہوئے‘‘ پٹرول کی قیمت میں ساڑھے سترہ روپے کا اضافہ کیا۔ لوگ حکومت کو کوس رہے ہیں اور رو دھو کر چپ ہو گئے ہیں‘ ظاہر ہے کہ معاملاتِ زندگی چلتے رہیں گے لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ معاملات چل کس انداز میں رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بلند پرواز رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ گویا ملکی معاملات اُسی نہج پر چل رہے ہیں جس ڈگر پر جانے والی حکومت کے دور میں چل رہے تھے۔ وہ دور‘ جسے ہمیشہ بدترین حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ ریاست بچانے کے نام پر گزشتہ دور میں صرف اپنے مقدمات ختم کرائے گئے اور عوام کو مہنگائی کے ایسے گرداب میں پھنسا دیا گیا جہاں سے باہرنکلنے کی کوئی اُمید تک دکھائی نہیں دے رہی۔ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ اِس میں وہ سب سیاسی جماعتیں برابر کی حصہ دار ہیں جو اتحادی حکومت کا حصہ تھیں۔
اِن حالات میں بگڑے ہوئے معاملات کو سدھارنے کیلئے کی جانیوالی خال خال کوششیں کچھ ڈھارس بندھاتی نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے پنجاب کی تمام لائبریریز کو رات ایک بجے تک کھلا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اِس سے پہلے ہم نے اپنے ایک کالم میں اُن کی توجہ پنجاب کی سب سے بڑی‘ پنجاب پبلک لائبریری کے ریڈنگ روم کی طرف مبذول کرائی تھی۔ ریڈنگ روم کی حالت دیکھ کر یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ پنجاب کی سب سے بڑی لائبریری کا ریڈنگ روم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں شائبہ بھی نہیں تھا کہ یہ آوازنگران وزیراعلیٰ کے کانوں تک پہنچے گی لیکن کالم کی اشاعت کے بعد جو کچھ ہوا وہ بہت خوشگوار تھا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے نہ صرف خود لائبریری کا دورہ کیا بلکہ اِس کے ریڈنگ روم کی حالت بہتر بنانے کی فوری ہدایت بھی کی۔ ہدایات ملنے کی دیر تھی کہ چند روز کے اندر ہی یہ کمرہ چمچمانے لگا۔ اتنا ہی نہیں‘ ریڈنگ روم کی تزئین وآرائش کے بعد انہوں نے دوبارہ یہاں کا دورہ کیا اور پنجاب بھر کی لائبریریز کو رات ایک بجے تک کھلا رکھنے کا حکم دیا۔ کوئی شک نہیں کہ اِس اقدام سے علم دوست طبقات خصوصی طور پر طالب علموں کو بہت فائدہ پہنچے گا جو رات گئے تک لائبریریز سے استفادہ کر سکیں گے۔ یہ دیکھنے میں ایک معمولی اقدام ہے لیکن اِس کے نتائج دوررس ہوں گے۔ آج کل مہنگائی کے سبب طالبعلموں کیلئے درسی کتب خریدنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے‘ ایسے میں کتب خانوں سے زیادہ دیر تک استفادہ کا موقع ملنا اُن کیلئے خاصا سود مند رہے گا۔نگران حکومت کی جانب سے کئی ایسے اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں جن کے باعث شہریوں کو ریلیف ملا۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ پریکٹس رہی ہے کہ نگران حکومتیں کچھ زیادہ فعال نظر نہیں آتیں لیکن پنجاب کی نگران حکومت کافی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ کہیں سے رشوت ستانی کی کوئی شکایت آجائے تو نگران وزیراعلیٰ خود وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کسی ہسپتال میں ناقص انتظامات کی بابت پتا چلے تو کوشش کی جاتی ہے کہ انتظامات کو جلد بہتر بنایا جائے۔ گزشتہ دنوں جناح ہسپتال لاہور میں مناسب سہولتیں نہ ملنے پر مریضوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا۔ جس پر فوری نوٹس لیا گیا اور اب صورتحال کافی بہتر ہوگئی ہے۔ بعینہٖ صورتحال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بھی دیکھنے کو ملی۔
اگر ہرشخص اپنی ذمہ داریوں کو قومی فریضہ سمجھ کر انجام دے اور اپنے حصے کا چراغ جلانے کی کوشش کرے تو حالات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کی فعالیت کی وجہ سے پنجاب میں بیورو کریسی بھی کافی چوکس نظر آتی ہے۔ کافی عرصے کے بعدیہ صورتحال دیکھنے کو ملی ہے کہ اعلیٰ بیورو کریٹس بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنے دفاتر میں دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ صوبے میں لاقانونیت کی صورتحال پر نگران حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ صوبے بھر میں جرائم ریٹ میں کسی طور کمی نہیں آرہی اور یہ بات نہایت قابلِ تشویش ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ شہریوں کے ساتھ پولیس کی زیادتیوں کی شکایات بھی تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران جو طرزِعمل اختیار کیا گیا‘ اُس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اِس سے پولیس کے امیج کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ سچ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ آئی جی پنجاب بھی محکمۂ پولیس میں اصلاحات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں مگر یکا یک کوئی واقعہ پیش آتا ہے‘ یا کسی ایک پولیس اہلکار کی کوئی منفی حرکت سامنے آ جاتی ہے جو سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اگر نگران حکومت اِس طرف خصوصی توجہ دے تو صورتحال کافی بہتر ہوسکتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اگر پنجاب کی نگران حکومت اس محدود عرصے میں محکمہ پولیس، محکمہ صحت اور محکمہ مال میں کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں لے آئے کہ عام آدمی کو اِن محکموں سے حقیقی ریلیف ملنے لگے۔ خصوصاً محکمہ پولیس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ محکمہ بے پناہ اختیارات اور طاقت کا حامل ہے اور اِنہی اختیارات اور لامحدود طاقت کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کی شہریوں کیساتھ زیادتی کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ عمومی طور پر پولیس انتہائی مشکل حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آتی ہے مگر کوئی ایک چھوٹا موٹا واقعہ بھی پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کی تمام کوششوں کو زائل کر دیتا ہے۔ یوں بھی پولیس والے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان مجبوریوں کا اظہار اکثر سننے میں آتا رہتا ہے۔ ہم جس تناظر میں بات کررہے ہیں‘ اُس پس منظر کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ بہرحال پولیس میں جزا و سزا کا موثر نظام ہونا چاہیے۔ یقین جانیے‘ اگر نگران حکومت صرف اس ایک محکمے کو عوام دوست بنانے میں کامیاب ہو جائے تو پنجاب کے عوام نگران وزیراعلیٰ کے جانے کے بعد بھی اُن کے دور کومحسن سپیڈ کے نام سے یاد رکھیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پنجاب کے حوالے سے شہباز سپیڈ کی مثال دی جاتی تھی؛ گو کہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں شہباز شریف کی کارکردگی قابلِ تحسین تو دور‘ تسلی بخش بھی نہیں رہی۔ کسی بھی شخص کی عزتِ نفس اُسے سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے‘ اِس کامجروح ہونا اُسے جیتے جی ماردیتا ہے۔ بدقسمتی سے پولیس ڈیپارٹمنٹ سب سے زیادہ عزتِ نفس کو ہی مجروح کرتا ہے۔ اُمید ہے کہ ہماری یہ آواز بھی ضروروزیراعلیٰ کی سماعتوں تک پہنچے گی۔ ویسے تو مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں لیکن کم از کم عام آدمی کی عزتِ نفس کو ضرور تحفظ فراہم کیاجانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں