"FBC" (space) message & send to 7575

ان کی داد رسی کون کرے گا؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک پولیس کانسٹیبل کی گالیاں دینے کی ایک وڈیو وائرل ہوئی۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک یوٹیوبر کی طرف سے روکے جانے پر پولیس اہلکار گالیاں دیتا ہے اور اپنے اعلیٰ آفیسرز کو بھی نہیں بخشتا۔ بعد میں آئی جی پنجاب نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ متعلقہ اہلکار کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور اُسے مینٹل ہسپتال داخل کرادیا گیا ہے‘ اس کا پہلے سے علاج چل رہا تھا۔ اس کے بعد آئی جی پنجاب پولیس کی ایک وڈیو سامنے آئی جس میں وہ گالیاں دینے والے کانسٹیبل کو گلے لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ آئی جی صاحب اپنے محکمے کے ایک اہلکار کی دلجوئی کرنے کے لیے اُس کے پاس پہنچے مگر نجانے یہ مناظر دیکھ کر کیوں دل میں خواہش سی ابھری کہ کوئی ایسی پالیسی بھی ہونی چاہیے کہ آئی جی صاحب اُن افراد کو بھی گلے لگائیں جو پولیس کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان افراد کی داد رسی کون کرے گا جو پولیس اہلکاروں کے ناجائز اختیارات کا نشانہ بنتے ہیں؟
گزشتہ دنوں لاہور کی فردوس مارکیٹ کے ایک ہوٹل ملازم پر پولیس تشدد کاافسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک ہوٹل پہ پولیس اہلکار ناشتہ کرنے کے لیے آیا‘ اہلکار کو ناشتہ دیر سے ملا یا پھر ناشتے کا بل نہ دینے پر ویٹر سے جھگڑا ہوا‘ جو بھی وجہ تھی‘ وہ اہلکار چودہ سالہ ویٹر کومبینہ طور پر پولیس چوکی لے گیا اور وہاں دوسرے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اُسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں وہ بچہ ہسپتال پہنچ گیا۔ ہوٹل مالکان کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ مفت کھانا اور ناشتہ پولیس اہلکاروں کا روز کا معمول ہے۔ جس کسی کی نظروں سے یہ واقعہ گزرا ہوگا‘ اُس کے ذہن میں پولیس کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوا ہوگا۔ کاش آئی جی پولیس اِس بچے کو بھی گلے لگائیں‘ اس کی بھی داد رسی کریں۔ اس سے اختیارات سے تجاوز کرنے کے عادی پولیس اہلکاروں کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ اُن کا اعلیٰ ترین افسر اور ان کا محکمہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔
پندرہ سالہ ارسلان نسیم کا واقعہ بھی کل ہی کی بات ہے، عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود جس کے گھر پرپولیس نے متعدد چھاپے مارے۔ تیسرے چھاپے کے دوران بچے کے والدین پولیس اہلکاروں کے پاؤں پڑتے رہے کہ اُن کے بچے کی ضمانت ہوچکی ہے‘ خدا کے لیے اُسے گرفتار نہ کیا جائے مگر انہیں دھتکار دیا گیا، اِسی دوران ارسلان کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بحق ہو گئے۔ اب اِس واقعے کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ جنہیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں آئے روز بہت کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جو شرم سے جھکے ہمارے سروں کو اوپر اُٹھنے ہی نہیں دیتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ملک کی حالت اُس کشتی کی طرح ہوچکی ہے جس کا کوئی ملاح نہیں ہے اور جو اِدھر‘ اُدھرمسلسل ہچکولے کھا رہی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار ادارے کے اہلکار ہی قانون شکنی میں ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف دھڑلے سے قانون شکنی کرتے ہیں بلکہ یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اُن کے غلط اور ماورائے قانون اقدامات کو قبول کیا جائے اور تحفظ دیا جائے۔ ایسے واقعات کی کوئی ایک مثال ہو تو پیش بھی کی جائے‘ یہاں تو ہرروز ایسے بیسیوںواقعات رونما ہوتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جب اعلیٰ عہدیدار اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں تو پھر چھوٹوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ وہ بھی کسی کے بھی گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کو اپنی طاقت کا اظہار سمجھ لیتے ہیں۔ پس منظر خواہ کچھ بھی ہو‘ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جن کے منفی اثرات کو زائل کرنے میں دہائیوں کا عرصہ درکار ہو گا۔
یہ تسلیم کہ پولیس کو نامساعد حالات میں اپنے فرائض سرانجام دینا پڑتے ہیں‘ محدود وسائل میں رہتے ہوئے امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنا‘ کسی ایمرجنسی کی صورت میں شہریوں کی مدد کے لیے پہنچنا‘ چوبیس گھنٹے افسران کا دباؤ اور سب سے بڑھ کر اپنے کام میں سیاسی مداخلت کا سامنا کرنا۔ ظاہر ہے کہ اِس ڈیوٹی سے روزمرہ کے اُمور متاثر ہوتے ہیں
یقینا پولیس افسران اُن عوامل سے بخوبی آگاہ ہیں جن کے باعث پولیس کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ شہریوں پر پولیس تشدد کی شکایات بھی آئے روز ملتی رہتی ہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ پولیس افسران یہ جانتے ہیں کہ کن وجوہات کی بنا پرپولیس کا محکمہ بدنام محکموں کی فہرست میں پہلے نمبروں پر آتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ پولیس اہلکار اگر نامساعد حالات میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو دوسری طرف اِن کی صفوں میں ایسی متعدد کالی بھیڑیں بھی ہیں جن کے حوالے سے کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کرنے کی شکایات کثرت سے موجود ہیں۔
آئے دن ہم پولیس اہلکاروں کی زیادتی، تشدد اور ناجائز طور پر شہریوں کو ہراساں کرنے کی شکایات سنتے ہیں۔ پولیس کا عمومی تاثر تحفظ فراہم کرنے والے محکمے کے بجائے ایک ایسے محکمے کا بن چکا ہے‘ عوام جس سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ فیلڈ میں کام کے دوران جتنے بھی لوگوں سے ملنا ہوتا ہے ان میں سے اکثریت پولیس کے رویے سے شاکی نظر آتی ہے۔ اپنے جائز کام کے لیے بھی لوگ پولیس سٹیشن جانے سے پہلے سفارش وغیرہ تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ اوپر بیان کردہ واقعات تو دیگ کے چند دانے ہیں جن سے صورت حال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے واقعات تقریباً روز کا معمول بن چکے ہیں۔ یہی وہ رکاوٹیں ہیں جو پولیس کے تاثر کو اُبھرنے نہیں دیتیں۔ جب کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پولیس کی اچھی کوششیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جو بھی شخص اہلکاروں کی کسی زیادتی کا نشانہ بنے اور یہ بات ثابت ہو جائے کہ اُس کے ساتھ نارواسلوک روا رکھا گیا تھا تو ایسی صورت میں انسپکٹر جنرل پولیس یا کوئی دوسرا اعلیٰ پویس افسر متاثرہ افراد کو گلے لگائے اور یہ سب کچھ کسی دکھاوے یا نمائش کے طور پر نہیں بلکہ ایک خوکار نظام کے تحت ہونا چاہیے۔ اِس سے زیادتی کرنے والے اہلکاروں کو یہ پیغام جائے گا کہ ان کی غلط حرکتوں پر ان کا محکمہ اور اعلیٰ افسران مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ تب کوئی بھی اہلکار کسی غلط کام کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچے گا۔ پولیس کے محکمے کا بنیادی کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور انہیں پیش آنے والے مسائل کا ازالہ کرنا ہوتا ہے، بنیادی سوال یہی ہونا چاہیے کہ کیا یہ محکمہ اپنے بنیادی فرائض ادا کر رہا ہے۔ جب تک بنیادی ذمہ داریوں پر فوکس نہیں کیا جائے گا، عوام اور پولیس میں خلیج برقرار رہے گی۔ اسی طرح جن اہلکاروں کے خلاف شکایات موصول ہوتی ہیں‘ انہیں قصوروار پائے جانے پر محض او ایس ڈی بنانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ محکمے کو ایسی کالی بھیڑوں سے پاک کرنا ہو گا۔ اُمید ہے کہ کہ اگر ایسا کوئی نظام تشکیل پا جائے تو پولیس کے حوالے سے عام آدمی کے ذہن میں پائے جانے والے منفی تاثرکو دور کرنے میں بہت مدد ملے گی۔جب تک ظالم کے مقابلے میں مظلوموں کی دادرسی نہیں کی جاتی‘ جب تک انہیں ان کا حق نہیں دلایا جاتا تب تک کسی اہلکار سے گلے ملنے یا شہریوں کے گھر راشن پہنچانے جیسے اقدامات پولیس کے امیج کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں