"FBC" (space) message & send to 7575

پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں

انتہائی مہنگی بجلی کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ دراز ہونے لگا تو حکومتی سطح پر تشویش پیدا ہونے لگی۔ پہلے اِس حوالے سے اجلاس منعقد کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے منصوبوں پر غور کر رہی ہے۔ دو‘ چار روز کے متواتر اجلاسوں سے بات نہ بنی تو کچھ بزرجمہروں کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی کہ اجلاسوں کے بجائے کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی جائے کہ لوگوں کی توجہ بٹ جائے۔ غور و خوض کے بعد بجلی چوری کے خلاف مہم چلانے کا نہ صرف فیصلہ کیا گیا بلکہ اِس پر فوری عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا۔ مہم شروع ہونے کے بعد سے ایسی خبروں کی بہار آئی ہوئی ہے کہ فلاں جگہ سے اتنے بجلی چور گرفتار کر لیے گئے‘ اتنے مقدمات درج کر لیے گئے۔ اِس مہم کے نتیجے میں بجلی چوری ختم یا کم ہوتی ہے یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہوا کہ مہم کے آغاز کے بعد سے بجلی بلوں کے خلاف احتجاج میں نمایاں حد تک کمی آ گئی ہے۔ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں کہ بجلی چوری کا سو فیصد خاتمہ ہونا چاہیے اور بجلی چوروں کو کسی صورت بھی نہیں بخشا جانا چاہیے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ حکومت کو ایسی مہمات شروع کرنے کا خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب کسی معاملے پر عوامی احتجاج شدت اختیار کر جاتا ہے؟ بات سیدھی اور صاف ہے کہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوامی احتجاج کی شدت میں کمی لائی جائے اور اب کے بھی حکومت نے یہ مقصد کمال خوبصورتی کے ساتھ حاصل کر لیا ہے۔ اب آئندہ چند ہفتوں تک زور و شور سے اِس بات کی تشہیر کی جائے گی کہ اتنے بجلی چوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور یہ کہ اب یہ مہم مستقل بنیادوں پر جاری رہے گی‘ وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی مہمات کے پہلے کوئی مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں نہ اب ہی کچھ فائدہ ہو گا۔ صرف اتنا ہو گا کہ جو کام پہلے چند ہزار میں ہو جاتا تھا، اب اُس کا ریٹ ڈبل ہو جائے گا اور ایسی اطلاعات سننے میں آ بھی رہی ہیں۔ کم از کم لاہور کی حد تک ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹے بجلی چوروں کے میٹر ضرور اُتارے گئے لیکن ایف آئی آر وغیرہ درج کرانے کے بجائے ملی بھگت سے‘ پہلے کی نسبت زیادہ رقم لے کر میٹر دوبارہ لگا دیے گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے بجلی کی قیمت کو جس سطح پر پہنچا دیا ہے‘ اُس کے بعد وہ کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ بجلی چوری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر خطے کے دوسرے ممالک میں بجلی کے نرخوں پر ڈال لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے مشرقی ہمسایہ ملک بھارت کا جائزہ لیں تو وہاں پاکستانی روپوں میں بجلی کی قیمت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ بنگلہ دیش میں عوام کو بجلی کی فی یونٹ قیمت لگ بھگ 18 روپے ادا کرنا پڑتی ہے۔ اِس سے آگے چلیں اور مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کو دیکھیں تو وہاں جو شخص تین سو یونٹ تک بجلی اِستعمال کرتا ہے اُسے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت پاکستانی روپوں میں تقریباً تیرہ سے چودہ روپے ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ یہاں بجلی کے فی یونٹ قیمت باون روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور ابھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آنے والے مہینوں کے دوران بے شمار افراد اپنا بجلی کنکشن کٹوانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ یہاں پر لوگوں کی اُتنی تنخواہیں نہیں ہیں جتنے اُنہیں بل آ رہے ہیں اور حکومت چلی ہے بجلی چوری پر قابو پانے۔
یقینا بجلی چور کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں لیکن محض چوری کرنے والوں کو نہ پکڑیں، بجلی چوری کرانے والوں کو بھی قرارِ واقعی سزائیں ملنی چاہئیں۔ جس طرح کسی علاقے میں مقامی تھانے کی ملی بھگت کے بغیر کوئی غیر قانونی دھندہ نہیں ہو سکتا‘ اُسی طرح متعلقہ افسران کی رضا مندی اور معاونت کے بغیر کسی سرکل میں بجلی چوری نہیں ہو سکتی۔ اتنی مہنگی بجلی فراہم کرنے کے ساتھ یہ جو بڑے پیمانے پر اوور بلنگ کی جاتی ہے‘ اِس میں بھی متعلقہ اہلکار پوری طرح ملوث ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف سرکلز کے افسران ملی بھگت سے جو بجلی چوری کراتے ہیں‘ اُس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اوور بلنگ کرتے ہیں اور سارا بوجھ بے قصور لوگوں پر ڈال دیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ بڑی بڑی فیکٹریوں سے ان افسران کا مہینہ مقرر ہوتا ہے۔ اب بجلی چوروں کے خلاف مہم کا ڈول ڈالا گیا ہے لیکن دیکھ لیجئے گا کہ اِس میں شاید ہی متعلقہ محکمے کا کوئی افسر پکڑا جائے۔ کیا اِن سے جواب طلب نہیں کیا جانا چاہیے؟ بالکل‘ ان کی بھی جواب طلبی ہونی چاہیے، آخر وہ کس چیز کی تنخواہیں لے رہے ہیں، مگر ایسا ہو گا نہیں! وہی ڈھکوسلے جو عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں، اِس مرتبہ بھی اختیار کیے گئے ہیں۔ چند دن کے شور و غل کے بعد یہ مہم بھی ٹھپ ہو جائے گی۔
اب تصویر کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں۔ عوام ہوشربا حد تک مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایک پھل فروش‘ ایک ریڑھی بان‘ ایک مزدور‘ غرض ہر کوئی استعمال کرنے والی بجلی کی قیمت ادا کرتا ہے چاہے اِس کے لیے اُسے اپنے بچوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ ہی کیوں نہ چھیننا پڑے۔ لوگ بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کر رہے۔ ایک دوسرے سے اُدھار تک مانگ رہے ہیں کہ کسی طرح بجلی کا بل ادا ہو سکے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف اعلیٰ عہدیداران کو مفت بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ صرف حاضر سروس افسران ہی نہیں‘ بعض عہدے تو ایسے ہیں کہ جہاں سے ریٹائر ہونے والوں کو بھی تاحیات مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ دن رات عوا م کے دکھ میں گھلنے والے وزرائے اعظم غیر معینہ مفت بجلی استعمال کر سکتے ہیں۔ ملک کے اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز شخصیات کو بھی مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ ایک طویل فہرست ہے کہ جن کو مفت بجلی کی سہولت میسر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بجلی کمپنیوں کے ملازم 34کروڑ یونٹ سالانہ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے 15 ہزار افسر ماہانہ ایک کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ذہن میں رکھیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن کی مراعات قوم کے کندھوں کا بوجھ بنی ہوئی ہیں۔
سو مرتبہ بھی بجلی چوروں کے خلاف مہم شروع کر لی جائے‘ چنداں فرق نہیں پڑنے والا۔ حکومت کو‘ انتظامیہ کو خود بھی کچھ قربانی دینا پڑے گی۔ ہمارے حکمرانوں ہمیشہ ایک ہی رٹ لگائے رہتے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘ عوام کو قربانی دینی چاہیے۔ کیا قربانی ہمیشہ عوام ہی نے دینی ہے؟ کبھی آپ بھی اِس کارخیر میں حصہ ڈال لیں۔ علاوہ ازیں اُن سے بھی جواب طلبی ہونی چاہیے جنہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ ناروا شرائط پر دنیا کے مہنگے ترین معاہدے کیے اور اِس میں مبینہ طور پر اپنے لیے بھی فوائد کشید کیے۔ آج وہ خود تو چین و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں مگر عوام بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قوم کو اِس عذاب میں جھونکنے والوں کو کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ وہ جو مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے‘ اس بدترین مہنگائی پر اب خاموش بیٹھے ہیں۔ بجلی کے نرخ کہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہے، آئے روز ان میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت کی اشیا بیچ کر بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اِن حالات میں یہ تصورکرنا کہ بجلی چوری کے خلاف مہم کامیاب ہو پائے گی‘ دیوانے کی بَڑ معلوم ہوتی ہے۔اس مہم سے بس اتنا ہو گا کہ متعلقہ اہلکاروں کی جیبیں زیادہ تیزی کے ساتھ گرم ہونا شروع ہو جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں