"FBC" (space) message & send to 7575

کرکٹ ورلڈ کپ اور پاکستانی ٹیم

ذرا یاد کیجئے کہ کرکٹ کے ایشیا کپ کا میچ کھیلنے کے لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان آنا تھا۔ حکومت کو اُمید تھی کہ بھارتی ٹیم کی آمد سے دونوں ممالک کے مابین کرکٹ کے حوالے سے پائی جانے والی سرد مہری دور ہوگی۔ تب کے چیئرمین پی سی بی کی طرف سے اس اُمیدکا اظہار بھی کیا گیا تھا لیکن اپنی ایک تحریر میں ہم نے تبھی یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ بھارتی حکومت اپنی ٹیم کو پاکستان کبھی نہیں بھیجے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اس پر پی سی بی حکام نے کافی غصے کا اظہار بھی کیا لیکن بھارتی حکومت کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ بھارتی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ دراصل بھارتی حکومت نے بھارت میں پاکستان کے خلاف جس طرح کا ماحول بنا رکھا ہے‘ وہ ٹیم کو پاکستان بھیج کر اس ماحول کو اپنے خلاف نہیں کرنا چاہتی تھی، وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب آئندہ سال بھارت میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور بی جے پی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کی امید باندھے ہوئے ہے۔ اگر بھارتی ٹیم پاکستان آجاتی تو ہندو انتہا پسند وں کی بڑی تعداد خفا ہو سکتی تھی اور بی جے پی کی حکومت یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اِس وقت دنیائے کرکٹ میں بھارتی کرکٹ بورڈ کا طوطی بولتا ہے اور وہ اپنی من مانیاں کرتا پھر رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ مجبوراً ہماری ٹیم کو پاکستان میں طے شدہ میچ کھیلنے کے لیے سری لنکا جانا پڑا۔ وہاں بھارتی بورڈ نے اپنی ایک اور شرط بھی منوائی کہ گروپ میچ کے لیے ایک اضافی دن بھی رکھا جائے حالانکہ عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا لیکن ایسا ہوا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت اور پاکستان کا میچ پہلے روز مکمل نہ ہونے پر دوسرے روز جاری رکھا گیا جس میں قومی ٹیم کو شکست ہوئی۔ اس صورتحال پر ہماری حکومت‘ خصوصاً تب کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے کچھ بیانات بھی اخبارات کی زینت بنے تھے۔ ان میں ڈھکے چھپے الفاظ میں یہاں تک کہا گیا تھا کہ اگر بھارتی ٹیم پاکستان نہ آئی تو ہماری ٹیم بھی ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لیے بھارت نہیں جائے گی۔ تب بھارتی بورڈ کے سربراہ نے یہ بیان دیا تھا کہ ہم پاکستان نہیں جائیں گے لیکن پاکستانی ٹیم کھیلنے کے لیے بھارت ضرور آئے گی اور ایسا ہی ہوا۔ بھارتی بورڈ کے سربراہ جانتے تھے کہ پی سی بی حکام کی جانب سے خالی خولی بڑھکیں لگائی جا رہی ہیں اورپاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لیے بھارت ضرور بھیجا جائے گا۔
کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ پانچ اکتوبرکو شروع ہونے جا رہا ہے۔ وہاں پر پاکستانی ٹیم کو جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ اس کی بہت سی جھلکیاں ٹیم کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی نظر آ چکی ہیں۔ پہلے تو قومی ٹیم کے لیے بھارت کی طرف سے ویزوں کے اجرا میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی جس کے باعث ٹیم کو اپنے شیڈول میں تبدیلی کرنا پڑی۔ اس کا اثر ٹیم کی کارکردگی پر بھی پڑا جو 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں بڑا سکور کرکے بھی ہار گئی۔ یہ میچ بند دروازوں کے پیچھے کھیلا گیا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ حیدرآباد (دکن) میں مذہبی جلوسوں کی وجہ سے ٹیموں کو سکیورٹی دینا اداروں کے بس میں نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھارت کے سکیورٹی اداروں کی طرف سے یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے دوستانہ میچ منسوخ کر دیا جائے تو بہتر ہوگا لیکن حکام کی طرف سے میچ ملتوی کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ درخواست مسترد کیے جانے کے بعد اسے تماشائیوں کے بغیر‘ بند دروازوں کے پیچھے منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ بھارت کے سکیورٹی ادارے ورلڈ کپ کے ایک میچ کے لیے سکیورٹی فراہم نہ کر سکیں؟ ایسا ممکن نہیں! لیکن مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ہماری مرضی‘ ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ویزے تاخیر سے جاری کریں‘ ہماری مرضی۔ ورلڈ کپ کا فرینڈلی میچ بند دروازوں کے پیچھے کرائیں‘ ہماری مرضی۔ ایک ہم ہیں کہ اوروں کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہیں۔ یہی دیکھ لیجئے کہ بھارتی ٹیم تو پاکستان نہیں آئی لیکن ہماری ٹیم بھارت پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی ذہنی حالت پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت نہیں جانا چاہیے تھا لیکن اگر ٹیم کو بھیجنا ہی تھا تو پھر اتنے بیانات داغنے کی کیا ضرورت تھی‘ لیکن کیا کریں کہ ہمیں بلند بانگ دعوے کرنے کا شوق ہے اور بعد ازاں اپنی ہی باتوں سے پیچھے بھی ہٹ جاتے ہیں۔
ان حالات کو آپ جو مرضی نام دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے ہمارے اندر مزاحمت کی سکت نہیں رہی۔ یہ ویسی ہی صورت حال ہے جس کا سامنا ہمیں دوسرے شعبوں میں بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ یاد کیجئے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کے حوالے سے ہم نے کتنی بڑی بڑی باتیں کی تھیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات سن کر تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم نے آئی ایم ایف سے نہیں بلکہ اس نے ہم سے قرض لینا ہے۔ اسی تناظر میں ''پلان بی اور پلان سی‘‘ کی بھی بڑی گردان کی گئی لیکن جب یہ پوچھا جاتا تھا کہ یہ پلان بی ہے کیا تو اس کا کبھی کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا۔ پھر وہی ہوا کہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لینے کے لیے ہم نے اپنے ہاتھ پاؤں باندھ کر خود کو اس کے سامنے پھینک دیا کہ جو جی چاہے سلوک کرو لیکن قرض کی نئی قسط جاری کر دو۔ قرض ملنے پر قوم کو ہمارے حکمرانوں نے ایسے مبارکباد دی تھی جیسے پاکستان کا غیر ملکی قرض اتر گیا ہو یا ہمارے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے بھی التجا کی جاتی رہی کہ ہماری مدد کردو لیکن اس مرتبہ شاید انہوں نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اس مرتبہ کوئی مدد نہیں کرنی۔ ظاہری سی بات ہے کہ وہ بھی اب ضرورتیں پوری کرتے کرتے اور ملکی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے مشورے دے دے کر تنگ آچکے ہیں، مگر یہاں کوئی ان کی باتوں پر، ان کے مشوروں پر کان دھرنے والا ہی نہیں۔ قوم کو انہی جھمیلوں میں اُلجھا کر رکھنے کے بعد ہمارے حکمران ہمیں گرداب میں چھوڑ کر لندن کی ٹھندی فضاؤں میں پہنچ گئے۔
کوئی تصور کر سکتا ہے کہ عالمی سطح پر ایسے ملک کی کیا عزت ہو سکتی ہے۔ جب ملک کا کوئی وقار نہیں ہو گا، کوئی خودداری نہیں ہو گی، اس کی بات کو کون اہمیت دے گا؟ یہ المیہ معیشت سے عالمی سیاست اور سپورٹس تک‘ ہر شعبے میں نمایاں ہے۔ کرکٹ کے میدان میں بھارت نے ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ وہ اس کی واضح مثال ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف ملک کے اندر ہمارا رعب‘ دبدبہ اور پروٹوکول دیکھیں۔ سترہویں گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر چھ کروڑ روپے کی گاڑی میں بیٹھ کر سو روپے کلو میں بکنے والے آلوؤں کے ریٹ چیک کر رہا ہوتا ہے۔ بڑے بڑوں کی تو بات ہی الگ ہے‘ بڑی بڑی تنخواہیں بھی لیتے ہیں اور ہمارے ٹیکسوں سے بے تحاشا مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔ عوام کو مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے لیکن مجال ہے کہ اشرافیہ نے اپنی مراعات میں کوئی کمی کی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کوئی اس صورتِ حال پر انگلی اُٹھاتا ہے‘ کئی ایک صورتوں میں اسے حکومتی عتاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو یہ سب کچھ جیسے ایک معمول بن چکا ہے۔ دراصل ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا والے شاید ہماری حرکتیں نہیں دیکھ رہے۔ سب کو سب کچھ معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے۔ بیرونی ممالک ہمارے اندرونی حالات سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے ان کی پالیسیوں میں ہم کہیں نظر نہیں آتے۔ جب تک ہم اپنی روش بدلنے پر آمادہ نہیں ہوں گے، اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا ہی پڑے گا۔ ہماری یہی کمزوریاں ہے کہ بھارت نے کرکٹ کے میدان میں بھی ناروا رویہ اپنا لیا ہے۔ دعا ہے کہ ان حالات میں ہماری قومی کرکٹ ٹیم بھارت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے ورنہ سچی بات یہ ہے کہ وہاں ٹیم پر بہت زیادہ دباؤ ہوگا۔ جو کچھ بھی بھارت کی طرف سے کیا جا رہا ہے‘ اس سے دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔ بہرحال پوری قوم کی دعائیں اپنی قومی ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن صرف دعاؤں سے کام نہیں چل سکتا۔ دعا کے ساتھ دوا اور تدبیر بھی کرنا پڑتی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ تدبیر سے تو جیسے ہم نے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں