"FBC" (space) message & send to 7575

بات بن نہیں رہی

تیر چل رہا ہے نہ تُکا‘ بس وقت اور کچھ حالات و واقعات کی معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پرانے سلسلوں کا ایکشن ری پلے ہی دکھائی دے رہا ہے۔ بھرپورکوششوں کے باوجود بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی یقین دہانیوں کے باوجود زمینی حقائق تبدیل نہیں ہو پا رہے۔ میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے سرکاری مشینری خوب متحرک تھی۔ ان کے کیسز میں بھی اُنہیں ریلیف مل گیا۔ گویا وہ سب کچھ ہو گیا جو کچھ بس میں تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ اِس کے باوجود بات بن نہیں پا رہی۔ مینارِ پاکستان پر جو جلسہ سجایا گیا تھا‘ہم بھی اُس کی کوریج کے لیے تمام دن موقع پر موجود رہے۔ اس دوران بے شمار شرکائے جلسہ سے گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کچھ آف دی ریکارڈ اور کچھ آن دی کیمرہ۔ایسے شرکا بھی ملے جنہوں نے برملا تسلیم کیا کہ وہ کسی کے کہنے یا پھر کسی لالچ میں جلسے میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ متعدد احباب نے اقرار کیا کہ وہ جلسے میں شرکت کے لیے آتو گئے ہیں لیکن ووٹ کسی اور جماعت کو ہی دیں گے۔
جلسے کے دوران دو بہت دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملے ۔ جب رات ہوگئی تو شرکائے جلسہ سے اپنے موبائل فونز کی روشنیاں آن کرنے کو کہا گیا لیکن یقین جانیے کہ معدوے چند افراد کے علاوہ تمام مجمع بے تعلق سا ہوکر بیٹھا رہا۔ اس پر پھر کہا گیا کہ موبائل کی روشنیاں آن کریں‘ فکر نہ کریں آپ کے فون کی بیٹریاں ختم نہیں ہوجائیں گی لیکن اس پر بھی کوئی پُرجوش ردِعمل دکھائی نہ دیا۔ سٹیج اور شرکا کے درمیان واضح طور پر بہت بڑا خلا محسوس ہورہا تھا۔ اس کے بعد جب میاں نواز شریف تقریر کرنے کے لیے آئے تب بھی مجمع کا جوش بہت زیادہ ہائی نہ تھا۔ اسی دوران اُن کے منہ سے ایک سیاسی مخالف کا نام نکل گیا‘ یقین کیجئے کہ جیسے ہی اُن کے منہ سے یہ نام نکلا تو مجمع جیسے یک دم چار ج ہوگیا اور پورے پنڈال میں بھرپور شور بلند ہوا۔ یہ آوازیں بہت کچھ سمجھا رہی تھیں، لیکن اگر کسی نے نہ سمجھنے کا تہیہ کر رکھا ہو تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
وہاں جو حالات دیکھنے میں آئے اُنہیں دیکھ کر ہمیں تو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انتظامی مشینری اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اپنی بھرپور کوششوں کے باوجود واپس آنے والوں کو مطلوبہ پذیرائی نہیں دلا سکی۔گوکہ اس پاور شو کو ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اسے کامیاب کہنا یقینا غلط ہوگا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب طویل عرصے سے اس جلسے کے لیے تیاریاں ہورہی تھیں اور اس میں شرکت کے لیے پورے پاکستان سے لوگ آئے تھے۔ حالانکہ لاہور کو تو مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سے اپنا گڑھ قرار دیتی چلی آئی ہے تو اس شہر میں جلسے کے لیے اسے باہر سے لوگ بلانے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ گزشتہ عام انتخابات میں (ن) لیگ نے لاہور سے قومی اسمبلی کی گیارہ نشستوں پر میدان مارا تھا۔ اگر ان تمام حلقوں کے سابق ایم این اے ہی اپنے اپنے حلقوں سے بیس‘ بیس ہزار لوگ لے آتے تو جلسے کی شرکا کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرجاتی ۔ باہر سے کسی کوآنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ واضح رہے کہ لاہور کے لگ بھگ سبھی حلقوں میں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔علاوہ ازیں پوری انتظامی مشینری بھی جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے سرگرم عمل رہی۔ سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز کی بھرمار ہے جن میں جلسے کے سرکاری منتظمین برملا اس بات کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں ایسا کرنے کے احکامات ملے ان سب کے باوجود اگر (ایک سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق) شرکائے جلسہ کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی تو پھر زمینی حقائق کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔سننے میں آرہا ہے کہ اس صورت حال پر انتظامی مشینری کافی پریشان ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ یہ سب حالات پہلی مرتبہ دیکھے جارہے ہیں۔ پہلے تو ہمیشہ سے ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ جس کے سر پر ہما بیٹھ جاتا تھا تو پھرعوامی سطح پر بھی اسے شرفِ قبولیت مل جاتا تھا لیکن اس مرتبہ حالات قدرے مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔اس کے باوجود کہ لوگوں میں ابھی تک مخالفانہ کارروائیوں کا خوف موجود ہے لیکن آہستہ آہستہ صورتِ حال تبدیل ہورہی ہے۔ عالم یہ ہوچکا کہ پنڈال میں موجود شرکا بغیر خوف کے کھلے عام‘ سب کی موجودگی میں اس بات کا اظہار کرتے دکھائی دیے کہ وہ یہاں آتو گئے ہیں لیکن ان کا ووٹ کسی اور کے لیے ہے۔
یہ ممکن نہیں کہ (ن) لیگ والوںکو صورتحال کا ادارک نہیں ہوپارہا۔یقینا وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے اور حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانے پر بھی کام کررہے ہوں گے ۔ اصل میں مشکل یہ ہے کہ طاقت کا اپنا ایک مائنڈسیٹ ہوتا ہے۔ طاقتور یہ سمجھتا ہے کہ وہ جسے چاہے گا‘ گھما کر رکھ دے گا اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے ایسا ہوتا بھی آیا ہے اور بیشتر صورتوں میں اب بھی یہی ہورہا ہے۔اس تناظر میں سیاسی مخالفین کے خلاف جو انتقامی کارروائیاں کی گئی ہیں‘ان کے باعث عوامی سطح پر غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ پھر سیاسی شخصیات کی بار بار رہائی اور گرفتاری کے عمل نے بھی شدید ہیجان پیدا کیا ہے ۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف ڈیڑھ‘دوسو مقدمات کا درج کرلیا جانا کسی کے حلق سے نیچے اُترا ہی نہیں۔ زیادہ خرابی اس بات سے پیدا ہوئی کہ کچھ عرصہ قبل جس شخص کو بدعنوان قرار دے کر اقتدار سے محروم کیا گیا‘ آج پھر سے نہ صرف اُسے سرآنکھوں پر بٹھا لیا گیا بلکہ دوسروں کو بھی اسے سرآنکھوں پر بٹھانے کے مشورے دیے جا رہے ہیں لیکن کوئی ان مشوروں کو سیریس لیتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ یا تو 2017ء میں اقتدار سے محروم کیا جانا غلط تھا یا پھر اب غلط ہورہا ہے۔ مقدمات میں بھی بھرپور ریلیف مل رہا ہے۔ عوام کی اکثریت سمجھ رہی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ڈیل کے نتیجے میں عمل میں آرہا ہے لیکن اس مرتبہ عوامی سطح پر شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیاہے۔یوں بھی آج ساٹھ‘ ستر کی دہائی تو ہے نہیں کہ کچھ بھی کر گزریں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکے ۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں بھی اگر ہم پچاس‘ ساٹھ سال پرانے دور زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری مرضی۔
بات نہ بننے کے حوالے سے ایک اہم بات بطور وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم حکومت کی بدترین کارکردگی بھی ہے۔ ہرطرف یہ سوال گردش کررہا ہے کہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں شہباز شریف نے ملک کو بدترین مہنگائی کے گرداب میں دھکیل دیا۔ لوگ روٹی کے ایک ایک لقمے کوترس گئے اور بجلی کے بل ادا کرنا اُن کے لیے محال ہوگیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کی سب سے زیادہ توجہ اپنے خلاف قائم مقدمات ختم کرانے پر مرکوز رہی اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون و آئین کے ساتھ جو کھلواڑ ہوتا رہا‘وہ بھی سب کے سامنے ہے۔آج اگر میاں نواز شریف خوشحالی لانے کا دعویٰ کررہے ہیں تو کتنا اچھا ہوتا کہ وہ شہباز شریف کو بھی خوشحالی لانے کے کچھ فارمولے بتا دیتے۔ اب معلوم نہیں کہ وہ ایسا کیا کریں گے کہ جس سے مہنگائی ختم ہو اور ملک خوشحال ہوجائے۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں میاں نواز شریف ملک میں واپس تشریف لاچکے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بن جائیں گے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہو گا۔ یوں بھی جو ملکی حالات ہیں وہ سب کو نظرآرہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ لوگ اب کھل کر بات نہیں کرتے لیکن کون جانتا ہے کہ یہ بند کب تک قائم رہے گا۔ دل اس خدشے کے باعث بھی دھڑک رہا ہے کہ خدانخواستہ کہیں یہ بند ٹوٹنے کی صورت میں آنے والا طوفان بہت کچھ بہا کرہی نہ لے جائے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دیں لیکن ایسا ہوگا نہیں ۔یہاں ذاتی مفادات کاتحفظ ہی اولیت اختیار کرچکا ہے اور خاندانی ایمپائر اور سیاسی سلطنت کی بنیادیں ہلنے کا خوف ہی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں