"FBC" (space) message & send to 7575

نیا سیاسی منظر نامہ

نئے پرنٹوں اور پرانے کرداروں کے ساتھ نیا سیاسی منظرنامہ تیزی سے تشکیل پا رہا ہے۔ کچھ مہرے آگے بڑھ رہے ہیں‘ کچھ کے نیچے سے بساط ہی کھینچ لی گئی ہے اور کچھ فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ رہے عوام تو اُن کی رائے کو پہلے کبھی کوئی اہمیت ملی‘ نہ اب کوئی اہمیت ملنے کی اُمید ہے۔ ہمیشہ کی طرح عوام ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہے ہیں کہ اس مرتبہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا اور ہمارا نیا حکمران کون ہو گا۔ بظاہر تو (ن) لیگ کو اقتدار کے حصول میں اب کوئی رکاؤٹ نظر نہیں آرہی۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہو چکی ہے ۔ پی ٹی آئی مشکلات کا شکار ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں۔ نظامِ انصاف میں پھر سے وہی تیزی دکھائی دے رہی ہے جو میاں نواز شریف کی اقتدار سے محرومی کے وقت دکھائی دی تھی۔ نہ تب پتہ چل رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور نہ اب معلوم پڑ رہا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ بس جو کچھ بھی ہورہا ہے اُس کی رفتار بہت تیز ہے۔ اس تناظر میں یہ بیانیہ بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ اس کے کچھ قرائن تو مینارِ پاکستان پر ان کی تقریر سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ مینارِ پاکستان جلسے میں کتنے لوگ شریک ہوئے اور ان کی تعداد کتنی تھی‘ یہ بحث اپنی جگہ لیکن یہ بات اب کچھ زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ (ن) لیگ مینار ِپاکستان پر کتنے شرکا کو لانے میں کامیاب ہو پائی تھی‘ اہم بات یہ ہے کہ علاج کے لیے صرف چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے والے میاں نواز شریف چار سالوں کے بعد وطن واپس آچکے ہیں۔ لندن میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران انہوں نے دنیا کے متعدد ممالک کے دورے کیے لیکن اپنے وطن وہ تبھی واپس لوٹے ہیں جب لیول پلیئنگ فیلڈ میسر آئی۔ یہ سب کچھ کیے جانے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بالادستی کے نعرے بھی جوش و خروش سے لگ رہے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کے فارمولے پر عمل نہیں ہورہا۔ اس دعوے میں حقیقت کتنی ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
یہ کھیل ہمارے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں کھیلا جارہا ہے بلکہ جو واپس آئے ہیں وہ بھی کئی مرتبہ اس کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہیں اس کھیل کی حدود بھی بخوبی پتا ہیں کہ وہ کہاں تک کھیل سکتے ہیں۔ فی الحال تو شاید نئے آنے والے ان حدود سے تجاوز نہیں کریں گے لیکن اس بات کی بہرحال کوئی ضمانت تو ہرگز نہیں ہے کہ وہ ٹکراؤ سے باز رہیں گے۔ ان کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ جو بات ان کے دماغ میں بیٹھ جائے تو پھر وہ نکلتی نہیں ہے۔ فی الحال تو ان کی کوشش یہ ہے کہ ان پر جو مقدمات قائم ہیں‘ ان سے جان چھڑائی جائے جس کے بعد اقتدار کی سیڑھیاں چڑھی جائیں۔ یہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد سوچا اور دیکھا جائے گا کہ اونٹ کو کس کروٹ بٹھانا ہے۔
مختصراً یوں جان لیجئے کہ پرانے بیانیے پر نئے کھلاڑی تیار ہو چکے ہیں جنہیں ان کی من پسند وکٹ بھی حاصل ہو چکی ہے۔ کچھ معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں جن پر گفت وشنید ہورہی ہے جس میں سب سے اہم صوبہ پنجاب ہے کہ یہ کس کے پاس جائے گا۔ اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ (ن) لیگ ہر قیمت پر پنجاب میں اپنا اقتدار چاہے گی کیونکہ پنجاب کی حکمرانی کے بغیر مرکز میں حکمرانی کا بھی کوئی مزہ نہیں ہوتا۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت کا قائم ہونا اسے مرکز میں بھی بھرپور طاقت فراہم کرے گا۔ یہ تجربہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ جب مرکز میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور پنجاب مسلم لیگ کے پاس تھا تو تب کس طرح سے پنجاب سے مرکز کو دن میں تارے دکھائے جاتے رہے ہیں۔ باقی صوبوں کے حوالے سے معاملات تقریباً طے ہیں۔ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کو صرف سندھ پر ہی اکتفا کرنا ہوگا یا پھر سندھ کیساتھ ساتھ اسے مرکز میں کچھ حصہ مل سکتا ہے۔ بلوچستان کی حکومت انہی روایتی لوگوں کے پاس جانے کا امکان ہے۔ رہی بات کے پی کی تو اس پر کچھ معاملات مزید طے ہونا باقی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہاں مائنس ون فارمولے کے تحت حکومت قائم ہو جائے گی۔ غرضیکہ جو ڈھانچہ 2018ء میں تشکیل پایا تھا‘ اب بھی کم و بیش ویسا ہی ڈھانچہ سامنے آ سکتا ہے البتہ مرکز میں کردار مکمل طور پر تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر نیا تشکیل پانے والا سیاسی ڈھانچہ عوام کی مشکلات میں کمی لا سکے گا یا نہیں فی الحال اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ جب تک تمام مراحل مکمل ہوں گے تب تک معلوم نہیں عوام کی حالت مزید کتنی پتلی ہو چکی ہو گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میاں نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان سوالوں کا جواب دینے میں کامیاب ہو سکیں گے جن کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سوال تو خیر کافی دیر سے سے اُٹھایا جا رہا ہے کہ وہ تو صرف چار ہفتوں کے لیے وطن سے گئے تھے تو پھر چار سال وہاں کیوں گزار دیے؟ یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ لندن میں قیام کے دوران اگر وہ زیرِ علاج تھے تو پھر کس طرح سے مختلف ممالک کے دورے کرتے رہے؟ ڈیل کا تاثر بھی اپنی جگہ مضبوط ہو چکا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے سوالات کی کبھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس کے باوجود بھی ذہنوں میں اُبھرنے والے سوالات کے جوابات نہ ملنے تک بہرحال کھد بد تو ہوتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی توڑ پھوڑ کا جو بھی عمل جاری ہے‘ اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل پا رہے اور یہ بات منصوبہ سازوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
ان حالات میں اگر میاں نواز شریف ان سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہے تو شاید سیاسی میدان میں انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ اچھا ہوتا اگر وہ مینارِ پاکستان پر اپنی تقریر کے دوران کچھ ان نکات پر بھی بات کر لیتے۔ یہ اچھی بات رہی کہ اپنے خطاب میں اُنہوں نے انتقامی سیاست کو دفن کرنے کی بات کی۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہوگی کہ وہ اس بات پر ابھی سے عمل کرنے کا کوئی بھرپور اشارہ دیں۔ یقینا اس سے نہ صرف ان کے دعوے کی تصدیق ہو گی بلکہ عوامی سطح پر بھی اس کا اچھا تاثر جائے گا۔ ورنہ زمینی حقائق اس حد تک تبدیل ہو چکے ہیں کہ شاید یہ کوششیں بھی حسبِ منشا نتائج نہ دلوا سکیں۔ ایک تو مہنگائی کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے جس کے لیے برملا طور پر پی ڈی ایم کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ دوسری طرف ایک جیل میں بند شخص کا یہ بیانیہ پوری طرح سے عوام کی اکثریت کے دلوں میں گھر کر چکا ہے کہ اسے ایک سازش کے تحت اقتدار سے محروم کیا گیا ہے۔ان حالات میں شاید نئے سیاسی ڈھانچے پر مکمل طور پر عمل کرنا ناممکن تو نہیں لیکن شاید انتہائی مشکل ضرور ہوگا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طویل عرصے سے یہ سب کچھ دیکھتے دیکھتے اب عوام بھی بیزار ہو چکے ہیں جسے شاید محض بیانات سے بہلانا اب ممکن نہیں رہا۔ اب تو کسی عام آدمی کے پاس بھی کھڑے ہو جائیں تو وہ بھی منٹوں میں سیاسی صورتحال کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیتا ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ بتاتا ہے کہ یہ حالات کیوں کر پیدا ہوئے اور کس کی وجہ سے پیدا ہوئے اور وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم اپنی سی کرنا چاہیں تو کوئی ہمیں روک تو نہیں سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں