"FBC" (space) message & send to 7575

ملبے کا ڈھیر غزہ اور عالمی بے حسی

یہ تو ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کے اصل اہداف کیا تھے؛ تاہم اِس بابت بہت سی ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ جن کی تصدیق تک اِن پر کھل کر بات کرنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ یہ بات البتہ طے ہے کہ حماس کے اِس حملے میں اسرائیل کا اس قدر جانی نقصان ہوا ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 1948ء سے اب تک تمام جنگیں ملا کر بھی اسرائیل کو اتنا جانی و مالی نقصان برداشت نہیں کرنا پڑا جتنا اس بار حماس کے حملوں کے سبب کرنا پڑا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تاثر کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ ماضی میں تمام عرب‘ اسرائیل جنگوں کے دوران اسرائیل نے جس طرح اپنے ہمسایہ عرب ممالک کا ناطقہ بند کردیا تھا‘ اُس کے پیش نظر کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک عسکری تنظیم اسرائیل کو اتنا زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے جتنا حماس نے اُسے پہنچا دیا ہے۔ 1967ء اور 1973ء کی عرب‘ اسرائیل جنگوں کے دوران اسرائیل نے نہ صرف بیک وقت مصر، شام اور اُردن کو شکست سے دوچار کیا بلکہ اُن کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ تب سے اسرائیل کے بارے میں یہ تصور قائم ہوچکا تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر قوت کا حامل ہے۔ جب حماس نے اُس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور کو پاش پاش کر دیا تو یہ بات طے تھی کہ اتنے بڑے اور منظم حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے شدید ترین ردِعمل سامنے آئے گا، وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب حماس کے پاس نہ تو اسرائیل کی بھرپورفضائی طاقت کا کوئی توڑ ہے اور نہ ہی وہ بڑے زمینی حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اب یہی سب کچھ ہورہا ہے کہ اسرائیل کھل کھیل رہا ہے اور کوئی اُس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ غزہ کا مختصر سا علاقہ جہنم کی صورت اختیار کرچکا ہے جسے اسرائیلی طیاروں نے کارپٹ بمباری کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں سمیت نو ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوچکی ہے جبکہ ہزاروں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور بمباری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایسی وحشیانہ بمباری کہ غزہ میں ہرطرف سے موت برس رہی ہے۔ ایسی ایسی دل دہلا دینے والی وڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ اُنہیں دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوپاتی۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والدین اور والدین اپنے بچوں کی لاشوں کو ہاتھوں میں لیے آہ و بکا کرتے نظر آ رہے ہیں، گویا اُن کے جینے کا مقصد ہی ختم ہوچکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔
قرائن یہی نظرآرہے ہیں کہ اسرائیل نے امریکہ اور اپنے دیگر اتحادیوں کی مدد سے حماس کے مکمل خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ اِس پر عمل درآمد کرکے ہی ٹلے گامگر اسرائیل کے بعض مغربی اتحادی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ البتہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم اُمہ کی خاموشی نے اسرائیل کیلئے غزہ کو ایک تر نوالہ بنا دیا ہے۔ ویسے تو زیادہ خوش فہمی پہلے بھی نہیں تھی کہ کوئی مسلم ملک حماس کی مدد کو آئے گا لیکن بے حسی کا ایسا عالم ہوگا‘ یہ اندازہ تک نہیں تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور بیسیوں ہزار فلسطینی شہید اور عمر بھر کیلئے معذور ہوچکے ہیں لیکن مسلم اُمہ کی طرف سے کوئی مضبوط آواز نہیں اُبھر رہی۔ اگرچہ ایران کی طرف سے بار بار یہ وارننگز دی جارہی ہیں کہ اگر غزہ پر بمباری کا سلسلہ نہ رکا تو وہ کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے گریز نہیں کرے گا لیکن اِن وارننگز کو اسرائیل اوراُس کے حواریوں کی طرف سے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ لبنان کی تنظیم حزب اللہ کی طرف سے بھی ایسی ہی وارننگزدی جارہی ہیں اور اُس کی جانب سے اسرائیل پر کچھ حملے کیے بھی گئے ہیں لیکن اسرائیل جنگ بندی کی طرف نہیں آ رہا۔ یمن کے حوثی باغیوں نے بھی اسرائیل پر چند ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں لیکن یہ سب کچھ بے ثمر رہا کیونکہ اسرائیل کی جارحیت بدستور جاری ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ سمیت چند مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے لیکن محض زبانی مذمت کیونکر اِن حملوں کو روک سکتی ہے۔ دیگر مسلم ممالک کی طرف سے بیشتر صورتوں میں خاموشی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو کون سا خوف اپنی بربریت جاری رکھنے سے روک سکتا ہے؟ وہ بھی ایسی صورت میں کہ اس کے پا س بھرپور عسکری طاقت موجود ہے۔ اسرائیل میں ہرشہری کیلئے نوجوانی میں فوجی خدمات سرانجام دینا لازم ہے۔ اس کے بعد بھی چالیس سال کی عمر تک کسی بھی شخص کو دوبارہ عسکری خدمات کیلئے طلب کیا جا سکتا ہے۔ خطے میں سب سے زیادہ جدید جنگی طیارے اسرائیلی فضائیہ کے پاس ہیں۔ امریکہ کی مدد سے اُس نے اپنی بحریہ کو بھی انتہائی جدید بنیادوں پر استوار کررکھا ہے۔ گویا وہ کسی بھی لحاظ سے خطے کے ان تمام ممالک سے زیادہ طاقتور ہے جو اس سے کئی گنا بڑی پیشہ ورانہ فوج رکھتے ہیں۔ اِیسی صورت میں آئندہ پیش آنے والے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
فلسطینیوں کو ایسے حالات کا سامنا پہلی مرتبہ نہیں کرنا پڑ رہا لیکن اِس مرتبہ صورتحال یکسر مختلف ہے۔ مختلف رپورٹس کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اِس مرتبہ اسرائیل حماس کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے جس کیلئے اُسے امریکہ اور اپنے دیگر یورپی اتحادیوں کی بھرپور حمایت و مدد حاصل ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ حماس کے حملوں کے بعد سب سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اس سے بھرپوراظہارِ یکجہتی کیا۔ اِس کے بعد خود امریکی صدر اسرائیل پہنچ گئے اور وہاں اُنہوں نے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا کہ امریکہ پوری قوت کیساتھ اسرائیل کیساتھ کھڑا ہے۔ اِسی دوران امریکہ نے اپنے دو طیارہ بردار بحری بیڑے بھی خلیجی خطے کے سمندروں میں بھیج دیے تاکہ اسرائیل کو کسی دوسری طاقت کی طرف سے نشانہ بنانے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اِن طیارہ بردار طیاروں کی تعیناتی اِس بات کی عکاس بھی ہے کہ امریکہ اسرائیل کے تحفظ کیلئے کس حد تک جاسکتا ہے۔ امریکی صدر کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم بھی اسرائیل جا پہنچے اور اسے اپنی بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ یہ سلسلہ یہیں پر نہیں تھما بلکہ اس کے بعد فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر بھی اسرائیل جا پہنچے اور اسرائیل کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ ذہن میں رکھیے گا کہ یہ حمایت کی ویسی یقین دہانیاں نہیں ہیں جو مسلم ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کو کرائی جاتی ہیں کہ ہم آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں بلکہ یہ عملی یقین دہانیاں تھیں اور اس کے بعد ان ممالک کی طرف سے اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اپنی ضروریات کی فہرست بنا کر دے تاکہ فوری طور پر اُس کو تمام ضروری چیزیں فراہم کی جا سکیں۔ امریکہ کی طرف سے دو ہزار فوجیوں کے علاوہ اسلحہ بھی تواتر کے ساتھ اسرائیل بھیجا جا رہا ہے۔
یہ حالات ظاہر کررہے ہیں کہ اب خطے کی ساخت ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے کو ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں مستقل طور پر ڈیرے ڈال لے کیونکہ اُس کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اِس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کے کچھ عرصے کے بعد غزہ میں بین الاقوامی افواج تعینات کردی جائیں۔ دراصل اسرائیل حماس کے خطرے کو مستقل بنیادوں پر دور کرنا چاہتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ایسا موقع اُسے دوبارہ نہیں ملے گا کیونکہ اِس مرتبہ اس بنا پر وہ مظلومیت کا ڈھونگ رچا رہا ہے کہ پہل حماس کی طرف سے ہوئی ہے۔دوسری طرف حماس کی طرف سے بھرپورمزاحمت تاحال جاری ہے، لیکن یہ مزاحمت کب تک جاری رہے گی‘ اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا، وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب غزہ کی بری، سمندری اور فضائی ناکہ بندی کی جاچکی ہے۔ ایسی ناکہ بندی کہ وہاں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تک کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ علاقے کے باسی جہاں ایک طرف اپنی جانیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو وہیں دوسری طرف اُنہیں کھانے کے لالے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ افسوسناک ترین امر یہ ہے کہ مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کسی مضبوط آواز کا نہ اُبھرنا اسرائیل کیلئے مزید تقویت کا باعث بن رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں