"FBC" (space) message & send to 7575

سموگ کا روگ

قدرت سے کھلواڑ کا نتیجہ ایسا ہی نکلا کرتا ہے جو اس وقت ہم بھگت رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ گزشتہ کئی سال سے اب یہ روٹین بن چکی ہے کہ اکتوبرتا دسمبر‘ سانس تک لینا محال ہو جاتا ہے۔ سانس لیتے ہیں تو انتہائی مضرِصحت آلودگی کو بھی جسم کے اندر لے جاتے ہیں۔ 2017ء کے بعد سے وہ وقت ہوا ہوچکا جب نومبر میں موسم کی تبدیلی کا عمل شروع ہوتا تھا اور ایک خوشگوار سی کیفیت محسوس ہوتی تھی۔ دن کے اوقات میں قدرے خوشگوار حدت اور رات کے اوقات میں دلفریب خنکی۔ دوست احباب ایک دوسرے سے میل ملاقات اور شادی بیاہ کے لیے اِسی موسم کو منتخب کیا کرتے تھے۔ اچھے موسم میں تقریبات میں شرکت کرنا بھی اچھا محسوس ہوتا ہے۔ باہمی میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی دوسرے مہینوں کی نسبت اس موسم میں قدرے بڑھ جاتا تھا مگر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سموگ کے باعث طبی ماہرین بار بار تلقین کررہے ہیں کہ بلا ضرورت گھروں سے باہر مت نکلیں۔ اگر کسی کام کے لیے گھر سے نکلیں تو ماسک ضرور پہنیں۔ آنکھوں کو بار بار صاف پانی سے دھوئیں تاکہ آنکھوں پر آلودگی کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے لیکن اِس سب کے باوجود ہم اہالیانِ لاہور خصوصی طور پر خاصی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ شہر کا اوسط ایئرکوالٹی انڈیکس چار سو کی سطح سے تجاوز کرچکا ہے اور یہ وہ سطح ہے جسے انتہائی مضرِصحت قرار دیا جاتا ہے لیکن کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ کام کاج کے لیے گھروں سے باہر نکلنا ناگزیر ہے‘ کسی بھی شخص کے لیے باہر نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن اس کا نتیجہ شدید اثرات کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سموگ کی صورتِ حال جو رخ اختیار کرچکی ہے‘ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ اب یہ مستقبل قریب میں بھی ہماری جان نہیں چھوڑنے والی۔ یہ سلسلہ آنے والے کئی سالوں کے دوران اِسی طرح چلتا رہے گا اور ہم دکھاوے کے اقدامات سے خود کو اور قوم کو تسلی دیتے رہیں گے جن کا پہلے کوئی نتیجہ نکلا ہے اور نہ آئندہ کوئی نتیجہ نکلنے کی توقع ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ماحولیاتی مسائل کا حل ہماری ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے۔ ہمارے کرتا دھرتاؤں کو سیاسی جوڑتوڑ سے فرصت ملے تو وہ ایسے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔
اگر لاہور کی بات کریں تو یہ کسی ٹاؤن پلاننگ کے بغیر‘ بے ہنگم طریقے سے پھیل چکا ہے اورمسلسل پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف واہگہ بارڈر سے لے کر کالاشاہ کاکو تک اور دوسری طرف یہ قصور کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ مسلسل وسیع ہوتے اس شہر کو کبھی باغوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن اب یہ کنکریٹ کا ایک جنگل دکھائی دیتا ہے جہاں لاتعداد درخت کاٹے جاچکے ہیں اور مسلسل کاٹے جا رہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی کا سب سے زیادہ اثر موسمیاتی صورتحال پر ہوتا ہے اور لاہو رمیں یہ اثر انتہائی منفی درجے میں ہمارے سامنے ہے۔ جیسے جیسے اِس شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے‘ ویسے ویسے یہاں موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اِس وقت لاہور میں 60 لاکھ سے زائد گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں شاہراہوں پر رواں دواں ہیں۔ اِن سے خارج ہونے والا دھواں اور کاربن مسلسل فضا میں شامل ہو رہا ہے جس کا فضائی آلودگی میں حصہ لگ بھگ پینتا لیس فیصد ہے۔ ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں‘ دوسری طرف شاہراہوں کی ابترصورت حالات کو مسلسل سنگین بنا رہی ہے۔ ماہِ اکتوبر کے اختتامی اور نومبر کے ابتدائی ایام میں حالات اِس لیے زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں کہ ایک تو اِس دوران بارشیں بہت کم ہوتی ہیں، دوم‘ یہی وہ دن ہوتے ہیں جب دھان کی فصل کاٹی جاتی ہے جس کے بعد گندم کی بوائی کیلئے کھیتوں کو تیار کرنے کیلئے کسانوں کے پاس بہت کم وقت بچتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں دھان کی فصل کی باقیات کو تلف کرنے کے لیے جدید مشینری استعمال کی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں اِس قسم کی مشینری کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا کسانوں کے پاس شارٹ کٹ حل یہ ہے کہ وہ دھان کی فصل کی باقیات کو آگ لگا دیں، اس سے بہت زیادہ دھواں فضا میں شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب فضا میں شامل ہونے والا دھواں دھند کے ساتھ ملتا ہے تو یہ سموگ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کے باعث تمام زہریلے اور مضر اجزا فضا کی نچلی سطح پر ڈیرہ جما لیتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانداروں کا بھی امتحان لیتے ہیں۔ دھان کی فصل کی باقیات کو آگ لگانے میں مشرقی (بھارتی) پنجاب کے کسان بھی بھرپور حصہ ڈالتے ہیں اور جب مشرق سے ہوا مغرب کی جانب چلتی ہے تو یہ دھواں لاہور سمیت مغربی پنجاب کی فضاؤں میں بھی پہنچ جاتا ہے۔
اِس کے ساتھ فیکٹریوں اور خشت بھٹوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والا دھواں بھی نہایت منفی کردار ادا کرتا ہے۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ فیکٹریوں اور بھٹوں میں ایسے جدید نظام کی تنصیب کے لیے کوشاں ہے جس سے مضرِصحت دھویں کو فضا میں شامل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کا کہنا ہے کہ اب تک لاہور کی 80 فیصد فیکٹریوں میں یہ نظام نصب کیا جاچکا ہے۔ بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی کی تنصیب کے لیے بھی مسلسل کام ہورہا ہے اور شہر کے گردونواح میں موجود بیشتر بھٹوں میں یہ نظام نصب کیا جاچکا ہے۔ یہاں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہوچکا ہے تو پھر اِس سال سموگ کی شدت گزشتہ برسوں کی نسبت کم ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ امسال لاہور میں اوسط ایئرکوالٹی انڈیکس کا چارسو کی سطح سے تجاوز کرنا ایک نیا عالمی ریکارڈ ہے۔ صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ اِس امر سے لگا لیجئے کہ حکومت کوتعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں چھٹیاں دینا پڑی ہیں تاکہ ایک تو شاہراہوں سے ٹریفک کا دباؤ کم ہواور دوسرا‘ بچوں کو سموگ کے اثرات و نقصانات سے بچایا جاسکے۔ اِن دِنوں ہسپتالوں اور کلینکس پر آنکھوں اور سانس کے امراض میں مبتلا مریضوں کا بے پناہ رش دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایسے افراد کے لیے تو اور بھی مصیبت ہے جو پہلے ہی سے اِن امراض میں مبتلا ہیں۔ طبی ماہرین کی جانب سے حاملہ خواتین اور دل کے امراض میں مبتلا افراد کو بھی خصوصی احتیاط برتنے کی تلقین کی جارہی ہے کیونکہ سموگ کی یہ صورت حال اُن پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اِس روگ سے مستقل بنیادوں پر نجات مل جائے۔ اِس کے لیے سب سے زیادہ نیک نیتی کی ضرورت ہے۔دراصل حکومتی اداروں کی طرف سے صورتحال میں بہتری کے جتنے بھی دعوے کیے جاتے ہیں‘ زمینی حقائق اُن کی نفی کرتے ہیں۔ یہ لاہور میں مومن پورہ انڈسٹریل ایریا اور رنگ روڈ کے مختلف صنعتی یونٹس کی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کہا جا رہاہے۔ اِن میں بے شمار یونٹس ایسے ہیں جہاں آج بھی ٹائر جلائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ متعلقہ اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھار چند یونٹس پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور اِن چھاپوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لیکن چند دنوں کے بعد وہ یونٹس دوبارہ سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ سو‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نیک نیتی کے بغیر کچھ مثبت نہیں ہونے والا ۔ سموگ کے روگ میں کمی کے لیے درختوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بہت ضروری ہے لیکن ہم تو ٹھہرے فطرت دشمن‘ بھلا یہ اُمید کیونکر رکھی جا سکتی ہے کہ ہم درخت لگانے کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ ہم درخت کاٹتے رہیں گے اور نت نئی مصیبتوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ گلی گلی پھیلا کوڑا کرکٹ بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ ہم بیماریوں کو تو قبول کرلیتے ہیں لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف بنانے پرتیار نہیں ہوتے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی۔ ہماری ترجیحات میں سیاست پہلے نمبر پر ہے اور عوامی مسائل بہت نیچے جگہ پاتے ہیں۔ جب تک ترجیحات تبدیل نہیں ہوں گی تب تک کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں۔ صبح سے شام تک صرف سیاست کا کھیل ہی کھیلا جاتا ہے۔ ایسے میں جب عوامی مسائل اُجاگر نہیں ہوں گے تو اِن کے حل کی کیا اُمید رکھی جا سکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں