"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی تو خواب پورا ہو

اچھے وقت کا انتظار کرتے کرتے کئی نسلیں دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں اور کون جانے مزید کتنی نسلیں گزر جائیں‘ یہ خواب دیکھتے ہوئے کہ کاش ملک میں صحیح معنوں میں قانون کی حکمرانی ہو‘ کاش یہاں نظام انصاف ہرکسی کے لیے یکساں ہو۔ یہ نہ ہو کہ کچھ لوگ کوئی گناہ کیے بغیر عمر بھر جیلوں میں چکی پیستے رہیں اور جب اعلیٰ عدالتیں اُن کا کیس سنیں اور اُنہیں بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کرنے کا حکم دیں‘ تب انہیں پھانسی کے پھندے پر جھولے کئی برس بیت چکے ہوں۔ تب عدالت کو بتایا جائے کہ جن ملزموں کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے‘ اُنہیں تو ایک سال قبل پھانسی دی جا چکی ہے۔یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اِن بدقسمت افراد کا نام غلام قادر اور غلام صفدرتھا جوصادق آباد کے رہائشی تھے۔ اِن کے خلاف 2002ء میں قتل کا ایک مقدمہ درج ہوا جس میں سیشن کورٹ نے انہیں سزائے موت سنا دی۔ بعد میں ہائیکورٹ نے بھی ان کی سزا کو برقرار رکھا۔ 2010ء میں اِن دونوں نے اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر سماعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہوتے ہوتے2016 ء آ گیا اور جب سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اُنہیں باعزت بری کرنے کا حکم دیا‘ تب علم ہوا کہ سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیس کے دوران ہی دونوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی۔اب معلوم نہیں کہ اِن کا خون کس کی گردن پر ہوگااور کون روزِ قیامت اِن دونوں کی موت کا جواب دے گا؟ویسے دیکھا جائے تو ہمیں اب اگلے جہان کی جواب دہی کی کوئی پروا سرے ہی سے نہیں رہی۔کہنے کو تو ہم سب اُٹھتے بیٹھتے اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دن مرنا ہے اور پھر اپنے خدا کے حضور جا کر اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے مگر عملاً کیا صورتحال ہے‘ یہ کسی سے ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔
سید رسول کا قصہ بھی سن لیجیے۔ اس کے خلاف 2008ء میں ایک مقدمہ درج ہوا تھا۔ اِس مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ نے اُسے فروری 2017ء میں رہا کرنے کا حکم دیا مگر معلوم ہوا کہ وہ تو 2014ء میں جیل ہی میں انتقال کرچکا ہے۔ بعد ازاں سید رسول کے لواحقین کی طرف سے اُن تمام کاوشوں کا ذکر کیا گیا جو وہ اس کی رہائی کیلئے کرتے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے ہرممکن کوشش کہ سید رسول کی اپیل ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہوجائے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے اور اپیل سماعت کیلئے مقرر ہی نہ ہوسکی۔ جب تک اِس اپیل کی باری آئی‘ سید رسول جیل ہی میں زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا تھا۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سید رسول اور اُس کے لواحقین پر ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد کیا گزری ہو گی۔
لاہور کے نولکھا بازارکے پان فروش جمشید اقبال کی داستان بہت تکلیف دہ ہے۔ 2013ء میں رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی پرمجسٹریٹ نے اسے پانچ روز کے لیے جیل بھیجا تھا مگر جب پانچ دن پورے ہو گئے تو جیل حکا م نے اُسے یہ کہہ کر رہا کرنے سے انکار کردیا کہ پہلے رہائی کا عدالتی حکم نامہ اور روبکار فراہم کی جائے۔ لواحقین نے عدالت میں کیس کیا مگر چھ سال تک اُن کی اپیل پر سماعت ہی نہ ہوسکی۔ خدا خدا کرکے چھ سالوں بعد جمشید اقبال کی اپیل ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے آئی تو عدالت نے قرار دیا کہ جس شق کے تحت جمشید اقبال کو سزا سنائی گئی تھی ‘وہ شق تو آرڈیننس میں موجود ہی نہیں۔جج صاحب کی طرف سے ریمارکس دیے گئے کہ اِس طرح کا انصاف تو پتھر کے دور میں بھی نہیں ہوا ہو گا۔ ایک شہری کے چھ سال ضائع کر دیے گئے‘ اس کا ازالہ کیسے ہو سکے گا؟ معزز جج صاحب کی طرف سے اِس واقعہ کو نظام انصاف پر ایک دھبہ قرار دیا گیا اور کچھ دیگر سخت ریمارکس بھی سامنے آئے۔ یہ تو صرف دیگ کے چند دانے ہیں‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عدالتوں‘ کچہریوں اور تھانوں میں آئے روز ایسے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ہمارے نظامِ انصاف کے بارے میں ہرروز سوالات اُٹھتے ہیں لیکن اِن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اِن سوالات کے جوابات کبھی مل بھی نہیں سکیں گے کیونکہ کسی کو کوئی پروا ہوگی تو ہی وہ صورتحال میں بہتری کے لیے کوئی قدم اُٹھائے گا۔ ہماری عدالتیں دنیا بھر کا نظامِ بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں لیکن عدالتی نظام میں بہتری کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ یہی نظام اشرافیہ کے لیے ہر ممکن سہولت کاری کرتا ہے۔ اِس کی ایک مثال تو ہم حالیہ دنوں میں بھی دیکھ چکے۔ ایک صاحب‘ جو ایک مقدمے میں سزا یافتہ ہیں اور چار ہفتوں کی ضمانت پر بیرونِ ملک علاج کے لیے گئے تھے‘ وہ چار سال بعد اس حالت میں واپس آتے ہیں کہ ملک میں آنے سے پہلے ہی انہیں حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے۔ یہ صاحب وطن واپس آتے ہیں تو بائیومیٹرک تصدیق کے لیے نادرا کا عملہ ایئرپورٹ پر ان کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے۔ اُس کے بعد وہ ایک جلسے سے خطاب کے لیے جاتے ہیں جہاں اعلیٰ حکومتی و ریاستی حکام ان کا استقبال کرتے ہیں۔ دوسری جانب دیگر مقدمات میں بھی انہیں دھڑا دھڑ ضمانتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اُن کی اپیلوں پرگھنٹوں میں فیصلے ہوتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا نظام اُنہیں بچانے کے لیے حرکت میں آگیا ہے۔ وہی عدالتیں‘ جہاں سے اُنہیں چند سال قبل سزائیں سنائی گئی تھیں‘ اب اُنہیں ضمانتیں فراہم کر رہی ہیں۔ کوئی یہ سوال نہیں کر رہا کہ جناب! آپ تو چند ہفتوں کے لیے علاج کرانے بیرونِ ملک گئے تھے‘ عدالت میں ضمانت نامہ بھی جمع کرایا گیا تھا مگر اس کے بعد پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ اس دوران متعدد بار دیگر ملکوں کے سفر کیے‘ پورا یورپ گھوما‘ خلیجی ملکوں کے دورے کیے مگر وطن واپسی تب ہوئی جب آپ کو ضمانت ملنے کا یقین ہو گیا۔ کوئی یہ سوال بھی نہیں پوچھ رہا کہ بیرونِ ملک جو علاج کرایا گیا‘ اُن کی رپورٹس کہاں ہیں۔یہ سوالات اُن سے پوچھے بھی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ جنہوں نے حیلہ سازی کر کے اُنہیں بیرونِ ملک بھجوایا‘ وہی اب اُن کی واپسی کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے۔ حد تو تب ہوئی جب پنجاب کی نگران کابینہ نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے اُن کی سزا معطل کر دی۔ گویا جب حالات بدلے تو پورے کا پورا نظام اُن کے سامنے جھک گیا۔ اعلیٰ افسران اُنہیں سیلوٹ کرتے رہے اور دیکھنے والے ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی تصویر بنے یہ سب دیکھتے رہے۔ بس کچھ ایسا ہی ہے میرا دیس!
اب موصوف آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھرپور طریقے سے سرگرم ہوچکے ہیں۔ دعویٰ تو یہی کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات انتہائی صاف اور شفاف ہوں گے۔مگر یہ خواب تو ہم ہمیشہ سے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ کاش کوئی الیکشن عوامی اُمنگوں کو پورا کرتا نظر آئے لیکن قانون کی بالادستی کے خواب کی طرح یہ بھی ہنوز ایک خواب ہی ہے۔ صاف اور شفاف انتخابات کا دعویٰ تو خوب کیا جا رہا ہے مگر عملی طور پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ ان سے انتخابات سے قبل ہی ان کی شفافیت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ انتخابات سے قبل ہی بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ وزیراعظم کون ہو گا‘ حکومت کس کی بنے گی‘ کون کون حکومت کا حصہ ہو گا۔ مطلب انتخابات سے پہلے ہی نتیجہ سب کو معلوم ہوچکا ہے۔ چوک‘ چوراہوں اور سوشل میڈیا پر ایسے سرویز کی بھر مار دیکھنے کومل رہی ہے جس میں لوگ حمایت تو کسی اور کی کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ الیکشن میں کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔اِن حالات میں صاف اور شفاف انتخابات کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جو عمل ماورائے آئین و قانون ہو‘ اُس کی کیا کریڈیبلٹی رہ جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں ہو رہا ہے‘ اُس کی بابت تو شاید کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ ہرکوئی ان حالات میں ڈرا‘سہما نظرآتا ہے۔ ہرکسی کو انجانا خوف لاحق ہے کہ اگر غلطی سے بھی زبان سے کچھ اُلٹا سیدھانکل گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ اب سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اوراِس کا مقصد کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں