"FBC" (space) message & send to 7575

فیصلہ خود کریں!

بحیثیت صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری نے اپریل 2011ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ اِس ریفرنس پر اِن دنوں سپریم کورٹ میں سماعت کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اورعدالتی کارروائی ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھائی جارہی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے۔ صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں‘ تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا‘ یہ فیصلہ جانبدار تو نہیں تھا؟چوتھے سوال میں عدالتِ عظمیٰ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت شرعی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پیش کیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات موت کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟اب جبکہ اِس ریفرنس پر سماعت شروع ہو چکی ہے توامید ہے کہ عنقریب اِن تمام سوالات کے جوابات سامنے آجائیں گے لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہی کیوں‘ کہ ملک کے ایک سابق وزیراعظم کو دی گئی سزائے موت پر اتنی زیادہ انگلیاں اُٹھنے لگیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ شروع دن سے ہماری سیاسی تاریخ کا ایک متنازع فیصلہ رہا ہے اور اس پر اعتراضات کا سلسلہ سزائے موت سنائے جانے کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا لیکن تب دہشت اور خوف کی فضا میں ہرکوئی زبان کھولنے سے ڈرتا تھا۔برسوں بعد جب جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ اور جسٹس (ر) دراب پٹیل نے بھٹو کی پھانسی کو ''عدالتی قتل‘‘ قرار دیا تو پھر اِس سزا کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں میں شدت آتی چلی گئی۔ بھٹو کی سزائے موت کے حوالے سے لکھی جانے والی لگ بھگ سبھی کتابوں میں واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ یہ تمام کھیل تب کے طاقتوروں کی جانب سے رچایا گیا تھا جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو سزائے موت دے کر ایک آمر کے اقتدار کے راستے کا سب سے بڑا کانٹا نکالا جاسکے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی گئی تو پھر ایک آمر نے پورے جبر کے ساتھ ایک دہائی سے زائد تک اس ملک پر حکومت کی اور اُس وقت تک وہ اقتدار سے علیحدہ نہ ہوا جب تک روح قفسِ عنصری سے پرواز نہ کر گئی۔
قیامِ پاکستان کے بعد چوبیس سال تک ملک میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہی نہیں کیا گیا۔ خدا خدا کرکے 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو اس کے بعد انتخابات کی فاتح جماعت کو اقتدار منتقل کرنے میں حیلے بہانوں سے کام لیا جانے لگا، اس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں برآمد ہوا۔ کبھی موقع ملے تو اِس سانحے پر مرتب کی جانے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کیجئے۔ بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے ملک کے ساتھ ہونے والے اِس کھلواڑ میں کس کا کتنا اور کیا کردار تھا۔ اِس رپورٹ میں کچھ اہم شخصیات کی صاف نشاندہی کی گئی جن کا کردار انتہائی بھیانک رہا لیکن اُن کے خلاف کبھی کسی کارروائی کی نوبت نہ آسکی۔ جن افراد کو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا‘ وہ اِس سانحے کے بعد بھی اپنے عہدوں پر فائز رہے اور کوئی اُن کا بال تک بیکا نہ کرسکا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے مرکزی کردار یحییٰ خان کو اُن کے انتقال کے بعد پورے اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا لیکن ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیے جانے کے تناظر میں ذوالفقار بھٹو کے منفی کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ ایک الگ بحث ہے۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُنہیں ایک ایسے الزام میں سزائے موت سنا دی جاتی کہ جو انتہائی متنازع تھا۔ یہی ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے نوے ہزار جنگی قیدیوں کو بھارت کی قیدسے آزاد کرایا اور ہزاروں مربع میل کا علاقہ واگزار کرایا لیکن ایک آمر کی اقتدار کی ہوس کی خاطر عوامی اُمنگوں کا احترام کیا گیا نہ پھانسی پر چڑھائے جانے والے کی خدمات کو دھیان میں رکھا گیا۔ مطلوب و مقصود صرف اقتدار تھا جسے مستحکم کرنے کے کے لیے ملکی آئین کے ساتھ ایسا بدترین کھلواڑ کیا گیاکہ اِس کی ہیئت ہی بگاڑ دی گئی ۔ یہ آمر بلاشرکت غیرے گیارہ سال تک ملک پر حکومت کرتا رہا اور ملک کو ایک پرائی جنگ کی آگ میں دھکیل کر چلتا بنا۔
دیکھا جائے تو ہماری ملکی سیاسی تاریخ ایسی سیاہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تین بار میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اب دوبارہ انہیں برسر اقتدار لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ جب اُنہیں 1993ء میں پہلی بار وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانا مقصود تھا تو اُن پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔ دوسری مرتبہ اُن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں ملوث کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر آمریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں میاں نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر بعد ازاں اُنہوں نے بیرونِ ملک جانے میں عافیت جانی۔ تیسری مرتبہ جب اُنہیں 2017ء میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹانا مقصود تھا تو اِس کے لیے سب کچھ ہی تلپٹ کرکے رکھ دیا گیا۔ اب عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدموں میں سب حقیقت سامنے آ رہی ہے کہ کیسے اُس وقت ان پر کیسز بنائے گئے اور کیسے انہیں سزائیں سنائی گئیں۔ جس کیس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی اور جس نے دس والیم پر مشتمل اپنی تحقیقات عدالت میں جمع کرائیں، اب اسی جے آئی ٹی کی تحقیقات سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ''فوٹو کاپی ڈاکیومنٹس‘‘ پر انحصار کیا گیا۔ اب اقتدار میں واپسی کے لیے راہیں ہموار ہو رہی ہیں تو اس طرح کہ خود نظامِ عدل بھی حیران ہے۔ ماہرین کی جانب سے تب اُنہیں سزا سنائے جانے پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھیں جبکہ اب انتہائی سرعت سے اُن کے کیسز ختم ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مائنس ون کا فارمولا آج بھی ختم نہیں ہوا ہے مگر اب ایک فرق یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوپا رہا۔ جتنے بھی سرویز اب تک ہوئے ہیں‘ اُن کے نتائج سیاسی جماعتوں کے لیے حیران کن سے زیادہ پریشان کن ہیں۔ کلین سویپ اور دو تہائی اکثریت لینے کا دعویٰ کرنے والی جماعت میں بھی اندر خانے اِس بات کا برملا اظہار کیا جارہا ہے کہ اِن حالات میں اپنی جیت کو کیسے ممکن بنایا جائے گا۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اِس تمام صورتِ حال کے دوران ملکی نظام خود کو کہاں کھڑا پاتا ہے۔اگر سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس میں بھٹوصاحب کو بے گناہ قرار دے دیا جاتا ہے توپھر کیا یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ اُنہیں سزائے موت سنانے والے بھی اُن کے قتل میں ملوث تھے؟ اِسی طرح آج اگر نواز شریف کے خلاف درج مقدمات کو بے بنیاد قرار دے کر ختم کیا جا رہا ہے تو کیا یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ جنہوں نے اُنہیں سزا سنائی تھی‘ وہ سب غلط تھے۔ اسی طرح آج درج ہونے والے مقدمات کے حوالے سے یہ تاثر کیسے دور کیا جائے گا کہ یہ مائنس ون کی ایک نئی جہت ہے اور جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ غلط ہے۔
دیکھا جائے تو زیرِعتاب ہمیشہ سیاستدان ہی آتے ہیں لیکن ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ صاف بچ نکلتے ہیں۔ یہی وہ بلی چوہے کا کھیل ہے جس نے ملکی حالات کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ سیاستدانوں کی ذاتی انتقام کی روش میں آئین و قانون کو موم کی ناک بنانے کے سبب ہی آج ہماری معیشت پاتال سے لگی ہوئی ہے جبکہ دنیا میں کوئی ہماری بات سننے اور ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔ معلوم نہیں کہ میرے ملک کی ایسی قسمت کیوں لکھ دی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں