"FBC" (space) message & send to 7575

ہے کوئی عوام کا پرسانِ حال؟

تیسری دنیا کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں ہمہ وقت عوام کا خون نچوڑنے میں مصروفِ عمل رہتی ہیں۔ حکومتوں کا یہ طرزِ عمل عوام کا جینا تک دوبھر کر دیتا ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات ہمارے ہاں بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ کسی ایک شعبے میں بھی حکومت کی رٹ دکھائی نہیں دے رہی۔ کسی بھی حوالے سے کوئی نادر شاہی حکم جاری کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کی آڑ میں عوام کے جسم سے خون کے آخری قطرے تک کو نچوڑ لیا جاتا ہے۔ حکم جاری کرتے وقت ذرا بھی خیال نہیں کیا جاتا کہ اس کے باعث عام آدمی کی زندگی پر کیا بیتے گی۔ گزشتہ ہفتے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں تین روپے پانچ پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ یہ اضافہ ماہِ اکتوبر کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں کیا گیا۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے عوام کو جس بری طرح سے نچوڑا ہے‘ وہ ناقابلِ یقین داستان ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے دستِ شفقت کے بغیر ممکن نہیں۔ سب سے پہلے‘ حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ ایسے غیر منطقی معاہدے کیے جنہوں نے ملک کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا تھا کہ جہاں سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ ایسی ناقابل یقین شرائط پر معاہدے کیے گئے کہ جن کی شاید ہی دنیا میں کوئی اورنظیر مل سکے۔ آج ہم گردشی قرضوں اور کپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگی کے لیے اپنا خون تک گروی رکھنے پر مجبور ہیں لیکن یہ کم ہونے ہی میں نہیں آ رہے۔ گردشی قرضے سے مراد ہے کہ جب حکومتیں بجلی یا تیل سپلائی کرنے والے اداروں کو بجلی کے عوض معاوضہ ادا نہیں کر پاتیں تو یہ رقم جمع ہوتی رہتی ہے‘ جسے سادہ الفاظ میں گردشی قرضے کہا جاتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں یہ گردشی قرضہ اس وقت 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اب ذرا یہ بھی سمجھ لیں کہ کپیسٹی پیمنٹ کیا ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک پلانٹ اپنی کپیسٹی کو سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار تک بڑھاتا ہے۔ اب حکومت اسے سو میگاواٹ کے حساب سے ادائیگی کی پابند ہے۔ حکومت اگر کسی وجہ سے اُس سے صرف دس میگاواٹ بجلی خریدتی تب بھی اُس پلانٹ کو سو میگاواٹ بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہوگی۔ کسی وجہ سے اُس سے اگر ایک میگاواٹ بجلی بھی نہ خریدے‘ تب بھی قیمت اُسے سو میگاواٹ ہی کی ادا کی جائے گی۔ اِس سے زیادہ ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو بجلی ہم استعمال ہی نہیں کرتے‘ اُس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سارا بوجھ مختلف چارجز اور ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں عوام پر لادا جاتا ہے۔ یہی معاہدے ہیں جن کے بعد ملک میں بربادی کا ایسا سفر شروع ہوا جو ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ ایسے کچھ معاہدے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بھی ہوئے لیکن بیشتر معاہدے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کیے۔
انہی معاہدوں کے باعث آج بجلی کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں اور رہی سہی کسر آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ ترین معاہدے نے پوری کر دی ہے۔ عمومی طور پر ہم آئی ایم ایف کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اصل قصوروار وہ ہیں جو اِس ادارے کے ساتھ ایسے معاہدے کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضہ دینے سے پہلے صرف ایک بات کو یقینی بنایا جاتا ہے، وہ یہ کہ اُس کے قرض کی واپسی کیسے ہو گی۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے حکومتوں کو مختلف تجاویز اور ہدایات دی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں شعبوں کے اخراجات کم کریں‘ فلاں مد میں ٹیکس بڑھائیں مگر ہمارے حکمران ہمیشہ آسان راستہ چنتے ہیں۔ وہ بڑے مگرمچھوں کو پکڑنے کے بجائے ایسے شعبوں پر ٹیکس بڑھا دیتے ہیں جن کی ادائیگی زیادہ ہو‘ جیسے یوٹیلیٹی بلز یا جنرل سیلز ٹیکس۔ نتیجتاً عوام پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور حکمران سارا الزام عالمی اداروں پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ ملک و قوم کو ایسے معاہدوں کے نتیجے میں مسائل کے بدترین گرداب میں پھنسانے والے ایک مرتبہ پھر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے دعووں ے ساتھ اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہے اور عام آدمی کا بھرکس نکل چکا ہے۔ بات بجلی کی ہوئی‘ اِس تناظر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ایک کارگزاری کے بارے میں بھی جان لیجئے۔ نیپرا کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے رواں سال جولائی اور اگست کے دوران بجلی کے بلوں کی مد میں عوام سے زیادہ پیسے وصول کیے۔ نیپرا کی جانب سے کی جانے والی انکوائری رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں آٹھ لاکھ سے زائد صارفین اور ملتان میں 57 لاکھ صارفین سے ایک مہینے سے زائد کی ریڈنگ پر بجلی کے بل وصول کیے گئے۔ گوجرنوالہ میں بھی اگست میں بجلی بلوں میں ایک مہینے سے زیادہ کی ریڈنگ پر بل بھیجے گئے۔ زیادہ بل ادا کرنے والے صارفین کی تعداد 12 لاکھ ہے۔ لاہور میں سات لاکھ صارفین نے جولائی اور اگست میں 30 دنوں سے زیادہ کی ریڈنگ کے بل ادا کیے۔ دیگر تقسیم کار کمپنیوں نے بھی لاکھوں صارفین سے اضافی رقم وصول کی۔
آج بجلی کا بل دیکھیں تو ہوش اُڑ جاتے ہیں کہ بجلی کی اصل قیمت تو ایک طرف‘ اُس پرٹیکسز بھی بے شمار لگائے جا چکے ہیں۔ عوام احتجاج کر کے تھک چکے اور اب تو اُن میں احتجاج کی ہمت بھی نہیں رہی مگر بجلی کی قیمت ہے کہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح آج کل موبائل فون ہر کسی کی ضرورت بن چکا ہے۔ حکومتی اداروں کی ناک کے نیچے کمپنیاں آئے روز موبائل پیکیجز کی قیمت میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ آج سے صرف تین ماہ قبل جو پیکیج سو روپے میں مل جاتا تھا‘ اب اُس کے لیے تین سو پچاس روپے تک ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔ چونکہ صارفین نے موبائل فون بہرطور استعمال کرنا ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ حکومتی اداروں کی ملی بھگت کے بغیر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ آج کے دور میں موٹر سائیکل تقریباً ہرکسی کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ شہر کا حدود اربعہ بہت زیادہ بڑھ جانے کے باعث اب سائیکل کا استعمال ممکن نہیں رہا لیکن موٹر سائیکل کی قیمتیں بے تحاشا بڑھائی جا چکی ہیں۔ ہم صرف ایک مثال لیتے ہیں۔ رواں سال اکتوبر کے دوران ایک ہی مہینے میں بائیکس کی قیمتوں میں دو بار اضافہ کیا گیا جو بیس ہزار روپے تک تھا۔ عذر یہ تراشا گیا کہ چونکہ ڈالر بہت مہنگا ہو چکا ہے لہٰذا قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ قیمتیں بڑھانے کے لیے کس ادارے سے اجازت لی گئی اور اِس کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔
اب اِسی صورت حال کا ایک اور پہلو دیکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے لرنر ڈرائیونگ لائسنس کی فیس یکد م ساٹھ روپے سے بڑھا کر یکم جنوری سے ایک ہزار روپے کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ یکدم لگ بھگ ساڑھے سولہ گنا اضافہ۔ اِس فیصلے کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ پانی اور گیس کے نرخ دیکھ لیں‘ وہ بھی پچھلے چند ماہ میں کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔ اِسی طرح ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کی رقم میں بھی بے تحاشا اضافہ کیا جا چکا ہے اور اب تو نوبت گرفتاریوں تک پہنچ چکی ہے۔ پتا نہیں سب صرف عام آدمی ہی کو سدھارنے پر کیوں لگے ہوئے ہیں؟ معلوم نہیں اُن معاملات پر اِس طرح کا تیز رفتار ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا جن کے باعث کروڑوں شہری ہر روز متاثر ہوتے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عوام کا خون نچوڑ کر اشرافیہ کو مراعات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ایسے ایسے اللے تللے کہ خدا کی پناہ! قانون تو قانون‘ اب تو خدا کا بھی خوف نہیں رہا۔ ریاست نے عوام سے اتنی بے اعتنائی کا مظاہرہ ماضی میں کبھی نہیں کیا تھا جو اِن دنوں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تمام محکموں اور اداروں کی بس ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح عوام سدھر جائیں‘ اگر عام آدمی کو سدھار لیا تو پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اِس کوشش میں عام آدمی کا بھرکس نکل گیا ہے۔ ایک طرف اس کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑا جا رہا ہے اور دوسری طرف اسے کوئی سہولت بھی میسر نہیں۔ لے دے کر صحت کارڈ ایک اچھا منصوبہ تھا مگر وہ بھی بند ہو چکا۔ اگرچہ اس کا بھی کسی حد تک غلط استعمال دیکھنے میں آیا لیکن غریب مریضوں کو ہسپتالوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا مگر آج تو مریضوں کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں