"FBC" (space) message & send to 7575

ایک خوشحال ملک کی داستانِ تباہی

لبنان مشرقِ وسطیٰ میں بحیرۂ روم کے مشرقی کنارے پرواقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ ملک زیادہ تر پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے، اس کے شمال اور مشرق میں شام، جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے۔ یہ خوبصورت ملک اپنے خوشبودار سیبوں، دیودار کے قدیم درختوں اور زیتون کے باغات کے لیے مشہور ہے۔ اس کے جھنڈے پر بھی دیودار کا درخت بنا ہوا ہے جو لبنان کا قومی نشان بھی ہے۔ لبنان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے مگر یہاں مسیحیوں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے۔ 10452 مربع کلومیٹر پر محیط اِس چھوٹے سے ملک کو 1975ء سے پہلے مشرق وسطیٰ کا پیرس یا عرب کا سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا لیکن یہ تب کی بات ہے جب یہاں سیاحت اور سرمایہ کاری اپنے عروج پر تھی۔ ہر طرف خوشحالی تھی اور پوری دنیا سے سیاح بہت بڑی تعداد میں یہاں آیا کرتے تھے۔ آج اِس ملک کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ اِس کی 80 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی کی شرح 171 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے کسی ملک میں ایسا بحران نہیں آیا جیسے بحران کا سامنا اس وقت لبنان کر رہا ہے۔ ہر روز بڑی تعداد میں مظاہرین گھروں سے نکلتے ہیں اور احتجاج کرنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس اُن کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ بیشتر ادارے تباہ ہو چکے ہیں اور اہلِ حکومت کو تہ در تہ بحرانوں سے نکلنے کا کوئی حل نہیں سوجھ رہا۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ حکومت کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم نہیں رہی۔ یہ اُس ملک کا حال ہے جس کا جی ڈی پی ماضی قریب میں ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہوا کرتا تھا۔ آج یہ ملک پوری دنیا کے ماہرینِ معیشت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے کہ آخر اتنا خوشحال ملک اِن حالات کو کیونکر پہنچا۔ کیونکر ایسی نوبت آئی کہ جس ملک میں پوری دنیا سے سیاح بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے‘ آج اُس ملک میں ہر طرف بربادی و تباہی ہی نظر آتی ہے۔ شاید جب کسی ملک کو پے درپے تجربات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے‘ تب وہاں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔
اب تک ماہرینِ معاشیات اور سماجیات کی جانب سے لبنان کو موجودہ حالات تک پہنچانے والے جن عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے اُن میں اشرافیہ کی طرف سے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی ہوس اور نت نئے معاشی تجربات کو سب سے زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ عبرتناک کہانی 1975ء میں شروع ہوتی ہے جب اِس ملک میں ایک خونریز خانہ جنگی شروع ہوئی تھی جس میں کئی گروپ شامل تھے۔ اس کے ہمسایہ ممالک ایران، شام اور اسرائیل لبنان کی اس خانہ جنگی میں اپنے اپنے پسندیدہ گروپوں کو سپورٹ کر رہے تھے اور یہ تمام گروہ اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ پندرہ سال جاری رہنے والی اِس خانہ جنگی میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ لبنانی مارے گئے اور گیارہ لاکھ سے زائد لوگ اپنا وطن چھوڑ گئے۔ پندرہ سال کی جنگ کے بعد متحارب گروپوں کے درمیان طائف میں ایک امن معاہدہ طے پایا جس کی رو سے ہرگروپ کو حکومت میں حصہ بقدر جثہ دیا گیا اور یوں بھان متی کا کنبہ اقتدار کیلئے یکجا ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اِن متحارب گروپوں کے جو لیڈر پندرہ سال سے اپنے ہی ملک کو تباہ و برباد کر رہے تھے‘ نئی حکومت میں وہی سب حصہ دار بنے تھے اور یوں اُن کے وارے نیارے ہو گئے۔ اب اس اتحادی حکومت کے سامنے سب سے بڑا ٹاسک یہ تھا کہ ملک اور معیشت کو کس طرح بحال کیا جائے۔ بالآخر ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے ایک جامع پلان بنایا گیا جس کا ماسٹر مائنڈ ''ریاد سلامے‘‘ نامی ایک شخص تھا جسے ملک کے قومی بینک کا گورنر مقرر کیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ صر ف یہی ایک شخص لبنان کی حالت کا ذمہ دار ہے لیکن مرکزی کردار اِسی شخص کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت میں شامل بیشتر رہنماؤں نے دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت سمیٹی۔ ریاد سلامے کے عالمی مالیاتی اداروں سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ وہ جانتا تھا کہ ملک کی حالت تبھی سدھرے گئی جب عالمی مالیاتی ادارے لبنان کو بڑے بڑے قرض دینا شروع کریں گے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے ریاد نے سب سے پہلے ایک ڈالر کے مقابلے میں لبنانی پاؤنڈ کی قیمت 15سو مقرر کر دی تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ لبنان کی کرنسی بہت مستحکم ہے۔ اِس اقدام کو پوری دنیا میں سراہا گیا اور لبنان کو قرضے ملنا شروع ہو گئے۔
ریاد نے اگلا قدم یہ اُٹھایا کہ اُس نے بینکوں میں جمع رقم پر آٹھ فیصد تک سود فکس کر دیا۔ اِس اقدام کے بھی بہت مثبت نتائج سامنے آئے۔ اوور سیز لبنانیوں نے اپنی رقم لبنان کے بینکوں میں رکھوانا شروع کر دی اور یوں لبنان میں پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ سیاحت بڑھانے کیلئے حکومت نے متعدد مثبت اقدامات کیے اور نتیجتاً سیاحوں کو دوبارہ راغب کرنے میں کامیاب رہی اور سالانہ سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو گیا جو اپنے ساتھ رزمبادلہ بھی لاتے تھے۔ لبنان کیلئے حالات بہتر سے بہتر ہو رہے تھے مگر پھر 2011ء میں عرب سپرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا جس نے پورے خطے کو متاثر کیا۔ ہوا یوں کہ جو ادارے لبنان کو قرضہ اور امداد دے رہے تھے‘ اُنہوں نے عرب سپرنگ سے متاثر ہونے والے ممالک کیلئے امداد بڑھا دی جس کا لبنان پر سخت منفی اثر پڑا۔ اسی دوران لبنان کے پڑوسی ملک شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور پندرہ لاکھ کے قریب شامی مہاجرین لبنان میں آگئے جو اِس ملک کی معیشت پر بہت بھاری بوجھ ثابت ہوئے۔ لبنان کے حالات خراب ہونے لگے تو سرمایہ کار اپنا ہاتھ کھینچنے لگے جس سے لبنان کی معیشت متاثر ہونے لگی۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ریاد سلامے نے جو کیا اُسے بینکنگ سیکٹر کی تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا اور فراڈ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ریاد نے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا کہ گورنمنٹ ٹریژریز خریدنے والے بینکوں کو 14 فیصد اور اُن بینکوں میں پیسہ رکھنے والوں کو سالانہ 15 فیصد منافع ملنے لگا۔ اتنا منافع دنیا کے کسی کاروبار میں نہیں مل رہا۔ مگر لالچ میں آ کر لوگوں نے اپنی زمینیں اور اپنے مکانات تک فروخت کر کے اپنا پیسہ بینکوں میں رکھنا شروع کر دیا۔
بینکوں میں رکھا جانے والا سارا پیسہ مرکزی بینک کو جا رہا تھا اور اُس سے آگے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ رقم کہاں جا رہی ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ اِس رقم کا سب سے زیادہ حصہ ریاد سلامے کی اپنی جیب میں جا رہا تھا۔ 2019ء میں لوگوں کوگڑبڑ محسوس ہونے لگی۔ دھیرے دھیرے بات کھلنے لگی‘ سب لوگوں نے اپنی رقوم نکلوانے کے لیے بینکوں پر دھاوا بول دیا لیکن بینکوں میں پیسہ ہوتا تو اُنہیں واپس ملتا۔ کوئی بھی اپنا پیسہ اپنے اکاؤنٹ سے نہیں نکلوا پایا۔ اِسی دوران لبنانی حکومت نے سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی سوشل میڈیا ایپ 'وٹس ایپ‘ پر ٹیکس عائد کر دیا جس نے لوگوں کا غصہ آسمان پر پہنچا دیا اور پھر پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ بینکوں میں لوگوں کے کروڑوں روپے پڑے تھے لیکن اُن کی جیبوں میں ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔ محض ایک مہینے کے عرصے میں لبنانی کرنسی کی قیمت 6 ہزار فیصد تک گر گئی اور لوگوں کے لیے روٹی تک خریدنا مشکل ہو گیا۔ تب سے اب تک لبنانی بدترین بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب ایک طرف عوام کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ریاد سلامے سمیت متعدد لیڈران دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر بیرونی ممالک منتقل کر چکے ہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک کے مہنگے ترین علاقوں میں بڑی بڑی جائیدادیں خرید کر آج وہ سب عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کو اِس حالت تک پہنچانے والے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے کے بعد اب بھی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے اور خود کو معصوم ثابت کر رہے ہیں۔ اِن میں سے اکثر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگر اُنہیں دوبارہ موقع ملے تو وہ ملک کو صحیح ڈگر پر لے آئیں گے۔ معلوم نہیں کہ لبنان کے عوام اب کیا فیصلہ کرتے ہیں لیکن فی الحال تو وہ اِسی صدمے سے باہر نہیں نکل سکے کہ اُن کے ساتھ تاریخ کا اتنا بڑا دھوکا کیسے ہو گیا۔ ویسے اگر اُن کو جواب مل بھی جائے تو اب کیا کیا جا سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں