صدارتی نظام؟

ملک میں جاری صدارتی اور پارلیمانی نظام کی بحث‘ جو دراصل سوشل میڈیا سے شروع ہوئی‘ اس وقت قومی سطح کی ایک بحث میں تبدیل ہو چکی ہے۔ملکی تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ بحث نئی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد پہلی ملکی دستور ساز اسمبلی میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاًاس موضوع پر ملکی ذرائع ابلاغ اور اہلِ سیاست اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جب 1973 کا دستور تشکیل پا رہا تھا‘ اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی بعد میں اپنی سوانح عمری میں اور مختلف مواقع پر دیے گئے انٹرویوز میں یہ کہتے سنے گئے کہ بھٹو صاحب ذاتی طور پر صدارتی نظام کے حق میں تھے مگر چونکہ ان کی جماعت میں پارلیمانی نظام پر اتفاقِ رائے پایا جاتا تھا لہٰذا بھٹو صاحب نے اپنی خواہش کو دبا لیا اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی نظام حکومت پر اتفاقِ رائے کو سپورٹ کیا۔ اس کے بعد صدر ضیا ء الحق کے دور میں 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے اور بعد میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے پاکستان میں ایک نیم صدارتی نظام کا تجربہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح پرویز مشرف نے سترہویں ترمیم کے بعد ملک کو عملاً صدارتی نظام کے تحت چلانے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ مذکورہ دونوں حکومتوں میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
اس سے قبل کہ اس بحث کی ٹائمنگ پر بات کی جائے‘ بہتر ہوگا کہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے صدارتی اور پارلیمانی نظام کی ہیئت اور خوبیوں‘ خامیوں کو اجاگر کیا جائے۔ دنیا میں مختلف سیاسی نظام آزمائے جا چکے ہیں اور اس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام مثالی نہیں ہے‘ ہر نظام کی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں اور تمام ممالک اپنے اپنے مطابق‘ اس نظام کو اپنائے ہوئے ہیں جن کے بارے میں ان کا گمان ہے کہ اس نظام کی خوبیاں اس کی خامیوں پر حاوی ہیں جبکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی یہی نظام بہتر ہے۔ البتہ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کو اب تک آزمائے گئے سبھی نظاموں میں ایک بہتر طرزِ حکومت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ جمہوری نظام بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہے‘ مگر اس کی خوبیوں اس کی خامیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس وقت دنیا میں صدارتی اور پارلیمانی نظام اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ مختلف ممالک میں رائج ہیں۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام از خود ملکی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ایک طریقہ تجویز کرتا ہے جسے اختیارکر کے ملک بہتر طرزِ حکمرانی کی طرف جاتا ہے۔ ماضی میں ہمارے ہاں متعدد بار صدارتی نظام کا تجربہ ہو چکا ہے۔ صدر ایوب خان نے 1962ء میں جو آئین نافذ کیا‘ وہ صدارتی تھا۔ یہ 1962ء سے 1969ء تک ملک میں نافذ العمل رہا۔ اگرچہ اس دوران ملک میں تیز تر معاشی ترقی دیکھی گئی؛ تاہم اس تجربے کی بعد میں وفاق اور ملکی سالمیت کو بھاری قیمت چکانا پڑی تھی۔ دیکھا جائے تو صدارتی نظام اور آمریت میں بہت معمولی فرق ہے کیونکہ صدارتی نظام میں بھی آمریت کی طرح اختیارات کی مرکزیت کے شدید رجحانات پائے جاتے ہیں اور اس بات کا کافی خدشہ موجود ہوتاہے کہ ادارہ جاتی نظام مضبوط نہ ہو اور سیاسی و جمہوری قدریں کمزور ہو ں تو ملک کسی بڑے سیاسی بحران سے دوچار ہو سکتاہے۔
جہاں تک موجودہ بحث کی ٹائمنگ کا تعلق ہے تو اس کا جواب یوں دیاجاسکتاہے کہ اس وقت حکومت کو درپیش بڑے مسائل میں مہنگائی‘ بے روزگاری، امن و امان کے مسائل اور اپوزیشن کے ایک وسیع تر اتحاد کے چیلنجز نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور پنجاب کے متوقع بلدیاتی انتخابات وہ ایشوز ہیں جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں جب مذکورہ مسائل کا فوری حل حکومت کے پاس نہیں ہے اور حکومتی کارکردگی اور اہلیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘ ایسے میں اس بحث کا آغاز اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ ملک اس وقت متعدد مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ مہنگائی کا گراف بلند تر ہو رہا ہے‘ بیروزگاری کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے‘ گیس کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے مگر تمام ٹی وی چینلز‘ اخبارات اور سوشل میڈیا پر یہی موضوع زیرِ بحث ہے کہ ملک میں کون سا سیاسی نظام ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے پولیٹیکل سائنس کی ایک ٹرم Diversionist Strategy حکومت کی ترجیح معلوم ہوتی ہے‘ یعنی اصل ایشو سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے اور نان ایشوز کی طرف مبذول کرائی جائے۔ اس بحث کا آغاز سوائے حکومت کو سیاسی چیلنجز اور دباؤ سے وقتی طور پر آزاد کرنے کی کوشش کے اور کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آئینی و قانونی اعتبار سے ملک میں صدارتی نظام رائج ہو سکتا ہے‘ تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔ ایک سادہ آئینی ترمیم یا ریفرنڈم سے‘ جو ہر دو صورتوں میں پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہوگا‘ صدارتی نظام کا نفاذ ممکن ہے۔ البتہ اصل بات اس کے نفاذکے بعد کی صورتِ حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک ان حالات سے‘ جو اس کے بعد ممکنہ طور پر پیدا ہوں گے‘ نبردآزما ہو سکتا ہے؟ پاکستان میں نسل،زبان اور علاقائیت کی بنیاد پر آبادی کے کئی گروہ موجود ہیں جنہیں قومی دھارے میں رکھنے کے لیے پارلیمانی نظام زیادہ موزوں ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پارلیمانی نظام ہماری مقامی سیاسی روایت کی پیداوار نہیں‘ یہ نظام انگریز کی وراثت سے ہمیں ملا ہے؛ تاہم اس نظام سے تاریخی وابستگی اور اس میں موجود طریقہ کار سے واقفیت مختلف گروہوں کو طاقت کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے قانون سازی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات کے استعمال کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ دوسری طرف صدارتی نظام مرکزیت کے رجحانات کے باعث پاکستان کے سیاسی کلچر اور سیاسی حقیقتوں کا آئینہ دار نہیں ہو سکتا۔ 1973ء کا آئین تمام سیاسی جماعتوں کے لیے متفقہ دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ملکی وحدت کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا۔اگرچہ کوئی بھی سیاسی نظام تمام زمانوں کے لیے نہیں ہوتا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے؛ تاہم یہ تبدیلی ایک سیاسی اتفاقِ رائے اور سیاسی عمل کے اندر رہتے ہوئے آنی چاہیے۔ موجودہ حالات میں نظام کی تبدیلی کی بحث محض گورننس کے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ جمہوری نظام جس کم از کم اتفاقِ رائے کی بنیاد پر چلا کرتے ہیں‘ ہماری سیاسی اشرافیہ اسے حاصل کرنے میں ناکام معلوم ہوتی ہے، اسی لیے طرزِ حکمرانی میں بہتری لانے اور سیاسی بلوغت کو فروغ دینے کے بجائے نظام کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بحث کا مقصد قوم کے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ یہی توجہ ملکی مسائل کے حل پر دی جانی چاہیے۔ معیشت، سلامتی‘ صحت اور تعلیم کی سہولتیں اور معاشرتی استحکام کا حصول وہ ایجنڈے ہیں جن کو مکمل کر کے ہی پاکستان کو 21 ویں صدی کی ایک کامیاب ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال ایک مضبوط ملکی معیشت اور اندرونی سیاسی استحکام کی متقاضی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں