’’پرانی واردات‘‘

تیسری دنیا کے اندر پالیسی بیانات اور ملکی و خارجہ پالیسی کے اہم اعلانات ضروری نہیں کہ متعلقہ فورمز پر کیے جائیں‘ بلکہ لیڈرز ایسے اہم اشاروں اور اعلانات کے لیے جلسوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچانک پریس کانفرنسیں بلا لی جاتی ہیں۔ مقصد ایک ہی ہوتا ہے، کچھ اہم اشارے اور پیغامات دینا۔
وزیر اعظم پاکستان نے اتوار کے روز میلسی کے جلسے میں ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم باتیں کیں۔ ہونا تو یہ چاہتے تھا کہ اس قسم کی گفتگو پارلیمنٹ کے اندر کی جاتی‘ کیونکہ نہ صرف وہی فورم متعلقہ ہے بلکہ وہاں کھڑے ہو کر کی گئی گفتگو کی اہمیت زیادہ ہے اور ملکی اور غیر ملکی حلقے وہاں ہونے والی تقاریر، بالخصوص قائد ایوان کی، کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں؛ تاہم انتخابِ مقام اگرچہ بہت غیر روایتی تھا لیکن باتیں بہت اہم کہہ دی گئیں۔
چند روز پہلے تک ملکی سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال تھا کہ عدم اعتماد ایک سنجیدہ بات نہیں ہے۔ اس کا مقصد حکومت پر محض دبائو بڑھانا ہے۔ ایک رائے یہ بھی تھی کہ آئندہ انتخابات کی تیاری ہورہی ہے کیونکہ سیاسی درجہ حرارت کو بڑھا کر میڈیا کی توجہ حاصل ہو گی اور اس طرح اپوزیشن‘ جو پچھلے ساڑھے تین سالوں سے کوئی قابل ذکر چیلنج عمران خان حکومت کو نہیں دے پائی تھی‘ مہنگائی کے ایشو کو بنیاد بنا کر عوام کے ذہنوں میں موجود رہے گی اور یوں اگلے الیکشن تک بطور ایک متبادل کے اپنی سیاست کو آگے بڑھائے گی۔
ویسے تو پاکستان کی سیاست کے بارے میں ایک لمبے عرصے کے لیے پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کئی سیاسی پنڈت اور سیاسی پیش گوئیاں کرنے والے نجومی اکثر تاریخیں دیتے رہتے ہیں۔ بالخصوص اکتوبر اور مارچ کے مہینوں کا ذکر ہماری سیاسی تاریخ میں تواتر سے ملتا ہے‘ لہٰذا اس بار بھی جب مارچ کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ مہینہ اہم ہو گا تو خیال یہی تھا کہ یہ بھی باقی مہینوں کی طرح گزر جائے گا‘ لیکن اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ایک سنجیدہ عمل بنتا دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک کامیابی کی صورت میں بعد ازاں کس طرح ملکی نظام چلے گا؟ پالیسی ترجیحات کیا ہوں گی؟ جن مسائل کو بنیاد بنا کر موجود حکومت کو ختم کرنے کی بات ہو رہی ہے‘ ان کا ممکنہ حل کیا ہو گا؟ اور سب سے اہم چیز یہ کہ اپوزیشن کامیابی کی صورت میں اگلے انتخابات تک کیا لائحہ عمل اپنائے گی؟ ان سب سوالات کے کوئی واضح جوابات موجود نہیں ہیں‘ اس سب کے باوجود تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کر دی گئی ہے۔
تحریک کی کامیابی اور ناکامی کی صورت میں آئندہ کا ملکی سیاسی منظرنامہ کیا ہو گا؟ اسے ایک لمحے کے لیے اگر چھوڑ دیا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ پہلے ہی ساڑھے تین سال اس حکومت کو ہو چکے ہیں‘ بقیہ ڈیڑھ سال میں عدم اعتماد کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ اپوزیشن یہ کیوں نہیں سوچ رہی کہ خان صاحب کو وقت سے پہلے گھر بھیجا گیا تو وہ عوام میں جا کر سیاسی شہید ہونے کے دعویدار بن سکتے ہیں۔ ان کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی پس منظر میں جا سکتی ہے اور عوام ہمدردی کی بنیاد پر ان کے اس موقف کو قبول کر لیں گے کہ اگر انہیں پوری مدت مل جاتی تو شاید بہتر نتائج دے پاتے۔ یہ سب ہمارے ملک میں ہوتا آ رہا ہے‘ پھر بھی اپوزیشن بضد رہی اور تحریک پیش کر دی گئی۔
اس سب سوالوں کا جواب تلاش کرنا بہت اہم ہے۔ وزیر اعظم کی میلسی میں تقریر کو بنیاد بنایا جائے تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ سیاسی درجہ حرارت میں تیزی کے پیچھے کچھ بیرونی عوامل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے‘ وطنِ عزیز میں ماضی میں بھی جب کبھی بڑی احتجاجی تحریکیں چلیں تو ان کے پیچھے کچھ بیرونی عوامل کارفرما نظر آئے۔
1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے چند سرخیل‘ جو اب اس دنیا میں نہیں‘ وہ اپنی خود نوشت سوانح عمری اور کئی انٹرویوز میں بعد ازاں یہ کہتے پائے گئے کہ انہیں تحریک کے بعد معلوم ہوا کہ بیرونی ہاتھ کارفرما تھا۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے اس دعوے کی سچائی کیا ہے کہ 'دوران تحریک انہیں معلوم نہ تھا‘ یہ ایک کھلا اعتراف بھی تو ہے کہ بیرونی عوامل پاکستانی سیاست کو Micro-manage کرنے چلے آتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا راولپنڈی کے مشہور بازار میں اچانک نمودار ہونا اور اوپن جیپ میں کھڑے ہو کر اپنے خلاف بیرونی سازش کو بے نقاب کرنا۔ اس کے علاوہ ان کی 1977ء میں ہی قومی اسمبلی کے اندر ایک جذباتی اور شعلہ بیان تقریر بھی اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ ہماری سیاست آزاد نہیں ہے۔
پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں کہا جاتا ہے کہ ملک بہت حوالوں سے تبدیل ہو چکا ہے۔ نوجوان نسل کی سیاسی یادداشت چونکہ بہت پرانی نہیں‘ اس لیے وہ نئی سیاست کی بنیاد چاہتی ہے۔ سوشل میڈیا کو ایک مضبوط اور طاقت ور انسٹرومنٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو معاشرتی تبدیلی کا بڑا محرک بتلایا جاتا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میثاق جمہوریت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری سیاسیہ بالغ ہو چکی ہے۔ ملک کے اندر سول سوسائٹی پھیل رہی ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پا رہا ہے جس کے نتیجے میں آئین کی بالا دستی کے اصول کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکے گا۔ خطے کی جیو پولیٹیکل صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اندرون خانہ سیاسی استحکام نظر آئے‘ لیکن اگر اس کے باوجود بھی ہماری سیاسی قوتیں اور مقتدرہ قوتیں ملک کے اندر بڑی سیاسی تبدیلی کسی بیرونی دبائو میں آ کر لانا چاہتی ہیں تو پھر اس سے بڑی نا امیدی اس ملک کے عوام کے لیے اور ہو کوئی نہیں سکتی۔
اگرچہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اور نمبرز گیم کی بنیاد پر حکومت تبدیل کرنا نہ صرف ایک آئینی آپشن ہے بلکہ عین جمہوری بھی ہے؛ تاہم اس عمل کو پورا کرنے کے لیے کسی بیرونی طاقت کے اشاروں چلنا قابل مذمت بات ہے۔
دوسری طرف تحریک کی کامیابی کے لیے اگر تو حکومتی اتحادی اسے چھوڑ دیتے ہیں اور اپوزیشن کے ساتھ مل جاتے ہیں تو وہ بھی عین سیاسی اور جمہوری بات ہو گی؛ تاہم اگر اپوزیشن کا انحصار حکومتی ٹکٹ پر منتخب اراکین کو خریدنا یا چند ترغیبات دے کر ان کی وفاداریاں تبدیل کروانا ہے تو پھر یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب تصور ہو گا۔ ایسی صورت میں ملکی سیاست آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیلی جائے گی‘ اور ہمارے بارے میں ایک رائے جو پہلے سے موجود ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے وہ ایک بار پھر سچ ثابت ہوتی نظر آئے گی۔
جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس میں مستقل حکمرانی نہیں ہوتی، برسرِ اقتدار رہ کر اور اپوزیشن کے طور پر‘ دونوں پوزیشنز پر آپ کو کھیلنا پڑتا ہے‘ لہٰذا حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے؛ تاہم اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کھیل کے اصولوں کے مطابق ہو کیونکہ بے اصولی پھر کسی دوسرے کی باری بھی ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں