2024 عدلیہ کے احکامات، اختیارات اور تنازعات کے حوالے سے اہم سال رہا
اسلام آباد: (حسیب ملک) سال 2024 پاکستان میں عدلیہ کے احکامات، اختیارات اور تنازعات کے حوالے سے ایک اہم سال رہے۔
سال 2024 شروع ہوا تو قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس تھے، انہیں رکے ہوئے عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا چیلنج درپیش تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت سےعام انتخابات کیلئے 8 فروری کا قرعہ تو گزشتہ برس دسمبر میں ہی نکل چکا تھا مگر اس پر عملدرآمد بھی عدالت ہی نے یقینی بنایا۔
اسی دوران پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کا فیصلہ بھی آیا اور یہیں سے ایک تنازع حل ہوا تو دوسرے کی بنیاد پڑی، وہ بھی کچھ ایسے کہ سال کا بیشتر حصہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تناؤ ہی نظر آیا۔
عام انتخابات ہونے کے بعد بظاہر سب معمول پر آچکا تھا، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کو غیر شفاف قرار دیا،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرادیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دینے اور نیب ترامیم کی بحالی سے پارلیمنٹ کے اختیارات تسلیم کرنے جیسے فیصلے آرہے تھے مگر پھر مخصوص نشستوں کا تنازع سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
طویل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے درمیان کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ریلیف پاکستان تحریک انصاف کو دے دیا، حکومت نے اس فیصلے کیخلاف واضح پوزیشن لی اور یہیں سے نئی آئینی ترمیم کا خیال پیدا ہوا۔
اس صورتحال میں پہلے ججز کی مدت ملازت بڑھانے کی بات چلی اور پھر الگ آئینی عدالت کی، ترمیم کی جو آخری شکل 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں نکلی اس نے چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار بدل دیا گیا اور آئینی بنچ بنا کر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے اختیارات محدود کر دیئے گئے۔
26 ترمیم کے نتیجے میں سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے رخصت ہونے پر چیف جسٹس پاکستان بن گئے اور انہوں نے آتے ہی کہا کہ اختیارات میں توازن کے اصول پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جیل ریفارمز سمیت مختلف اصلاحات شروع کیں مگر 26 ترمیم کا تنازع حل ہونا باقی ہے، سینئر جج اب بھی خط لکھ رہے ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کا مستقبل کیا ہو گا یہ آنیوالا وقت ہی بتائے لیکن اس حوالےسے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کیس نئے سال کے دوسرے ہفتے کیلئے مقرر کررکھا ہے۔