آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے تیار ویڈیوز اور تصاویر کی شناخت کرنا آسان
نیویارک: (ویب ڈیسک) آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) یا مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہی ہیں جنہیں مختلف منفی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایسی کئی تصاویر اور ویڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہوئی ہیں، ان جعلی تصاویر اور ویڈیوز کو کیسے پہچانا جائے؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
مضمون میں چند ایسی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جن پر عمل کر کے آپ بآسانی ایسی مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور ویڈیوز کا حقیقی تصاویر سے موازنہ کر کے فرق محسوس کرسکتے ہیں۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسی تصویر خصوصاً انسانی تصویر میں اس کے ہاتھ کی انگلیوں کو زوم کر کے غور سے دیکھیں کہ کہیں انگلیوں کی تعداد زیادہ یا کم تو نہیں اس کے علاوہ چہرے کے اعضاء کی بناوٹ میں کوئی جھول یا لچک تو نظر نہیں آرہا۔
لیٹنٹ اسپیس ایڈوائزری کے بانی اور جنریٹو اے آئی کے سرکردہ ماہر ہینری ایجڈر نے بتایا کہ تصویر میں شخص کے سائے اور روشنیوں میں ہم آہنگی کو بھی مد نظر رکھیں، اکثر تصاویر میں نظر آنے والا شخص واضح فوکس میں ہوتا ہے اور کافی حد تک اصلی دکھائی دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ویڈیو کو دیکھتے ہوئے اس بات پر گہری نگاہ رکھیں کہ اس میں موجود افراد کی آنکھوں کی حرکات و سکنات اور خصوصاً پلک جھپکنا کہیں غیر فطری تو نہیں کیونکہ اس طرح کی اے آئی ویڈیوز میں عموماً چہرے اور جلد پر ایک عجیب و غریب سی چمک نمایاں ہوتی ہے، اسی طرح عینک کے غیرمتوازن لینس کو بھی دیکھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اے آئی سے تیار کردہ تصاویر میں تضادات دکھنا کوئی نئی بات نہیں ہے، ہاتھ بہت چھوٹے یا انگلیاں بہت لمبی ہو سکتی ہیں یا سر اور پاؤں باقی جسم سے میل نہیں کھاتے۔
گزشتہ دنوں وائرل ہونے والی ایک جعلی تصویر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی گرفتاری یا جنرل موٹرز کی سی ای او میری بارا اور ایلون مسک کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، یہ کئی مثالوں میں سے فقط دو ہیں، انٹرنیٹ پر ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، تصویر میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی جعلی تصویر ہے۔
کسی تصویر کا پس منظر اکثر یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ آیا اس میں ہیرا پھیری کی گئی ہے یا نہیں، کچھ کیسز میں اے آئی پروگرامز لوگوں اور اشیاء کو دو بار استعمال کرتے ہیں اس لئے اے آئی سے بنی تصاویر کا پس منظر دھندلا ہو سکتا ہے۔
اے آئی کی مدد سے بنائی گئی صرف لوگوں کی تصاویر ہی غلط فہمی کا باعث نہیں بنتیں بلکہ ایسے واقعات اور حادثات کی تصاویر بھی سامنے آئے ہیں جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئے۔