تعصب و عصبیت، معاشرتی عدم استحکام کے بڑے اسباب
سماجی اعتبار سے عصبیت کے ظہور سے سیاسی عدم استحکام اور فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے، اے لوگو! ’’ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہارے خاندان اور قومیں بنائیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ‘‘ (الحجرات:13)
نبی کریمﷺکی بعثت سے قبل اہل عرب کا معاشرتی نظام جہاں فکری، اخلاقی اور سماجی خرابیوں کا شکار تھا وہاں سماجی طور پر ایک بڑی قبیح فکر یہ بھی تھی کہ ان کی اکثریت خاندانی، قبائلی اور جغرافیائی طور پر عصبیت کا شکار تھی۔ ان عصبیتوں نے ان کو کئی طرح کے تفاخر میں مبتلا کر رکھا تھا۔ حضور اکرمﷺ نے اپنی نبو ی حکمت عملی سے جہاں دیگر فکری و سماجی خرابیوں کا تدارک کیا وہاں نسلی منفی و قبائلی عصبیتوں کے حوالے سے بھی کامل رہنمائی عطا کی۔ زیر نظر مضمون میں آپﷺ کی جانب سے عصبیت کے خاتمے میں کردار اوراپنی امت کو دی جانے والی تعلیمات پیش کی جارہی ہیں۔
عصبیت کی تعریف کرتے ہوئے امام فراہدی لکھتے ہیں : ’’اَلعَصَبیَّۃْ: اپنے لوگوں یا ہم مذہب لوگوں کی حمایت و مدد کا جذبہ تعصب کہلاتا ہے۔ اسی طرح العصبی کہتے ہیں ظلم کے خلاف اپنی جماعت کا مددگار‘‘۔ (فراہدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، من منشورات دارالہجرۃ، ایران، ص: 310)
ابن منظور افریقی تعصب کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’تعصب : پٹی باندھنا، عصبیت سے کام لینا عصبیت دکھلانا، دلیل ظاہر ہونے کے بعد بھی حق کو قبول نہ کرنا۔
مذکورہ بالا تعریف سے واضح ہوا کہ تعصب جانبداری کا نام ہے اور عصبیت یعنی گروہ بندی کو فروغ دینا ہے اور اس رویہ سے تعصب کی سوچ راسخ ہوتی ہے لیکن تعصب کی ایک جہت مثبت بھی ہے جس کا تعلق دینی حمیت و غیرت کے ساتھ ہے اور اس فکر کے معاشرے پر اثرات خیر کی ہی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ایسے ہی معاشرہ کی بنیاد رکھی جس میں ہر انسان کو بلا تفریقِ مذہب و قبیلہ اس کے حسبِ حال حقوق حاصل تھے۔ اس معاشرہ میں حقوق کی ادائیگی میں کبھی بھی مذہب، قبیلہ، خاندان، علاقہ، حسب نسب، رکاوٹ نہیں بنا۔ ہر طرح کے تعصب و عصبیت سے پاک معاشرہ معرض وجود میں آیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ’’اے لوگو! ہم نے پیدا کیا ہے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے اور بنا دیا ہے تمہیں مختلف قومیں اور مختلف خاندان تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو پرہیزگار ہے۔ بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (الحجرات:13)
خاندانوں اور قبیلوں میں انسانوں کا تقسیم ہونا کائنات کے تنوع کا ایک رنگ بھی ہے اور انسانی شناخت کی وجہ بھی لیکن قوم، خاندان قبیلہ وغیرہ کی تقسیم سے ان کے اعلیٰ و ادنی، برتر و کم تر ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس وجہ سے ان کے حقوق کا تعین کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی خاندان یا قبیلہ اپنی نسل و قومیت کی بنا پر برتری کا اظہار کر سکتا ہے:
تعصب کا ہر جہت سے نبی کریم ﷺ نے مختلف طریقوں سے سد باب فرمایا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے تعصبات پر مبنی رویوں کے خاتمے کیلئے اُسوۂ حسنہ میں تین جہات نظر آتے ہیں جودرج ذیل ہیں:1۔سماجی تعصبات کا خاتمہ،2۔قبائلی تعصبات کا خاتمہ، 3۔نسلی وعلاقائی تعصبات کا خاتمہ۔
سماجی تعصبات کا خاتمہ
مدینہ منورہ آمد کے بعد نبی کریم ﷺ کا اہل ایمان کے مابین رشتہ مواخات قائم کرنا سماجی تعصبات کے خاتمے کا اعلان تھا۔ مہاجرین و انصار میں مختلف خاندانوں کے مختلف حیثیتوں کے لوگ تھے لیکن اب ان سب کو شناخت کا ایک نیا حوالہ عطا کیا گیا۔ مہاجرین میں اکثریت قریش ہی کی تھی اور قبائل قریش جس طرح تمام عرب میں اپنے نسلی تفاخر کی بات کیا کرتے تھے اس کی واضح مثال غزوہ بدر میں بھی سامنے آتی ہے کہ مکہ میں کفار نے ابتدا میں انصار مدینہ سے لڑنے ہی سے انکار کر دیا تھا۔ (ابن جوزی، عبدالرحمن، الوفاء باحوال المصطفیٰ، مترجم علامہ محمد اشرف سیالوی، ص:707)
نبی کریم ﷺ خود اس معاشرے میں رہے اور ان کے ہر طرح کے رویوں کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ اس کے محرکات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس لیے آپؐ نے مواخات قائم کیا۔ ظاہری پہلو تو برادری قائم کرنا اور امداد باہمی پر مبنی تھا جبکہ باطنی پہلو خاندانی برتری و قومیت کا خاتمہ ہی تھا۔ اس طرح کی ایک اور مثال حضرت بلال ؓ کو فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم تھا۔ حضرت بلال ؓ کے اذان دینے کے موقع پر قریش کے چند لوگوں نے جس طرح کی آراء دیں (مدارج النبوۃ،ج 2، ص: 355) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا اتنے عظیم الشان موقع پر ایک آزاد کردہ غلام کو اس اعزاز سے نوازنا فی الحقیقت اس متعصب فکر ہی کا خاتمہ تھا جو برتری کے جھوٹے دعویٰ میں مبتلا تھی۔
قبائلی تعصبات کا خاتمہ
میثاق مدینہ صرف ایک قانون ہی نہیں بلکہ سماجی و ریاستی نظم کا ایک ہمہ جہت منشور بھی ہے اس قانون کو جو مدینہ منورہ کے مختلف قبائل کے درمیان خارجی و اندرونی طور پر امن و امان اور سماجی بہبود کا معاہد ہ تھا دوسری جہت سے دیکھا جائے تو یہ تمام قبائل کے مابین تمام تعصبات کے خاتمے کا سرکاری اعلان تھا۔ ان میں یہود کے قبائل، اوس و خزرج کے قبائل اور پھر مہاجرین جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے سب کو سماجی و ریاستی طور پر پہلی بار قانونی طور پر بلا تفریق ِ رنگ و نسل و قبیلہ حقوق عطا ہو رہے تھے۔ اس عہد کے مضبوط ترین قبائلی نظام پر کاری ضرب تھی یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو صرف نبی کریم ﷺ ہی کر سکتے تھے اور آپﷺ نے اس کو صرف تحریری طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ بھی کیا اور اس کے ثمرات بھی سب تک پہنچے۔ اسی طرح بیرون مدینہ آپﷺ نے کافی قبیلوں سے معاہدات کیے تھے جو مدینہ منورہ کے استحکام ہی کیلئے تھے لیکن ان سے ان جھگڑوں کا خاتمہ کرنا ہی مقصود تھا جو عصبیتوں کی بنیاد پر جاری تھے۔
قبائلی تعصبات کے خاتمہ کیلئے نبی کریم ﷺ نے ایک اور نہایت موثر حکمت عملی اختیار کی وہ تھی آپؐ کا مختلف قبائل میں نکاح فرمانا اس میں آپﷺ نے نہ صرف مسلم قبائل میں نکاح فرمائے بلکہ غیر مسلم قبائل میں بھی نکاح کیے تاکہ مذہبی تعصبات کا بھی خاتمہ ہو سکے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح کر کے ان تمام خواتین کے خاندانوں کو ان کی اسلامی خدمات کے حوالے سے صلہ عطا کرنا بھی تھا اور قبائلی تعلقات کو استحکام دینا بھی تھا۔
اس طرح حضرت صفیہؓ، حضرت اُم حبیبہؓ، حضرت جویریہؓ اور حضرت ماریہؓ سے نکاح کر کے اسلام دشمن قوتوں کو اخلاق اور محبت کا پیغام دینا تھا کہ تم ذات رسالت مآبﷺ اور اسلام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہو جبکہ اللہ کے نبی ﷺ تم سے کس طرح کے تعلقات چاہتے ہیں۔
نسلی وعلاقائی تعصبات کا خاتمہ
نبی کریم ﷺ بعثت مبارکہ سے قبل پورا عرب معاشرہ نسلی و علاقائی تفاخر میں مبتلا تھا نسلی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے باپ دادا اور خاندان پر بڑا فخر کرتے تھے اور دوسرے خاندانوں بالخصوص غلاموں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ رکھتے اس طرح علاقائی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اہل عرب غیر عربوں کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے تعصب و تفاخر کے ان دونوں باطل تصورات کا مختلف صورتوں میں خاتمہ کیا اس میں سب سے پہلے آپﷺ نے غلام آزاد کرنے کی اہمیت و اجرو ثواب کا مژدہ سنایا، ان کے حقوق متعین کیے، ان کو سماج کے مرکزی دائرے میں لے آئے۔ آپ ﷺ اگر غلاموں کے صرف حقوق ہی متعین فرماتے اور مختلف صورتوں میں ان کی آزادی کا حکم نہ دیتے تو اس سے ان کو حقوق تو حاصل ہو جاتے لیکن ان کے حوالے سے تعصبات کا خاتمہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے سب سے پہلے ان کی آزادی کی ہی بات کی تاکہ ان کو غلام نہ کہا جائے۔ اس ضمن میں نبی کریم ﷺ کا حضرت سلمان فارسیؓ کو نہ صرف غلامی سے آزاد کروایا بلکہ ان کو اپنے خاندان کا فرد قرار دے کر علاقائی تعصبات کا خاتمہ کرنے کی ہی جہت ہے۔ علاقائی تعصبات کا خاتمہ کرنے کیلئے ایک اور طریقہ اختیار فرمایا اور وہ ہے نجاشی شاہ حبشہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنا۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں، اور جس نے عصبیت کی بنا پر قتل کیا وہ بھی ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت کی بنیاد پر مرا وہ بھی ہم میں سے نہیں‘‘(مدارج النبوۃ، ج 2، ص: 275)
برادری وقبیلہ کی وجہ سے عصبیت کا اظہار اسلام کے ملت واحدہ کے تصور سے انحرافی صورت اختیار کرنا ہے۔ اگر سماجی اعتبار سے عصبیت کا ظہور ہو گا تو اس سے سیاسی عدم استحکام،فرقہ واریت کا فروغ ہو گا۔اور اگر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہو گی ،اپنی جماعت یا من پسند افراد تک ہی وسائل و مراعات کو محدود رکھا جائے گا تو اس سے کرپشن کا دروازہ کھلتا ہے۔
اس لیے نبی کریمﷺ نے قبائلی، سماجی، جغرافیائی اور سیاسی تعصبات کی نفی کر کے انسانی حیات کے دو بنیادی حقیقی پہلوؤں کی طرف متوجہ کیا۔ ایک تو یہ کہ ہر انسان ابن آدم ہے، یعنی تمام انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے ایک باپ کی اولاد ہیں، اس بنا پر کسی کو کسی پر کسی بھی اعتبار سے فضیلت حاصل نہیں۔ دوسرا پہلو جو انسانی عظمت کا ہے اس کیلئے تقویٰ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تقویٰ باطنی حالت کا نام ہے جس کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے۔ اس حالت کو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کوئی نہیں جانتا۔
ان واضح تعلیمات کے ہوتے ہوئے کسی انسان کے کسی بھی حوالے سے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و اعلیٰ یا فائق سمجھنے جیسی سوچ کی نفی ہو جاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے جس معاشرہ کی تشکیل فرمائی اس کی اسا س ہی میں مواخات مدینہ اور میثاق مدینہ کی صورت میں ذات و طبقات کی برتری کے تما م باطل تصورات کا خاتمہ فرمایا۔ موجودہ معاشروں میں قبائل و طبقات اور قومیت و وطنیت کی سوچوں نے اسلام کی آفاقیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نقصان اسلامی معاشروں کو ہی اٹھانا پڑا۔ آج اگر ہم اپنے معاشرہ کو دیکھیں تو اس امر کے اظہار میں دور ائے نہ ہو گی کہ علاقائی، قبائلی، طبقاتی اور لسانی تعصبات نے وحدت ملی کے اعلیٰ اصول کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے تصور ملت سے بھی رو گردانی کی ہے۔ جس سے ایک ہی معاشرہ میں رہنے قبائلی و طبقاتی تعصبات کی ایک بڑی وجہ معاشی نا انصافی بھی ہے۔ اس کی وجہ سے ان محروم قبائل و طبقات تک مراعات نہیں پہنچتی یہ محرومیاں اور ناانصافیاں ان کو متعصبانہ رویوں پر مجبور کرتی ہیں۔اگر حقیقی معنوں میں معاشی انصاف ہو تو اس طرح کی صورت حال میں کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عقیل احمد نجی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے وابستہ ہیں، ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مختلف ٹی وی چینلز کے دینی پروگراموں میں باقاعدگی کے ساتھ بیٹھتے ہیں