نام بگاڑنا:ایک معاشرتی برائی

تحریر : ڈاکٹرحاجی محمد حنیف طیب


ہمارا دین کامل حقیقت میں ایک مکمل نظام حیات، ضابطہ زندگی اور قانون شریعت ہے، جو تمام شعبہ حیات اور عالم کیلئے کامل رہنمائی اور راستگی عطا کرتا ہے۔ اسی طرح وہ ناموں کے سلسلے میں بھی ایک مکمل ضابطہ پیش کرتا ہے، جس کا مقصد اچھے ناموں سے لوگوں کو پکارنا، اُس کے کارناموں سے روشناس کرانا اور نام کی اہمیت کو بتانا ہے۔

نام کی اہمیت انسانی زندگی میں اس لیے بھی ہے کہ وہ اُس کی شخصیت کا پتہ دیتا ہے۔ بامعنی نام رکھنا اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ نام انسان کے دین و مذہب کا عکاس ہے، اس لئے بچوں کا نام رکھنے سے پہلے اس بات پر غور کریںکہ وہ اُس کی شخصیت کا حصہ ہے اور آئندہ وہ اپنی زندگی اسی نام سے بسر کرے گا۔ اپنی شناخت اسی نام سے کرائے گا اوراُس کے اچھے کارناموں کو اسی نام سے شناخت کیاجائے گا۔ حتیٰ کہ بعد از مرگ قبر تک بلکہ قیامت کے دن زندہ کئے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اسی نام سے پکارا جائے گا۔ گویا اُس کا نام ہی اُس کی شناخت کا سبب ہے۔

ناموں کے حوالے سے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اچھے، بامقصد، بامعنی اور اسلاف کے ناموں پر رکھے جائیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے ناموں کے سلسلے میں اپنی اُمت کو جوتعلیم فرمائی، اُس میں سے چند یہ ہیں کہ قیامت کے روز ہر انسان کو اُس کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ (ابوداؤد)

حضرت عبد اﷲبن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے ناموں میں سے اﷲ جل شانہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبد اﷲ (اﷲ کا بندہ) اور عبدالرحمن (رحمان کابندہ) ہیں۔ 

والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں۔ اور پھرجو نام اس کا رکھیں تو اسی نام سے اسے پکاریں۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ ناموں کے بگاڑنے کی ابتدا گھر کے لوگوں سے ہی ہوتی ہے۔ جب وہ پیار میں مامون کو منو، ممو، یا مما، رشید کو رشو اور ودود کو ودّو اور ددّوکے نام سے بلاتے ہیں۔ نام کو بگاڑنا قابل تعزیر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ناموں کوخراب کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ناموں کا بگاڑ معاشرے پر برے اثرات مرتب کرتا ہے اور معاشرتی ماحول کو خراب بھی کرتا ہے۔ عموماً نام بگاڑنے پر لڑائی جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں، جو ہماری اخلاقی پستی کی دلیل ہے۔ 

ناموں کا بگاڑ بچوں کے ذہن پر بھی اَثر انداز ہوتا ہے اور ذہنی دباؤ کا سبب بھی بنتا ہے۔ انہیں یہ احساس باورکرواتا ہے کہ اُن کے والدین نے اُن کا کتنا برُا نام رکھا ہے۔ ناموں کے بگاڑنے سے ہماری معاشرتی اور سماجی سرگرمیوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے حضورﷺنے ناموں کو بگاڑنے سے منع فرمایا ہے۔ 

آج کل ناموں کے سلسلے میںکچھ لوگوںمیں یہ غلط رواج پڑ گیا ہے کہ وہ قرآن سے نام کی فال نکالتے ہیں۔ مثلاًوہ بچے کانام تجویز کرتے وقت قرآن مجید سے نام کے حروف نکال کر اور بچے کے نام کے حروف کے اعداد اور تاریخ پیدائش کے اعداد کو آپس میں ملا کر نام رکھتے ہیں، یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔ قرآن وحدیث میں علم الاعداد پر اعتماد کی اجازت نہیں ہے۔ تاریخی نام رکھنا جس کے ذریعے سن پیدائش محفوظ ہو جائے تو یہ صحیح ہے۔

 اسی طرح بعض لوگ پیار و اظہار محبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام بھی رکھتے ہیں۔ مثلاً محمدحنیف عرف حنفو، عبدالرحیم عرف رحیمو، شہاب الدین عرف شابو، عبدالحامد عرف پپی وغیرہ۔ یہ نامناسب بات ہے اورنام کو بگاڑنے اور عرفیت کو بڑھانے کاذریعہ بننے والے نام رکھنے کی شریعت میں گنجائش نہیں۔

 بعض لوگ قرآن مجید کھول کرساتویں سطر کی ابتدا میں جوحرف ہوگا، اسی حرف سے نام رکھتے ہیں۔ حرف کاف (ک) نکلا توکاف سے شروع ہونے والے نام رکھتے ہیں مثلاً کلیم عرف کمو وغیرہ۔ اس طرح فال لینا بھی غلط ہے۔ شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ 

پیار اور لاڈ کے نام رکھنے کی اِجازت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کو حمیرا کہہ کر پکارا۔ نام کو مختصر بھی کر سکتے ہیں اس لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کو عائش کہہ کر پکارا۔ (بخاری)

واضح رہے کہ نام کو اگر اس طرح مختصر کیا جائے کہ اُس کے معنی مذموم اور مفہوم مردود ہو جائیں یعنی اچھے نام برے نام میں تبدیل ہو جائیں تو اِس طرز پر نام کو مختصر کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ جیسے حبیب کوحبو، جلیل کو جلو اور نصیر کو نصو وغیرہ کہنا۔ اسلام نے ناموں کو بگاڑنے اورکسی برے نام سے پکارنے سے منع کیا ہے، اسلام میں یہ عمل قطعاً درست نہیں، خاص کر وہ نام جو اﷲ تعالیٰ  کے ناموں میں شامل ہیں۔ مثلاً اکثر لوگ رحیم کو رحیمے، کریم کوکریمے، سلام کو سلامے / سلامو، کہہ کر پکارتے ہیں، یہ اسمائے حسنہ کی توہین ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم برے ناموں کوبدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیاکرتے تھے (ترمذی)۔ ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس میں ایک شخص تھا جس کو ’’اصرام‘‘ کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے، اس نے کہا مجھے اصرام کہتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا (نہیں) بلکہ تمہارانام زرعہ ہے۔ اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔ نیز انہوںنے (بطریق وتخلیق ) یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب ناموں کو بدل دیا تھا۔ البتہ شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے توصحیح ہے،جیسے شہاب الدین وغیرہ۔ بعض لوگ اچھے ناموں کو بگاڑ کر بولتے ہیں مثلاًمیمونہ کو ممو، سعیدہ کوسدو، مجیداں کومجو، نعیمہ کو نمو اور ناجیہ کو نجو، وغیرہ۔ چٹا، مٹا، چکنا، گیٹا، لمبو، ہکلا، کالو، کالیا، لنگڑا، کانہ ،کہہ کر پکارنا غلط ہے۔ اس طرح سے نام کوبگاڑ کر پکارنا غلط ہے۔ 

اسی طرح بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں جن مہینوں میں وہ پیدا ہوتے ہیں جیسے رمضانی، شعبانی، عیدوں، شبراتی وغیرہ۔ یہ طریقہ بھی شرعاًصحیح نہیں ہے۔ عموماً گلی ، محلوں، رشتہ داروں اور برادری والوںمیں ناموں کو بگاڑ کر بلانا، انہیں پکارنا یا آواز دینا معیوب نہیں جانا جاتا، حالانکہ کسی کے نام کو بگاڑنا اُس فرد اور اس کے نام کی تضحیک کے برابر ہے۔ اچھے بھلے نام کو لوگ بگاڑ کر ’’کاسو‘‘کر دیتے ہیں حالاں کہ اس کا نام قاسم ہوتا ہے۔ اسی طرح اقبال کو ’’بالے یا بالا‘‘ یوسف کو جوزف، رفیق کو فیکے، مجید کو مجو اور قدیرکو کدّو، ساجد کو سجو، کہہ کر بلانا انتہائی معیوب بات ہے۔

ڈاکٹر حاجی محمد حنیف طیب معروف عالمی دین اور سابق 

وفاقی وزیر ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔