لالچی لومٹری

تحریر : اسد بخاری


ٹینا لومڑی کے پاس دو مونگ پھلیاں تھیں، مگر اس کا ان دو مونگ پھلیوں سے کچھ ہونے والا نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ، وہ زیادہ مونگ پھلیاں چاہتی تھی، پر کیسے؟ یہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اس نے دیکھا، ایک مونگ پھلیاں بیچنے والا اس کی طرف آ رہا ہے۔

لیکن اسے راستے میں ہی کچھ بچوں نے گھیر لیا اور سب اس سے مونگ پھلیاں خریدنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ساری مونگ پھلیاں بک گئیں، تو وہ وہاں سے ہی واپس چلا گیا۔ ٹینا لومڑی کا پلان بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ وہ مونگ پھلی چھیل کر کھانے لگی۔ اتنے میں وہاں ایک گلہری آ گئی، جس کے پاس کافی ساری مونگ پھلیاں تھیں۔ 

جب لومڑی نے اس کے پاس مونگ پھلیاں دیکھیں تو اس نے فوراً سوچا کیوں نہ میں اپنی چالاکی سے اس گلہری سے ساری مونگ پھلیاں ہتھیا لوں۔ لومڑی نے اپنی دو مونگ پھلیاں جلدی سے چھپا لیں۔ گلہری لومڑی کے پاس سے گزرنے لگی تو ٹینا لومڑی نے کہا ’’پیاری سہیلی! تم آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو‘‘۔

گلہری نے شرماتے ہوئے کہا ’’شکریہ ٹینا بہن‘‘!۔ لومڑی نے فوراً کہا ’’ ویسے تم بہت خوش قسمت ہوکہ تمہارے پاس مونگ پھلیاں ہیں، پر میں سوچ رہی تھی کہ کیا تمہاری فیملی کیلئے یہ مونگ پھلیاں کافی ہیں کیا؟‘‘

’’ہاں، ہاں! کافی ہیں‘‘ گلہری نے کہا ۔’’کہاں کافی ہیں، ہاں! اگر تم چاہو تو یہ مونگ پھلیاں اور زیادہ بھی ہو سکتی ہیں، لومڑی نے کہا۔ گلہری نے پہلے سوچا اور کہا ’’مگر کیسے؟‘‘

ٹینا لومڑی نے سوچا کہ یہ اس کے جال میں پھنس جائے گی اور اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’بہت آسان ہے۔ میں ایک مونگ پھلی اپنے ہاتھوں میں چھپائوں گی۔ اگر تم نے بوجھ لیا کہ میرے کون سے ہاتھ میں مونگ پھلی ہے تو میں تمہیں اپنی مونگ پھلیوں سے ایک مونگ پھلی دے دوں گی اور اس طرح تم میری مونگ پھلیاں بھی حاصل کر لو گی‘‘۔

گلہری مان گئی، اس نے کہا ’’ٹھیک ہے میں کھیلوں گی‘‘۔لومڑی نے اپنی جیب سے وہی دو مونگ پھلیاں نکالیں۔ اس نے پہلی بار دونوں ہاتھوں میں ایک ایک مونگ پھلی رکھی، تاکہ گلہری کو اعتماد دلا سکے۔ جب پہلی بار جیتے گی تو آگے بھی کھیلے گی۔لومڑی نے دوسری طرف منہ کرکے اپنے دونوں ہاتھوں میں مونگ پھلی رکھ کر کہا ’’ بتائو! میرے کس ہاتھ میں مونگ پھلی ہے‘‘ گلہری نے سوچا اور دونوں مٹھیوں کو بڑے غور سے دیکھا، پھر کہا ’’دائیں ہاتھ میں‘‘

جب لومڑی نے مٹھی کھولی تو اس ہاتھ میں ایک مونگ پھلی تھی۔ لومڑی نے بڑی شرافت اور خوش دلی سے وہ مونگ پھلی گلہری کو دے دی۔ لومڑی نے پھر مڑ کر گلہری کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ مونگ پھلی چھپا رہی ہے، پر اس بار اس نے دونوں ہاتھوں میں مونگ پھلی رکھی ہی نہیں۔ لومڑی نے پوچھا ’’اب بتائو! کس ہاتھ میں مونگ پھلی ہے‘‘؟

گلہری نے فوراً کہا ’’بائیں ہاتھ میں ہے‘‘۔ لومڑی نے ہاتھ کھولا تو وہ خالی تھا۔ گلہری کو ایک مونگ پھلی دینا پڑی۔ اس نے سوچا، اگلی بار جیت جائوں گی پر تھوڑی دیر میں ہی گلہری اپنی ساری مونگ پھلیاں کھو بیٹھی اور وہ مایوس ہو کر واپس چلی گئی۔

ٹینا لومڑی اتنی ساری مونگ پھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور اپنے آپ کو داد دینے لگی کہ اس نے اپنی عقل سے مونگ پھلیاں حاصل کر لی ہیں۔ اب پیٹ بھر کر کھائوں گی، پر اس نے سوچا۔’’یہ تو کافی زیادہ ہیں، کیوں ناں انہیں شہر جا کر بیچ دوں، جب اس سے اچھے پیسے ملیں گے تو کوئی اچھی سی چیز کھائوں گی‘‘۔

پھر اس نے سوچا، انہیں شہر کیسے لے کر جائے۔ اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے پتوں کی ایک ٹوکری بنائی اور ساری مونگ پھلیاں اس میں رکھیں۔ وہ خوشی خوشی مونگ پھلیاں لے کر شہر کی طرف چل پڑی۔

لومڑی ابھی تھوڑا ہی چلی تھی کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ہوا تیز چلنے لگی اور اس نے آندھی کی شکل اختیار کرلی۔ اب لومڑی بھی گھبرانے لگی۔ اصل میں اس سے مونگ پھلیوں والا ٹوکرا سنبھالا نہیں جا رہا تھا کبھی دائیں طرف کبھی بائیں طرف۔ اچانک لومڑی کے ہاتھ سے ٹوکرا گر گیا اور مونگ پھلیاں زمین پر پھیل گئیں۔ پھر ہوا کے ساتھ اڑ کر بکھر گئیں۔لالچی لومڑی سے جب مونگ پھلیاں اکھٹی نہیں ہوئیں تو رنجیدہ ہو کر ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔جب بارش رکی تو ایک طرف سے گلہری بھی موسم کا نظارہ لیتی ہوئی اس طرف نکل آئی۔ اس نے دیکھا کہ کوئی درخت کے نیچے بیٹھا ہوا ہے۔ جب گلہری اس کے پاس گئی، تو اس نے پوچھا ’’تم کون ہو، لگتا ہے تم کسی مصیبت میں ہو اور تم نے اپنے اوپر کیچڑ کیوں لگا رکھا ہے‘‘؟ لومڑی نے سر اٹھایا اور کہا ’’میں ٹینا لومڑی ہوں گلہری بہن‘‘!

گلہری نے حیرت سے کہا۔’’ارے! تمہیں کیا ہوا‘‘؟ گلہری ٹینا لومڑی کو اپنے ساتھ ندی پر لے گئی اور اسے نہانے کو کہا۔ کچھ دیر میں لومڑی صاف ستھری ہو گئی۔ گلہری نے کہا ’’چلو! اب جنگل میں چلیں‘‘۔ لومڑی نے نظریں نیچی کرکے کہا ’’گلہری بہن! تم بہت اچھی ہو اور تمہارا دل بھی بہت بڑا ہے۔ مجھے ایک بات کا اندازہ اچھی طرح سے ہو گیا ہے کہ ہر جگہ چالاکی نہیں چلتی اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں نا کبھی کسی سے فریب کروں گی اور نہ لالچ‘‘۔

پھر دونوں خوشی خوشی جنگل کی طرف چل پڑیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

رمضان المبارک جلد کی حفاظت بھی ایک چیلنج

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جہاں روزے داروں کیلئے بیشمار جسمانی فوائد لے کر آتا ہے، وہیں اکثر خواتین اپنی صحت، خاص طور پر اپنی جلد خراب کر لیتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس ماہ میں آخر جلد مختلف مسائل کا شکار کیوں ہو جاتی ہے؟

بیرکاتیل:بیوٹی پراڈکٹس کا متبادل

بیر میں وٹامن سی،پوٹاشیم،فاسفورس،ربا فلاون، تھائیمن، آئرن،کاپر،زنک اور سوڈیم بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اور یہ سب وہ اجزاء ہیں جو آپ کے میک اپ پراڈکٹ میں موجود ہوتے ہیں۔بیر کھانے سے دل کی صحت اچھی ہوتی ہے اور یہ دل کے مریضوں کی شریانیں کھولتا ہے۔اگر شریانوں میں کسی قسم کا کوئی خون کاٹکڑا یا ریشہ اٹک جائے تو اس کو صاف کرنے میں بھی بڑی مدد کرتا ہے۔

رہنمائے گھرداری، سٹیل کے برتن چمکیں گے

ویسے تو پلاسٹک اور شیشے کے برتنوں کے آنے کے بعد خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اسٹیل کے برتنوں کا استعمال کم کردیا ہے، تاہم اب بھی بیشتر گھروں میں اسٹیل کی دیگچی، ٹرے، پتیلے، کٹلری و دیگر اشیاء استعمال کی جا رہی ہیں۔ سٹیل کے برتن ویسے تو بہت پائیدار ہوتے ہیں۔

رمضان کے پکوان و مشروبات

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے، اس ماہ مبارک کے دوران جہاں متوازن غذا لینا بہت ضروری ہے وہیں خود کو ہائیڈریٹ رکھنا بھی اشد ضروری ہے۔ ان دونوں باتوں کا خیال رکھ کر آپ دن بھر خود کو توانا اور متحرک رکھ سکتے ہیں۔جسم میں پانی کی کمی نہ ہواس لئے سحر و افطار میں مشروبات کا استعمال ضروری ہے۔ ذیل میں ہم آپ کیلئے رمضان کے خصوصی پکوان اور مزیدار مشروبات کے بارے میں بتائیں گے جو دن بھر کے روزے کے بعد آپ کو تروتازہ اور متحرک رکھیں گے۔

ماہر لسانیات محقق اور شاعر شان الحق حقی کی خود کلامی

خود کلامی ان کی شخصیت کو کلید فراہم کرتی ہے، یہاں ہمیں اردو زبان، اردو رسم الخط اور اردو شاعری پر حقی صاحب کی بصیرت افروز اور مسرت و انبساط سے لبریز گفتگو سننے کو ملتی ہے ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے شان الحق حقی کو بجا طور پر ’’ہمارے عہد کی نابغۂ روزگار ہستی‘‘ قرار دیتے وقت خود کو ’’ان کے علم و فضل کا قتیل‘‘ قرار دیا ہے۔ ہمارے ہاں حقی صاحب مرحوم کی شہرت ایک ماہر لسانیات، محقق اور شاعر کی ہے۔

یادرفتگان: ورجینیا وولف: معروف برطانوی ادیبہ

ورجینیا وولف کی ڈائری ان کی ڈائری میں الفاظ موتیوں کی شکل میں پروئے ہوئے ملے:٭…جی ہاں میں بہار منانے کی مستحق ہوںکیونکہ میں کسی کی مقروض نہیں۔٭…اگر تم میری لائبریریوں کو تالا لگانا چاہتے ہو تو لگاؤ، لیکن یاد رکھو کوئی دروازہ، کوئی تالا، کوئی کنڈی نہیں ہے جس سے تم میرے خیالات کو قید کر سکو!٭…حقیقیت صرف اپنے ادراک اور بیان کے بعد وجود میں آتی ہے۔٭…مجھے اپنی تحاریر پڑھنا پسند ہے کیونکہ یہ مجھے خود سے مزید قریب کرتی ہیں۔٭…زندگی نے میری سانسیں اس طرح ضائع کیں جیسے کسی نے ٹونٹی چلا کر چھوڑ دی ہو۔