عمران خان گرفتاری سے گریزاں کیوں؟

تحریر : سلمان غنی


صوبائی دارالحکومت لاہور میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تنائو اور ٹکرائو کی صورتحال اُس وقت نکتہ عروج پر پہنچی جب اسلام آباد پولیس عدالتوں کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ لے کر لاہور پہنچی۔

پولیس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری مقصود ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ممکنہ کارروائی کرنی ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور پر پارٹی کے ذمہ داروں اور کارکن مذکورہ گرفتاری کو روکنے کیلئے مزاحمت کے موڈ میں نظر آئے اور زمان پارک میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ ایک طرف پولیس گرفتاری کیلئے زمان پارک کی طرف پیش قدمی کرتی دکھائی دی تو دوسری جانب مشتعل ہجوم بھرپور مزاحمت کرتا نظر آیا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھا رکھے تھے جو اس عزم کا اظہار کرتے نظر آئے کہ ان کے لیڈر کو عدالت کی جانب سے 18مارچ تک کا ریلیف ملا ہے، لہٰذا گرفتاری نہیں کرنے دیں گے اور اس غیر قانونی اقدام کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ 

دوسری جانب حکومتی ذمہ داران اپنے اس مؤقف کے حوالے سے پرعزم نظر آئے کہ وہ عدالتی احکامات کے تحت عمران خان کی گرفتاری ممکن بنا کر رہیں گے اور مذکورہ اقدام کیلئے پولیس کی بڑی تعداد زمان پارک کو جانے والے تمام راستوں پر تعینات دکھائی دی۔ کنٹینرزکے ذریعے راستے بھی بند کر دیئے گئے جبکہ زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کے ذمہ داران اور کارکن کسی طور بھی پسپائی اختیار کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ زمان پارک میں موجود پی ٹی آئی کے ذمہ داران کے درمیان مشاورتی عمل میں طے پایا کہ کسی بڑے ناخوشگوار واقعہ کی بجائے پی ٹی آئی کے قائد عمران خان ازخود گرفتاری پیش کر دیں۔ جس کا اشارہ پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان قطعاً گرفتاری سے گریزاں نہیں، ان کے پاس اس حوالے سے عدالتی احکامات موجود ہیں۔ ہم پولیس حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد اگر محسوس کریں گے کہ گرفتاری لازم ہے تو اس پر غور ہو سکتا ہے لیکن زمان پارک میں موجود پارٹی کارکنوں نے اس حوالے سے شدید ردعمل ظاہر کیا اور واضح کیا کہ عمران خان رضاکارانہ گرفتاری دیں گے نہ ہم پولیس کو ان کی رہائش گاہ پر چڑھائی کرنے دیں گے۔

 شاہ محمود قریشی اور پارٹی کے ذمہ داران کی میڈیا سے گفتگو کے بعد بھی یہاں تصادم کی صورتحال رہی، پولیس پر پتھرائو کے بعد پولیس نے کارکنوں پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری رہا اور اس دوران پولیس کے جوان اور پی ٹی آئی کے کارکن زخمی بھی ہوئے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں بھجوایا جاتا رہا۔ پولیس کے مسلسل استعمال کے باوجود بھی عمران خان کی گرفتاری ممکن نہ بننے پر حکومت نے یہاں رینجرز کو طلب کر لیا اور لاہور کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

 اس دوران خود پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پولیس مجھے گرفتار کرنے آئی ہے لیکن میرے کارکنوں نے ثابت کرنا ہے کہ قوم سوئی ہوئی نہیں، سب کو اپنے حقوق اور آزادی کیلئے جدوجہد کرنا ہے اور پتہ چلنا چاہئے کہ عمران خان کے بغیر بھی یہ قوم جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں جذباتی انداز میں کہا کہ اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو بدترین غلامی کو قبول نہ کرنا۔ عمران خان کے ویڈیو پیغام کے بعد ان کے کارکن اور جذباتی ہو گئے اور اس طرح سے یہ سلسلہ لاہور کے زمان پارک سے ہوتا ہوا دوسرے شہروں تک پھیل گیا۔ 

پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ گرفتاری کا مقصد دراصل انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کا کہنا ہے کہ انتخابات کا التواء نہیں ہونے دیں گے۔ دوسری جانب لاہور کے زمان پارک میں پیدا شدہ کیفیت بارے حکومتی موقف یہ رہا کہ یہ خالصتاً عدالتی کارروائی ہے اور عدالتی احکامات کی تعمیل کرائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ پولیس کی جانب سے مشتعل مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال بھی ان کے جذبے اور ولولے کو ختم نہ کر سکا ،جس بناء پر عمران خان کی گرفتاری ممکن نہیں ہوئی ۔ اس حوالے سے عام تاثر یہ قائم ہوا کہ شاید حکومت عمران خان کی گرفتاری میں سنجیدہ نہیں ۔ لاہور کے زمان پارک میں دو روز سے پیدا شدہ کیفیت اور ہنگامہ آرائی کی صورتحال سے اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی منظم انداز میں اپنے لیڈر عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے اور وہ کسی بھی طرح کے احکامات کے تحت ان کی گرفتاری کے خلاف ہے ۔لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پولیس کوزمان پارک میں آپریشن فوری طورپر بندکرنے کے احکامات جاری ہونے سے فی الحال حالات کچھ کنٹرول میں آ گئے ہیں۔جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کا بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ٹرائل کورٹ بیان حلفی کو دیکھ کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

 سیاسی سطح پر یہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی، خود مختاری کے علمبردار عمران خان آخر کیونکر عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں؟ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ عدل و انصاف کی فراہمی کے عمل میں بڑا کردار ہمیشہ عدلیہ کا رہا ہے مگر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ خصوصاً عمران خان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے طرز عمل نے خود عدلیہ کیلئے بھی ایک امتحان کھڑا کر دیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں یہ کیفیت کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت الیکشن کمیشن نے انتخابی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نگران حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔ الیکشن کمیشن میں وزارت دفاع کی جانب سے مسلح افواج کی فراہمی اور پولیس حکام کی جانب سے اپنے جوانوں کی تعیناتی کے عمل بارے تحفظات کے بعد انتخابات بارے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔