توشہ خانہ کے قانونی واخلاقی پہلو

تحریر : عدیل وڑائچ


توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے زیر انتظام وہ سرکاری محکمہ ہے جہاں بیرون ممالک کے دوروں کے دوران حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے تحائف جمع ہوتے ہیں۔

پاکستانی حکمران اور سرکاری عہدیدارگزشتہ کئی دہائیوں سے توشہ خانہ کے تحائف پر ہاتھ صاف کر رہے تھے اور اس مقصد کیلئے ایسے قوانین بنائے گئے جو ان تحائف کو انتہائی سستے داموں خریدنے کیلئے ہمارے حکمرانوں اور ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کو سہولت فراہم کرتے رہے۔بہت کم پاکستانیوں کو معلوم تھا کہ ان کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ان کے نمائندوں اور ان کے ٹیکس کی رقم سے تنخواہ لینے والے سرکاری عہدیداروں کیلئے توشہ خانہ جیسی نعمت موجود ہے اور کس طرح لاکھوں کروڑوں روپے کے تحفوں کی مالیت کا تعین مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم نرخوں پر کیا جاتا ہے۔ یہ قیمت طے کئے جانے کے بعد پھر اس کا صرف 20 فیصد ادا کرکے یعنی لاکھوں روپے مالیت کی چیز چند ہزار روپے جبکہ کروڑوں روپے مالیت کی چیز چند لاکھ میں خرید لی جاتی تھی۔ 2020 ء میں وزیر اعظم عمران خان کے دور میں اس شرح کو 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا تاہم تحفے کی قیمت کے تعین کا طریقہ کار متنازع ہی رہا اور شرح 50 فیصد ہونے کے باوجود حکمران کروڑوں کا تحفہ کوڑیوں کے بھاؤ خریدتے رہے۔ قوانین کے مطابق بیرون ملک سے ملنے والا تحفہ اگر 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہوتو تحفہ لینے والا شخص اسے مفت میں ہی رکھ سکتا تھا۔ اس وقت توشہ خانہ کا منظر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہاں چند کتابوں اور انتہائی معمولی اشیاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا۔ اب موجودہ حکومت نے توشہ خانہ سے متعلق نئی پالیسی جاری کر دی ہے جس کے مطابق 300 ڈالرز تک کی مالیت کا تحفہ پوری رقم ادا کرکے خریدا جاسکے گا۔ اس سے زیادہ مالیت کا تحفہ توشہ خانہ میں جائے گا۔ نیلامی کی صورت میں اشرافیہ کے علاوہ عام شہری کو بھی یہ تحفہ خریدنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔توشہ خانہ کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو قیمتی تحائف زیادہ تر عرب ممالک کی جانب سے ہی دیئے گئے، جن میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں ، قیمتی زیورات ، مہنگے ترین اور بعض اوقات ہیرے جڑے قلم ، ڈیکوریشن پیسز ، قیمتی کراکری شامل ہوتے ہیں۔ عرب ممالک کی جانب سے پاکستانی حکمرانوں کو قیمتی گاڑیاں بھی دی گئیں مگر قانون کے تحت وہ یہ گاڑیاں دیگر اشیا ء کی طرح خرید نہیں سکتے تھے۔ 

 گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں توشہ خانہ کے موضوع پر سیاسی بحث میں شدت آچکی ہے۔ یوں تو آصف علی زرداری ، میاں محمد نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیسز گزشتہ تین برسوں سے زیر التوا ہیں مگر اس کے باوجود توشہ خانہ کا معاملہ زبان زدِ عام اس وقت ہوا جب عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے خلاف توشہ خانہ سکینڈل سامنے آیا۔ پھر شاید ہی کوئی دن گزرا ہو جب حکمران اتحاد کے کسی وزیر یا مشیر نے عمران خان کے خلاف توشہ خان سکینڈل کا ذکر نہ کیا ہو۔ عمران خان ، آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ کیسز میں کیا فرق ہے ؟ اس کے قانونی پہلو کے دو حصے ہیں جبکہ اخلاقی پہلو بھی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس غیر ملکی تحائف غیر قانونی طریقے سے حاصل کرنے سے متعلق نہیں ہے جبکہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ کیس قانون کی خلاف ورزی کرکے تحفے میں ملنے والی گاڑیاں خریدنے سے متعلق ہے۔ عمران خان نے بیرون ملک سے ملنے والی گھڑیاں ، انگوٹھی اور کف لنکس طریقہ کار کے مطابق رقم ادا کرکے بلکہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ رقم ادا رکرکے خریدے اور فروخت کر دیئے، مگر انہیں اور ان سے ملنے والی رقم کو سالانہ گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔ یوں الیکشن کمیشن نے انہیں اکتوبر 2022 ء میں الیکشن ایکٹ کی زبان میں کرپٹ پریکٹس کا مرتکب قرار دیا اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے نا اہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کیس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا۔ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں زیر التوا کیس میں مذکورہ کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل جاری ہے اور فرد جرم عائد کرنے کیلئے انہیں 18 مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے تحت مالی گوشواروں میں غلط معلومات دینا کرپٹ پریکٹس کہلاتا ہے جس کی سزا تین برس قید جبکہ ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر ٹرائل کورٹ نے قرار دے دیا کہ عمران خان مجرم ہیں تو سزا کے ساتھ انہیں اس کی قیمت آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نا اہلی کی صورت میں بھی ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ دوسری جانب نیب عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلا ف توشہ خانہ کیس میں کرپشن کے پہلو پر تحقیقات کر رہی ہے۔ جس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ طلبی کے باوجود پیش نہیں ہو رہے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے متعلق نیب کیس کمزور جبکہ الیکشن ایکٹ کے تحت کرپٹ پریکٹس کا کیس مضبوط ہے۔ عمران خان کے کیس کا اخلاقی پہلو یہ ہے کہ انہوں نے عرب دوست ممالک سے ملنے والی قیمتی گھڑیاں ، انگوٹھی ، کف لنکس فروخت کر دیئے ۔ یہ اقدام دوست ممالک کی نظر میں ملک کی سبکی کا باعث بنا۔

دوسری جانب آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف توشہ خانہ میں بے ضابطگی سے متعلق ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے توانہوں نے قواعد کو نرم کرکے آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خرید نے کی اجازت دی۔اس کیس میں یہ بھی الزام ہے کہ آصف علی زرداری کی دو جبکہ نواز شریف کی ایک گاڑی کیلئے رقم کی ادائیگی مبینہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹ سے کی گئی۔ نیب نے 2020ء میںاحتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا مگر اب یہ کیس نئے نیب قانون کے تحت واپس نیب کو بھجوا گیا ہے کیونکہ پچاس کروڑ سے کم کرپشن کے معاملات اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ مگر اس کیس کے قانونی پہلو سے ہٹ کر دیکھا جائے تو میاں محمد نواز شریف کیلئے مرسیڈیز گاڑی کی قیمت 42 لاکھ 55 ہزار روپے لگوا کر 6 لاکھ روپے میں خریدی گئی۔ آصف علی زرداری نے 10 کروڑ 78 لاکھ روپے کی دو گاڑیاں ایک کروڑ 61 لاکھ روپے ادا کرکے رکھ لیں یوں حکمران عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد پر توجہ دیتے رہے۔ پاکستان میں توشہ خانہ کا معاملہ قانونی سے زیادہ اخلاقی بن چکا ہے اور اب حکمرانوں کو ان سستے تحفوں کی بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔