نماز عید کا طریقہ اور احکام

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


عید الفطر تو رمضان المبارک کی عبادات کی انجام دہی کیلئے توفیق الٰہی کے عطا ہونے پر اظہار تشکر و مسرت کے طور پر منائی جاتی ہے۔

ظاہر ہے کہ عبادات کے اختتام اور انجام پانے کی خوشی کوئی دنیوی خوشی نہیں ہے جس کا اظہار دنیاوی رسم و رواج کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک دینی خوشی ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اس میں اظہار مسرت اور خوشی منانے کا اسلامی طریقہ یہ قرار پایا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا جائے اور بطور شکر کے عید الفطر کے دن صدقہ فطر ادا کیا جائے۔ اپنے خالق کی کبریائی اور عظمت و توحید کے گیت گاتے ہوئے عید گاہ میں جمع ہو کر اجتماعی طور پر سجدہ ریز ہو اجائے اور اس طرح اپنے مالک کی توفیق و عنایات کا شکر ادا کیا جائے۔ اس اسلامی طریقہ پرعید منانے کا طبعی اثر یہ ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنی مسرت و خوشی کے اظہار میں بے لگام ہو کر نفسانی خواہشات کے تابع پڑنے سے باز رہے ۔

عیدالفطر مسلمانوں کی عبادت کا دن ہے اور اس کو منانے کے لئے خاص شان و صفت کی عبادت نماز کو مقرر کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جو مسلمان اس دن میں عمدہ لباس پہنتا اور ظاہری زیبائش و آرائش کرتا ہے اس کا مقصد اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ عید گاہ میں پہنچ کر شکرانہ کے طور پر عبادت کا ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ فکر سے کام لیا جائے تو عید کے اس اسلامی جشن مسرت میں تو قدم قدم پر احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔ 

عید کی سنتیں:عید کے دن تیرہ چیزیں سنت ہیں۔ 1)شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔  2) غسل  کرنا۔  3) مسواک کرنا۔  4) حسب طاقت عمدہ کپڑے پہننا۔ 5) خوشبو  لگانا ۔ 6)صبح سویرے  اٹھنا۔ 7)عید گاہ میں بہت جلد جانا۔ 8)عید الفطر میں صبح صادق کے بعد عید گاہ میں جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا۔ 9)عید الفطر میں عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا۔ 10)عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا۔ 11)ایک راستہ سے عید گاہ میں جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا۔ 12)عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میںاللہ اکبر‘ اللہ اکبر‘ لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللہ الحمد آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا۔ 13)سواری کے بغیر پیدل عید گاہ میں جانا۔ (نور الایضاح)

عید الفطر کی نماز کے احکام: 1)عید الفطر کی نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے کے بعد (جس کااندازہ پندرہ بیس منٹ ہے ) اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور زوال یعنی سورج کے ڈھلنے تک رہتا ہے۔ (درمختار)

2)نماز عید سے پہلے اس روز کوئی نفلی نماز پڑھنا عید گا ہ میں بھی اور دوسری جگہ بھی مکروہ ہے۔نماز عید کے بعد صرف عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ نماز عید کے بعد دوسری جگہ نفل پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کیلئے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں۔3)شہر کی مسجد میں اگر گنجائش ہو تب بھی عید گاہ میں نماز عید ادا کرنا افضل ہے اور ایک شہر کے کئی مقامات پر بھی نمازعید کا پڑھنا جائز ہے ۔ 4)نماز عید سے پہلے نہ اذان کہی جاتی ہے نہ اقامت (در مختار)

نماز کا طریقہ:پہلے اس طرح نیت کرے کہ میں دو رکعت واجب نماز عید چھ زائد تکبیر وں کے ساتھ پڑھتا ہوں اور مقتدی امام کی اقتداء کی بھی نیت کرے۔ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے اور سبحانک اللھم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے۔ ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دے اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے۔ ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کیا جائے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے ۔ ہاتھ باندھنے کے بعد امام اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے اور مقتدی خاموش رہے۔ رکوع سجدہ کے بعد دوسری رکعت میں پہلے امام فاتحہ اور سورۃ پڑھے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے تین مرتبہ پہلی رکعت کی طرح تکبیریں کہی جائیں۔ تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھے جائیں، پھر ہاتھ اٹھائے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کیا جائے مقتدی بھی امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا اٹھا کر تکبیر کہے اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کی جائے۔ 

عذرکی مثالیں: کسی وجہ سے امام نماز پڑھانے نہ آیا ہو اور اس کے بغیر نماز پڑھنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو‘ یا بارش ہو رہی ہو‘ یا چاند کی تاریخ کی تحقیق نہ ہوئی ہو۔ اور زوال کے بعد جب نماز کا وقت جاتا رہا تو چاند کی تحقیق ہوئی ہو۔ (در مختار و شامی)

امام نے نماز عید پڑھائی‘ پھر بعد میں معلوم ہوا کہ بغیر وضو پڑھائی گئی اب اگر لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہو گیا تو امام وضو کرے اور لوگوں کو دوبارہ نماز پڑھائے اور اگر لوگ متفرق ہو چکے ہوں تو نماز کا اعادہ نہ کیا جائے وہی نماز جائز ہو گی۔ (شامی) 

جس شخص کو عید گاہ میں وضو کرنے سے نماز عید نہ ملنے کا خوف ہو تو وہ تیمم کرکے نماز میں شریک ہو جائے ۔

یوم عید کی بدعات:منجملہ اور رسوم کے ہمارے قصبات میں ایک یہ رسم ہے کہ عید کے دن سحری کے وقت اذان فجر کا انتظار کرتے ہیں اور اذان کے وقت کہتے ہیں کہ روزہ کھول لو پھر کچھ کھاتے ہیں تو ان کے نزدیک اب تک رمضان ہی باقی ہے۔ شوال کی پہلی رات بھی گزار لی اور ان کے یہاں ابھی روزہ ہی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو(آمین)

 

مولانا رضوان اللہ پشاوری،مدرس وناظم جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سٹریس: خواتین کا کامن پرابلم

’’سٹریس‘‘ اور’’ انزائٹی‘‘ کیا ہے؟ اکثر لوگ کہتے ہیں تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو، کوئی مسئلہ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا، اتنی فکر نہ کرو لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بات کہنا جتنا آسان ہے، اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل۔ ’’سٹریس‘‘ کسی ایک مشکل یا پریشانی کا نام نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اکثر خواتین اس میں مبتلا ہوتی ہیں اور اس سے واقف بھی نہیں ہوتیں۔

منظم الماری، آپ کی سلیقہ شعاری

کپڑوں کی الماری آپ کیلئے بے ڈھنگے ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ چند آسان تجاویز پر بات کرتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنی الماری منظم کر سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق الماری کی مکمل صفائی کا منصوبہ سال میں کم از کم دوبار لازمی بنایا جائے۔ اگر آپ کی وارڈ روب بھی خراب ہو رہی ہے تو آج ہی اس کو منظم کرنے کا منصوبہ بنائیں۔

رہنمائے گھر داری

ناریل کے کمالات ناریل مشہور عام چیز ہے۔ اس کا ذائقہ شیریں خوش مزہ ہوتا ہے۔ اس کا رنگ باہر سے سرخ اور اندر سے سفید ہوتا ہے۔ اس کا مزاج گرم اور خشک دوسرے درجے میں ہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک دوتولہ ہے۔ اس کے حسب ذیل فوائد ہیں۔

آج کا پکوان: کاٹھی رولز

کلکتہ میں یہ رول اب عالمی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ 1932 ء میں لکڑی کی سکٹس پر کباب بنائے جاتے تھے وہیں سے اس کا نام ’’کاٹھی کباب ‘‘ پڑ گیا۔ ’’کاٹھی رول‘‘ بریڈ (یا پراٹھا) میں فلنگ سے بنتے ہیں،اور سلاد کے ساتھ سرو کئے جاتے ہیں۔پراٹھے کی جگہ شوار ما بریڈ بھی استعمال ہو سکتی ہے جبکہ فلنگس کیلئے بھی الگ الگ اجزاء استعمال کئے جا سکتے ہیں۔

بچوں کے ادب سے بے اعتنائی

بچے سدا بچے نہیں رہتے، وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر بڑا انہیں غذا کرتی ہے، ذہنی طور پر بڑا انہیں کتاب کرتی ہے۔ یہ کتاب نصابی بھی ہو سکتی ہے اور ادبی بھی۔ بچوں کو نظر انداز کر کے دنیا کے کسی ادب سے ترقی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ میرے خیال میں ادب کے معاملے میں بھی ’’بچے سب سے پہلے‘‘ والے فارمولے پر عمل ہونا چاہیے۔

فلسفئہ مغرب اسپائی نواز: فلسفے کا شہزادہ

اسپائی نوزا 24نومبر1632ء کو ایمسٹرڈیم میں پیدا ہوا۔ ایک مختصر سی زندگی کا پروانہ ہاتھ میں لے کر آنے والے فلسفیوں کے شہزادے نے ساری عمر ایک صوفی، درویش اور ولی کے طور پر گزاری۔وہ اپنے درون میں ایک گہرا مذہبی آدمی تھا، مگر ظاہراً کسی معروف عقیدے کا پیروکار نہ ہونے کی پاداش میں تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اسے شدید مذہبی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی تحریروں پر پابندی لگائی گئی، انہیں نذر آتش کیا گیا اور بے حرمتی کی گئی۔ اس کے ساتھ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ وہ سچائی تک عقیدے کی طاقت کی بجائے اپنے ریاضیاتی طریقہ کار کے ذریعے پہنچنا چاہتا تھا۔