پی ٹی آئی کو دھچکا، حکومت کیلئے کتنا فائدہ مند؟

تحریر : سلمان غنی


9مئی کے واقعات کے بعد سیاست میں تنائو ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس حوالے سے سب سے زیادہ مشکل میں پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی سیاست اور معاملات میں ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں اقتدار میں آتا دیکھ کر جس رفتار سے لوگ ان کے ساتھ آئے تھے اب ان پر آنے والی مشکلات کے بعد وہ سب انہیں چھوڑتے نظر آ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت خود ان کی پارٹی کی سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری پر ہوئی جنہوں نے جماعت ہی نہیں سیاست کو بھی خیر باد کہنے کا اعلان کر دیا۔ بظاہر تو کہا جا رہا ہے کہ ان پر ان کے اہل خانہ اور بچوں کا دبائو تھا لیکن ڈاکٹر شیریں مزاری جیسی رہنما کا یکسر اپنی جماعت اور سیاست کو بھی خیر باد کہنا بہت کچھ ظاہر کر رہا ہے۔ اسی طرح سے پارٹی کے ترجمان فیاض الحسن چوہان،میاں جلیل احمدشرقپوری، افتخار گیلانی، عبدالرزاق نیازی سمیت بہت سے رہنما اور سابق اراکین اسمبلی تحریک انصاف کو خیر باد کہتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان اب سیاسی محاذ پر تنہا نظر آتے ہیں، جبکہ ان کے سیاسی مخالفین متحد ہیں۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ کئی محاذوں پر الجھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اب بھی تنہا حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں جبکہ اس وقت کئی محاذ پر لڑی جانے والی لڑائی نے انہیں مشکل میں ڈال رکھا ہے اور ان کے گرد سیاسی، انتظامی اور قانونی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ 

عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں جو کچھ ہوا اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قومی قیادت کے سیاسی کردار پر تو سیاسی قائدین تنقید کرتے نظر آتے تھے مگر اپنی فوج کی املاک، تنصیبات، شہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی طرف کبھی کسی کو آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ ایک گرفتاری کے ردعمل کا ہدف قومی تنصیبات کیسے بن گئیں؟دراصل اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد عمران خان نے اسے دل سے قبول کرنے کی بجائے اس اقدام کے خلاف مہم جوئی ،محاذ آرائی اور مزاحمت کو ذریعہ بنایا اور اس میں پہلے پہل تو وہ اسے امریکی سازش قرار دیتے دکھائی دیئے بعد ازاں انہوں نے پاکستان کے اداروں کی قیادت کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا۔ خطرناک بات یہ تھی کہ وہ اپنے فالورز اور خصوصاً نوجوانوں کو پہلے سے اپنی گرفتاری پر باہر نکلنے اور جہاد کرنے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے پر صبرو تحمل کا مطلب کمزوری نہیں مصلحت تھا، یہی وجہ ہے کہ جب بات 9 مئی تک آ پہنچی تو پھر ریاست بھی حرکت میں آئی اور سیاست کے نام پر شرپسندی اور تخریب کاری کے گرد قانونی شکنجہ کسا جانے لگا ۔ 

9مئی کے واقعات نے جہاں ملک کو ہلا کر رکھ دیا وہاں عوام کی آنکھیں بھی کھل گئیں اور سب ان واقعات پر اپنے اپنے انداز میں تشویش ظاہر کرتے نظر آئے۔ حکومت اور اس کے بعض ذمہ داران تو مذکورہ واقعات کی بنیاد پر تحریک انصاف پر پابندی کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن کیا پابندی حل ہے ؟اس حوالے سے دو آراء ہیں ۔ جلائو گھیرائواور توڑ پھوڑ کے واقعات میں ملوث آخری شخص تک پہنچنے کیلئے انتظامی طاقت کا استعمال ہو رہا ہے جس کی ایک مثال ڈاکٹر سلمان شاہ کی بیٹی اور سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کی نواسی خدیجہ شاہ کی گرفتاری ہے۔ لہٰذا یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔ لگتا ہے کہ اس مذموم عمل میں سرگرم عام افراد تک قانون کا شکنجہ کسا جائے گا اور اس حوالے سے تحریک انصاف کے اندر جو بڑی پریشانی ہے وہ عمران خان کا طرز عمل ہے جنہوں نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔ بنیادی طور پر سیاست ہمیشہ سیاسی طرز عمل سے ہی کی جاتی ہے۔ 9 مئی کے واقعات سے ریاست تو دبائو میں نہیں آئی البتہ پی ٹی آئی کٹہرے میں آ کھڑی ہوئی۔ اس نے عملاً انہیں دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے اور مذکورہ واقعات پر ہی اب عمران خان کا سیاسی مستقبل دائو پر ہے اور ملک کے اعلیٰ سطحی حلقوں میں یہ رائے عام ہے کہ اب ان کی اقتدار میں جلد واپسی ممکن نہیںہوگی اور سیاست میں ان کے کردار کا انحصار ان کے طرز عمل پر ہے۔ جہاں تک ان کی مقبولیت کا سوال ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ 9مئی کے واقعات سے ان کی جماعت کو تو بڑا دھچکا لگا ہے لیکن ان کی مقبولیت اور بڑھ گئی ہے، ابھی فی الحال ایسا نہیں ہے۔

 عمران خان سیاسی اور قانونی محاذ پر بری طرح پھنس چکے ہیں اور حکومت کی کوشش ہو گی کہ وہ ان معاملات سے باہر نہ نکل سکیں۔ بظاہر یہ صورتحال حکومت کے حق میں نظر آتی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے حکومت کی مقبولیت بڑھی ہے یا ان کے انتخابات میں جیتنے کے امکانات ہیں، اس کا انحصار پریشان حال عوام کیلئے ریلیف ہوگا ۔ آج کی صورتحال میں بڑا سوال یہ سامنے آ رہا ہے کہ کیا ملک میں انتخابات بروقت ہو پائیں گے؟ عمران خان سمیت سب کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ دستیاب ہو گی اور ملک میں بھرپور مینڈیٹ کی حامل حکومت بن پائے گی؟ فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ انتخابات جلد ممکن نہیں ہوں گے اور اس کی بڑی وجہ 9 مئی کے واقعات اور اس کے سیاست اور معیشت پر اثرات ہیں۔ مشکل حالات صرف تحریک انصاف کیلئے ہی نہیں بلکہ جمہوری و سیاسی سسٹم کیلئے بھی ہیں۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ملک کو آگے چلانے کیلئے انتخابات نہیں نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جن میں سیاستدان اور دیگر سٹیک ہولڈرز مل کر قومی لائحہ عمل کا تعین کریں اور یہی ایسا حل ہے جس میں ملک و قوم اور سب کی بقاء کا راز مظہر ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔