تکبر کی مذمت

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


اللہ رب العزت کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے اندر زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ رکھتا ہے اور اسلامی تعلیمات کا ایک اہم باب اخلاقیات ہے جس میں کردار کے اچھے اور بُرے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اچھے اخلاق بندے کی سعادت مندی کا پتہ دیتے ہیں جیسا کہ رسول محتشم ﷺ نے فرمایا: ’’حُسنِ اَخلاق بندے کی سعادتمندی میں سے ہے‘‘(شعب الایمان: 8039)۔

 دینِ اسلام محبت و اخوت، بھائی چارہ و برداشت، احسان و قربانی، سچائی و ایمانداری سکھاتا ہے، وہیں یہ دین ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے، بیشک وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہو، کسی کے ساتھ بھی بداخلاقی کی اجازت نہیں دیتا۔ بُرے اخلاق دین و دنیا کے نقصانات پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان بُرے اخلاق میں سب سے خطرناک تکبر ہے جو کہ اللہ کے غیظ و غضب کا باعث بنتا ہے۔

انسان کو جب ا پنے کسی خاص وصف یا کمال کا پتہ چلتا ہے تو اس کے دل میں اس کے متعلق خوشی، مسرت اور خود کو باعزت سمجھنے کا ایک خوشنما احساس پیدا ہوتا ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں، لیکن جب یہی خیال اس قدر بڑھ جائے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور اعلیٰ تصور کرنا شروع کر دے تو اس کو غرور کہتے ہیں۔ جب وہ اپنے اعمال اور گفتگو کے ذریعے اس کا اظہار کر بیٹھے تو اس کو تکبر کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرمﷺ نے یہ دعا کی: ’’اے اللہ میں تکبرکے جھونکے سے بھی تیری پناہ چاہتاہوں‘‘ (ابی داؤد: 764)، چنانچہ کبر ایک باطنی حالت کا نام ہے اور اس کے نتیجے میں جو ظاہری عمل صادر ہوتے ہیں اس کا نام تکبرہے۔

شرعی لحاظ سے دوسروں کو حقیر سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو برتر اور اعلیٰ تصور کرنا تکبر ہے۔ تکبر شیطانی صفت ہے کیونکہ شیطان نے تکبر ہی کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، اسی بنا پر وہ لعین اور مردود ہوا۔ متکبر شخص بھی اسی طرح دین اور دنیا میں ذلیل و خوار ہو جاتا ہے اور لوگوں کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

تکبر کی تعریف

امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ علیہ تکبر کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دل میں اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا اور بڑا سمجھنے کی وجہ سے انسان کو جو حالت حاصل ہوتی ہے اس کو تکبر کہتے ہیں۔ سب سے بڑا تکبر یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے تکبر کرے اور حق کو ماننے اور قبول کرنے سے انکار کرے اور عبادت کرنے سے عار محسوس کرے، اگر انسان بڑائی کو حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرے تو یہ محمود ہے اور اگر انسان اپنی بڑائی ظاہر کرے اور اس میں وہ بڑے اوصاف نہ ہوں تو یہ مذموم ہے (المفردات، ج 2، ص 545)

قرآن مجیدکی روشنی میں تکبر کی مذمت

تکبر کی مذمت اور اس پر وعید کے متعلق قرآن مجید کی حسب ذیل آیات ہیں۔(1) ’’اسی طرح اللہ ہر ایک مغرور (اور) متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے‘‘ (المومن: 35) ۔ (2) ’’ہر متکبر ضدی نامراد ہوگیا‘‘ (ابراہیم:15) ۔ (3) ’’بیشک وہ تکبر کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘ (النحل: 23)۔ (4) ’’فرشتے (ان کی طرف) اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے اور (ان سے کہتے ہوں گے) تم اپنی جانیں جسموں سے نکالو۔ آج تمہیں سزا میں ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں کیا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے سرکشی کیا کرتے تھے‘‘(الانعام: 93)۔ (5)’’اُن سے کہا جائے گا: دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، (تم) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، سو تکبرکرنے والوں کا ٹھکانا کتنا برا ہے‘‘(الزمر:72)۔ (6)  ’’وہ لوگ جنہوں نے (اللہ کی عبادت سے) عار محسوس کی اور تکبرّ کیا تو وہ انہیں دردناک عذاب دے گا، اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مددگار‘‘ (النساء: 173)۔

احادیث مبارکہ میں متکبرین کی مذمت

اخلاق رذیلہ میں سے تکبرکی خصلت رکھنے والوں کے متعلق احادیث مبارکہ میں کثرت سے وعیدیں ذکر ہوئی ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی، انہیں جہنم کے ’’بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور آگ انہیں لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی‘‘( ترمذی: 2500)۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا، اس پر ایک شخص نے پوچھا: آدمی پسند کرتا ہے کہ لباس بھی اچھا ہو، جوتے بھی عمدہ ہوں، کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ خود جمیل ہے اسے جمال و نفاست پسند ہے (یہ کبر نہیں) تکبر تو یہ ہے کہ اتراہٹ کے مارے حق ہی کا انکار کر دے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے لگے‘‘ (مسلم:147)

حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہمیشہ آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کو متکبرین میں لکھ دیا جاتا ہے اور اس کو متکبرین کا عذاب پہنچتا ہے (سنن الترمذی: 2007 )۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’دوزخ اور جنت نے مباحثہ کیا، دوزخ نے کہا : مجھ میں متکبرین اور متجبرین داخل کیے گئے ہیں، جنت نے کہا : مجھ میں صرف کمزور، عاجز اور متواضع لوگ داخل کیے گئے‘‘ (صحیح بخاری: 4850)

حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل ہو جائیگا جو اس حال میں مرا کہ وہ تکبر، خیانت اور قرض سے بری تھا :‘‘ (سنن الترمذی: 1578 )

تکبر کے اسباب وعلاج

تکبر وہی شخص کرتا ہے جوخود کو بڑا سمجھتا ہے اور خود کو بڑا وہی سمجھتا ہے جو اپنے لئے اعلیٰ صفات میں سے کسی صفت کا دعویدار ہوتا ہے۔ ذیل میں ان چنداسباب کا ذکرکیا جاتا ہے جس کی بناء پرانسان متکبرانہ روش اختیار کرتا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے ان اسباب کو ذکر کرنے کے بعد ان کا علاج بھی تجویز فرمایا ہے۔

 سبب اوّل: علم

 بعض اوقات انسان کثرت علم کی وجہ سے بھی تکبر کی آفت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’علم کی آفت تکبر ہے‘‘ (المعجم الکبیر: 2688)۔ اہل علم جلد ہی اپنے علم کی وجہ سے تکبرمیں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے کثرت علم کی وجہ سے خودکو بڑا اور لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے انجام کو یاد رکھے کہ اس نے تکبر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے افضل قرار دیا تھا،اس تکبر کے نتیجے میں اسے قیامت تک کی ذلت و رسوائی ملی اور وہ جہنم کا حقدار ٹھہرا۔

دوسرا سبب: عبادت و ریاضت

 بندہ کثیر عبادت و ریاضت کے سبب بھی اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے میں اگر بہت زیادہ عبادت کرتا ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ بندہ خود کو یوں ڈرائے کہ کیا خبر یہ عبادت  میرے تکبر کے سبب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کے بجائے مردود ہو جائے، اور جنت کے بجائے جہنم میں داخلے کا سبب بن جائے۔

تیسرا سبب: مال ودولت

جس کے پاس کار، بنگلہ، بینک بیلنس اور نوکر چاکر ہوں وہ بھی بسا اوقات تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ تکبر امیروں کو اپنی دولت، تاجروں کو اپنے سامان تجارت، دیہاتیوں کو اپنی زمینوں پر ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کا یقین رکھے، کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے جانا پڑے گا، کفن میں تھیلی ہوتی ہے نہ قبر میں تجوری، پھر قبر کو نیکیوں کا نور روشن کرے گا نہ کہ سونے چاندی اور مال ودولت کی چمک دمک۔ لہٰذا اس فانی اور ساتھ چھوڑ جانے والی شے کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہو کر اپنے مالک خالق کو کیوں ناراض کیا جائے؟

چوتھا سبب: حسب و نسب 

جس آدمی کا نسب اچھا ہوتا ہے وہ اپنے آبائو اجداد کے بل بوتے پر اکڑتا اور دوسرے جو اس سے کمتر نسب والے ہوتے ہیں ان کو حقیر جانتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنا یہ ذہن بنائے کہ دوسروں کے کارناموں پر گھمنڈ کرنا عقلمندی نہیں بلکہ جہالت ہے اور آبائو اجداد پر فخر کرنے والوں کیلئے جہنم کی وعید ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اپنے فوت شدہ آبائو اجداد پر فخر کرنے والی قوموں کو باز آجانا چاہیے کیونکہ وہی جہنم کا کوئلہ ہیں‘‘( سنن الترمذی: 3981)

پانچواں سبب : حسن و جمال

 بندہ اپنے ظاہری حسن و جمال کے سبب تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ اکثر عورتوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ابتدا و انتہاء پر غور کرے کہ میرا آغاز نطفہ اور اختتام سڑا ہوا مردہ ہونا ہے، نیز عمر کے ہر دور میں حسن یکساں نہیں رہتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بھی ماند پڑجاتاہے، یہ بھی پیش نظر رکھے کہ میرے اسی حسن وجمال والے بدن سے روزانہ پیشاب، پاخانہ، پسینہ، میل کچیل اور دیگر ناپسندیدہ مواد نکلتا ہے، تو کیا اِن چیزوں کے ہوتے ہوئے فقط ظاہری حسن وجمال پر تکبر کرنا زیب نہیں دیتا ہے۔

چھٹا سبب: طاقت وقوت 

 قوت و طاقت کے سبب جس کا قد کاٹھ اچھا ہو،کھاتا پیتا اور سینہ چوڑا ہو تو وہ بسا اوقات کمزور جسم والے کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا یوں محاسبہ کرے کہ طاقت و قوت اور پھرتی تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے بلکہ انسان سے زیادہ ہوتی ہے تو پھر اپنے اندر اور جانوروں میں مشترکہ صفت پر تکبر کرنا کیسا؟ حالانکہ ہمارے جسم کی طاقت وقوت کا تو یہ حال ہے کہ تھوڑا سا بیمار ہوجائیں تو طاقت کا سارا نشہ اتر جاتا ہے، معمولی سی گرمی برداشت نہیں ہوتی۔ اگر خدانخواستہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروز قیامت اللہ تعالیٰ ناراض ہوگیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا گیا تو اْسے کیسے برداشت کریں گے؟(احیاء علوم الدین، ج3، ص 1033 تا1043)

لہٰذاانسان کوچاہیے کہ وہ ہرقسم کے تکبرسے بچنے کی کوشش کرے۔ چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کوپسِ پشت ڈالنے کا تکبر ہو یا نبی کریمﷺ کی تعلیمات کا اعتقادی و عملی انکارکا تکبر ہو یا انسانوں کے مقابلہ میں علم، عبادت و ریاضت، مال و دولت، حسب و نسب، حسن و جمال یا طاقت و قوت کا تکبر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تکبرسے بچنے اور عاجزی وانکساری اختیارکرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آخرت کی زندگی!

قرآن کریم اﷲجل شانہ کی آخری کتاب ہے جو سراپا حق ہے زندگی موت مابعد الموت، زندگی سے پہلے کیا تھا۔ اس زندگی کے بعد کیا ہوگا؟ تمام حقائق کو بڑے واضح آسان اور دل نشیںانداز میں بیان فرماتی ہے، حتمی اور یقینی بات کرتی ہے، جس میں ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں۔

اسلام میں یتیموں کے حقوق

’’یتیم‘‘ اُس نابالغ بچے یا بچی کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پرسے اُس کے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو۔ اسلام نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم بچوں کو اپنی آغوش محبت میں لے کر اُن سے پیار کرنا، اُن کو والد کی طرف سے میراث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا، اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنا، سن شعور کو پہنچنے کے بعد اُن کے مال و اسباب کا اُن کے حوالے کرنا اور انہیں اِس کا مالک بنانا اور بالغ ہونے کے بعد اُن کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی اچھی جگہ اُن کا رشتہ طے کرنا، اسلام کی وہ زرّیں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اُس نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ ؓ

سید الشہداء سیدنا حضرت امیر حمزہ اسلام کے ان جانثاروں میں سے ہیں جن کی خدمات مینارہ نور اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ جب تک آپؓ حیات رہے آپؓ نے عملی طور پر سرکاردوعالمﷺ کے نائب کا کردار ادا فرمایا۔ غزوہ احد وبدر میں آپؓ اسلامی لشکر کے سالار رہے۔ بعثت کے چھٹے سال سے لے کر 3ہجری تک،اعلان اسلام سے لے کر غزوہ احد میں سید الشہداء کا بلند مقام ملنے تک آپؓ کی پوری حیات مستعار حفاظت مصطفی کریم ﷺ میں بسر ہوئی۔

مسائل اور ان کا حل

باجماعت نماز میں امام کی قرات میں مختلف آیات کا جواب دینے کی شرعی حیثیت سوال :امام صاحب اگرباجماعت نمازمیں اگرایسی آیات تلاوت کریں جس میں دعا کا ذکر ہویااللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان ہویاجس میں عذاب الٰہی کا ذکرہواورمقتدی دعاکی صورت میں ’’آمین، سبحان اللہ، یا اعوذ باللہ‘‘ دل میں کہے ،کیاایساکرناجائزہے؟

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔