فلسفئہ مغرب اسپائی نواز: فلسفے کا شہزادہ

تحریر : ظفر سپل


اسپائی نوزا 24نومبر1632ء کو ایمسٹرڈیم میں پیدا ہوا۔ ایک مختصر سی زندگی کا پروانہ ہاتھ میں لے کر آنے والے فلسفیوں کے شہزادے نے ساری عمر ایک صوفی، درویش اور ولی کے طور پر گزاری۔وہ اپنے درون میں ایک گہرا مذہبی آدمی تھا، مگر ظاہراً کسی معروف عقیدے کا پیروکار نہ ہونے کی پاداش میں تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اسے شدید مذہبی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی تحریروں پر پابندی لگائی گئی، انہیں نذر آتش کیا گیا اور بے حرمتی کی گئی۔ اس کے ساتھ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ وہ سچائی تک عقیدے کی طاقت کی بجائے اپنے ریاضیاتی طریقہ کار کے ذریعے پہنچنا چاہتا تھا۔

تاجر باپ کے بیٹے کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی بجائے وہ اپنا زیادہ وقت ہیکل میں گزارتا تھا۔ اس وقت کے یہودی تعلیمی دستور کے مطابق وہ گھنٹوں تو رات اور تالمود (یا تلمود) کے مطالعہ میں گزارتا اور انتہائی بور کر دینے والے اس تعلیمی نصاب سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتا۔ سکول کے اوقات کے بعد وہ اپنا وقت لاطینی اور قدیم یونانی زبان سیکھنے میں گزارتا تھا۔ گھر میں تو ظاہر ہے یہ لوگ پرتگالی زبان بولتے تھے لیکن اسپائی نوزا نے دلندیزی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان بھی سیکھی۔ لاطینی زبان سیکھنے کا شوق اسے بیس برس کی عمر میں، 1653ء میں فرانسس وان ڈن اینڈن کے قریب لے آیا۔ عیسائی وان ڈن اینڈن شاعر، ڈرامہ نگار تھا اس نے ہی اسپائی نوزا کو فلسفے کے متکلمانہ نظام، جدید فلسفے اور خصوصاً ڈیکارٹ سے متعارف کروایا۔

اب جب اسپائی نوزا نے لاطینی زبان پر دسترس حاصل کر لی تو پھر اس فکری میراث تک پہنچنا بہت آسان تھا جو ڈیموکری ٹس ، سقراط، افلاطون، ارسطو اور ایپی کیورس کی تالیفات اور زینو کی رواقیت کی صورت میں موجود تھی۔ اس نے موسیٰ بن میمون ابن جرسون اور ذرا غیر معروف فلسفی چسدائی کرس کاس کے خیالات تک رسائی حاصل کی۔

اسپائی نوزا نے ساری زندگی ایک درویش اور ولی کے طور پر گزاری اور یہ کہنا درست ہوگا کہ ماڈرن دنیا میں اسپائی نوزا کے علاوہ آج تک کسی نے فلسفیوں والی آئیڈیل زندگی نہیں گزاری۔ وہ اپنی ساری زندگی حقیر دنیا سے لاتعلق رہا۔ صرف اپنے آپ سے جڑا ہوا، اکیلا اور اپنے خیالات میں گم۔ کبھی کبھی تو وہ اپنے کمرے سے تین تین ماہ تک باہر نہ نکلتا۔ یہ سنگل کمرہ جہاں وہ پڑھتا لکھتا، عدسے رگڑتا اور تھکتا تو سو جاتا۔ وہ کبھی کبھی کہتا ’’میں نے اپنی زندگی اس سانپ کی طرح گزاری ہے جس کی دم اس کے منہ میں ہو‘‘۔ اس کے ایک سوانح نگار کیلیرس کے مطابق’’وہ غربت کے باوجود اپنے لباس کے بارے میں محتاط تھا، مگر یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ اس معاملے میں نمود و نمائش سے ماورا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب حکومت کا ایک نہایت اہم نمائندہ اس سے ملاقات کیلئے آیا تو وہ اس وقت ایک معمولی سا صبح کا گائون پہن کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس پر رکن موصوف نے ناگواری کا مظاہرہ کیا اور اسے ایک قیمتی لبادہ پیش کیا مگر اسپائی نوزا نے کہا: ’’ اچھا لباس پہن کر انسان کی قدرو قیمت تو نہ بڑھ جائے گی اور جس چیز کی کوئی قدرو قیمت ہی نہ ہو، اس پر قیمتی غلاف چڑھانا نامعقولیت ہے‘‘۔

اسپائی نوزا اب 43برس کا ہو چلا تھا۔ دنوں کو عدسوں کی رگڑائی کی مشقت کا کام تھا اور سردیوں کی لمبی سیاہ راتوں میں اس کے اپنے خیالات کی آندھی۔ عدسوں کے شیشے کے باریک براوے نے اس کے پھیپھڑوں کو چھلنی کر دیا تھا اور ظاہر ہے اسے ٹی بی ہو گئی تھی۔ سردیاں ذرا زیادہ  بڑھیں تو اس کی صحت مزید بگڑ گئی اور وہ بستر مرگ پر دراز ہو گیا۔

21فروری 1677ء اتوار کا دن،اسپائی نوزا کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اس وقت اس کا مالک مکان چرچ گیا ہوا تھا اور اس کا دوست ڈاکٹر میئر اس کے پاس تھا۔ ظاہر ہے، اسپائی نوزا نے کچھ زیادہ ورثہ نہیں چھوڑا ہو گا، مگر کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں عد سے تھے جو ڈاکٹر میئراس کے مرنے کے فوراً بعد اٹھا کر رفوچکر ہو گیا۔ بعد میں اس نے یہ عد سے قدیم کلاسیکی اشیاء کے ڈیلر کارمیلیس کے ہاتھوں بیچ کر کافی رقم بنائی۔ اسپائی نوزا نے 160کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی چھوڑی۔ چمڑے کی جلد والی یہ کتابیں جو پڑھنے کے علاوہ آرائش کیلئے بھی استعمال ہو سکتی تھیں، ان دنوں کے حساب سے کم نہیں تھیں۔ اسپائی نوزا نے اپنا کافی غیر مطبوعہ کام بھی چھوڑا تھا جس میں اس کی شاہکار کتاب ’’اخلاقیات‘‘ بھی شامل تھی۔ یہ کتاب اس کی وفات کے ایک سال بعد یا اسی سال مؤلف کے نام کے بغیر شائع ہوئی اور اس کے فلسفی دوستوں میں بانٹ دی گئی۔اسپائی نوزا کی زندگی میں اس کی صرف دو کتابیں شائع ہوئیں، ایک اس کے نام کے ساتھ اور دوسری اس کے نام کے بغیر۔

اپنی پہلی کتاب ’’ڈیکارٹ کے فلسفے کے اصول‘‘ کو اسپائی نوزا نے اپنے تمام فلسفیانہ اور سائنسی نظریات سے بھر دیا ہے۔ اس کتاب میں اس نے ڈیکارٹ کے نظریات کو جیو میٹری سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کی دوسری کتاب ’’مذہب اور مملکت پر رسالہ‘‘ ایک متنازعہ کتاب ہے۔

اسپائی نوزا کی شاہکار کتاب ’’اخلاقیات‘‘ پڑھنے میں مشکل اور پیچیدہ کتاب ہے۔ نظریات کو نثرمسلسل میں بیان کرنے کی بجائے اسے جیو میٹری کی طرز پر مندرجہ ذیل ٹکڑوں میں بانٹ کر بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے:(1)تعریف، (2)اصول، (3)دعویٰ، (4)ثبوت،گویا یہ فلسفے کی نہیں، جیومیٹری اور اقلیدس کی کوئی کتاب ہے۔ دراصل ڈیکارٹ کے زیر اثر اسپائی نوزا کا خیال ہے کہ فلسفے میں قطعیت اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا اظہار ریاضیاتی اصولوں پر مبنی نہ ہو۔

اسپائی نوزا کی کتاب ’’سیاسیات‘‘ ایک نامکمل کتاب ہے جو وہ اپنے آخری دنوں میں تحریر کر رہا تھا۔ اس کتاب میں اس نے انگریز فلسفی ہوبز کے ردعمل میں اپنے سیاسی خیالات پیش کئے ہیں۔ وہ کہتا ہے ’’جمہوریت ہی حکومت کی مکمل ترین شکل ہے۔ اس طرز حکومت میں فرد اپنے اعمال اور افعال کا اختیار حکومت کے سپرد کردیتا ہے لیکن اپنی رائے اور فیصلے کا حق اپنے پاس رکھتا ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے ’’جمہوریت میں صرف ایک عیب ہے اور وہ یہ کہ ادنیٰ درجے کے لوگ برسراقتدار آ جاتے ہیں اور اس کے مضمرات سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ عہدے اپنے فن میں تربیت یافتہ لوگوں کے سپرد کئے جائیں‘‘۔

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔