گھریلو زندگی گزارنے کے آداب

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرافی


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، ہمارے بڑوں کی عزت و تو قیر نہ کرے، نیکی اور بھلائی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے‘‘(مشکوٰۃ)۔’’عائلہ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خاندان، کنبہ، گھرانہ، اس لیے گھریلو زندگی کو عائلی زندگی کہا جاتا ہے اور اسلام نے گھریلو زندگی کے جو اصول و آداب سکھائے ہیں وہ اسلام کا عائلی نظام ہے۔

 

عائلی زندگی یا گھریلو زندگی سے مراد شوہر اور بیوی کی زندگی ہے اور جب ان کے ہاں اولاد ہو تو یہی شوہر باپ اور بیوی ماں کہلاتی ہے تو اب اس گھریلو زندگی کے افراد ماں، باپ اور اولاد ہیں۔گھریلو زندگی اختیار کر کے مل جل کر زندگی بسر کرنا اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں شامل فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے انسان کو گھریلو زندگی کے آداب سکھائے اور رسول اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے گھریلو زندگی کا ایک مکمل نظام عطا فرمایا ہے اور گھریلو زندگی سے بچ کر تنہائی اختیار کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔

اسلام نے گھریلو زندگی کا جو نظام دیا ہے اس کا خاکہ یہ ہے کہ ایک طرف تو شوہر کے فرائض مقرر کئے جو بیوی کے حقوق ہیں اور دوسری طرف بیوی کے فرائض مقرر کیے جو شوہر کے حقوق ہیں۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا پابند بھی کیا۔ پھر جب زندگی کا یہ نظام اور آگے بڑھا تو اب یہ میاں بیوی، ماں باپ کہلائے اور ان کے سامنے اولاد ہے۔ اسلام نے ماں باپ کے کچھ فرائض مقرر کیے جو اولاد کے حقوق ہیں اور اولاد کے ذمہ کچھ فرائض مقرر کیے جو ماں باپ کے حقوق ہیں۔ ان تمام فرائض و حقوق کی ادائیگی کے ساتھ جو گھریلو زندگی کا ایک نظام سامنے آتا ہے وہ اسلام کا گھریلو نظام زندگی ہے۔

اسلام نے گھریلو زندگی کے مقاصد بھی واضح کیے کہ آخر زندگی کا یہ طرز کیوں اختیار کیا جائے چنانچہ گھریلو زندگی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نسل انسانی کی بقاء اور تحفظ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں مرد و عورت کے باہمی پاکیزہ تعلق کو ’’نساء کم حرث لکم‘‘ سے تعبیر فرمایا کہ یہ گھریلو زندگی نسل انسانی کی بقاء کا ذریعہ ہے۔

گھریلو زندگی کا دوسرا اور اہم مقصد تربیت اولاد ہے یہی تربیت اولاد کے دین اور دنیا سنوارنے کا سبب ہے اور ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں اپنے نیک بندوںکی یہ خوبی بتائی کہ وہ یہ دُعا مانگتے ہیں۔ ربناہب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین۔’’اے اللہ !ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘۔گھریلو زندگی کا تیسرا مقصد تحفظ عصمت ہے یعنی گھریلو زندگی کے ذریعے مرد و عورت فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔

گھریلو زندگی کا چوتھا مقصد راحت و سکون حاصل کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہی میں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون پا سکو‘‘(سورہ روم:21)

گھریلو زندگی کا پانچواں مقصد احساس ذمہ داری ہے کہ اسلام نے مرد و عورت کے لیے کچھ فرائض مقرر کیے، ارشاد نبویﷺ ہے: ’’آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور جو لوگ اس کے زیر نگرانی ہیں ان کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا‘‘۔

اب انسان سوچ رہا ہے اور فکر مند ہے کہ آخر اسے گھریلو زندگی کے یہ اہم مقاصد کیوں حاصل نہیں ہو رہے۔ یہ انسان اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلب گار ہے، گھر میں سکون کا متلاشی ہے، محبت و خلوص کیلئے ترس رہا ہے، باہمی احترام و اعتماد کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اگر ان تمام باتوں کی مجموعی وجہ تلاش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس انسان کی زندگی اسلام کے عطا کردہ گھریلو نظام زندگی سے دور ہو رہی ہے اور یہ انسان گھریلو زندگی میں مغربی تہذیب کی نقالی میں مصروف ہو رہا ہے۔

دراصل ہر نظام کچھ نظریات پر مبنی ہوتا ہے، موجودہ مغربی تہذیب درحقیقت رہبانیت یعنی دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر معاشرہ سے کٹ کر زندگی گزارنے کے رد عمل میں وجود میں آئی ہے۔ اب اس کی بنیاد ہی انکار خدا ہے۔ اس مغربی تہذیب کی بنیاد پر انسان کو ہر معاملے میں آزادی دی جائے۔ اپنی سوچ، اپنے عمل و کردار اور اپنی پسند و ناپسند میںمذہب کی طرف سے کوئی پابندی نہ ہو۔ ہر شخص اپنی خواہشات کو پورا کر کے خود کو مطمئن کرنے میں مکمل آزاد ہو۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اسلام نے جو باہمی محبت و سکون، اعتماد اور تحفظ عصمت کا جورشتہ قائم کیا تھا وہ اختیارات اور آزادی کی نذر ہو گیا۔ گھریلو زندگی کے یہ دو اہم ستون یعنی شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بجائے اپنی ضروریات، اپنی خواہشات اور اپنے وقتی مسائل کے پیچھے دوڑنے لگے جس کے نتیجہ میں فیملی لائف کا مغربی تہذیب میں تصور ختم ہو گیا۔

جب اولاد ہوتی ہے تو اگر ماں باپ دیندار، بااخلاق، زبان و عمل کے پاکیزہ ہوں تو یہی صفات اولاد میں منتقل ہو جاتی ہیں اور اولاد بھی فرمانبردار، باکردار، بااخلاق اور محبت و احترام کرنے والی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اسلام نے یہ سکھایا ہے جیسا کہ سنن ترمذی میں ارشاد نبویﷺ منقول ہے کہ ’’ماں باپ کے چہرے کی طرف ایک محبت بھری نظر دیکھنے سے ایک حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے‘‘۔ اسلام نے بزرگوں کو یہ سکھایا کہ چھوٹوں پر شفقت کرو اور چھوٹوں کو یہ سکھایا کہ بزرگوں کا احترام کرو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے گھریلو نظام زندگی میں جنریشن گیپ یعنی دو نسلوں کے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہوتا۔مغربی تہذیب کے گھریلو نظام زندگی میں جنریشن گیپ اس قدر پیدا ہو گیا ہے کہ وہاں ان ممالک میں اولاد نے اپنے بزرگوں کو ’’اولڈ ہومز‘‘ میں پہنچا دیا ہے۔ ماں باپ نے تربیت کی خاطر سختی کی تو بچے نے پولیس کو فون کیا اور باپ کو ’’اولڈ ہائوس‘‘ پہنچا دیا۔ مغربی تہذیب میں وہاں کے معاشرے نے بزرگوں کے لیے الگ جگہ بنا دی ہے۔

ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ آخر اسلام کے ایک مکمل گھریلو نظام زندگی سے رخ موڑ کر مغربی تہذیب کی نقالی کیوں کر آتی ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے ذہن میں مغربی تہذیب کی طرف سے یہ بات بٹھا دی جائے کہ یہ دین اسلام قدیم زمانہ کا مذہب ہے اب یہ قابل عمل نہیں اور خود مسلمانوں کے اندر اسلامی نظام زندگی کے بارے میں تعارف نہ ہو تو پھر ایک انسان کے اندر اپنے نظام کے بارے میں احساس کمتری پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ دوسرے نظام کی نقالی کرتا ہے اوراسی نظام زندگی کے مطابق اپنی زندگی کا معیار بنا لیتا ہے۔

آج ہم جب گھریلو زندگی میں معاشی پریشانیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں اور دوسرے اسباب کے ساتھ ساتھ جو شخص مغربی تہذیب کی نقالی میں اپنے ذہن میں ایک معیار زندگی بنا لیتا ہے، پھر اسی معیار پر بیوی بچوں کو چلانا چاہتا ہے لیکن اتنے وسائل نہیں ہوتے تو پھر وہ گھریلو طور پر انتہائی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسی گھریلو زندگی میں گھر کے ہر فرد کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی خواہش کو پورا کرنا، ناشکری، بے صبری، حرص و لالچ، بے حسی اور خود غرضی اس کے اندر آجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس گھریلو نظام میں نہ آپس کا احترام ہو گا، نہ محبت ہو گی، نہ گھریلو زندگی میں سکون ہو گا نہ اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی۔

جب شوہر اور بیوی میں اور ان کی اولاد میں اسلام کے نظام زندگی کے مطابق صبر و شکر، قناعت و ایثار، احسان و خدمت اور باہمی احترام و محبت کی فضا موجود ہو تو پھر انسان اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا کہ اسلامی نظام زندگی سے جو قرار و سکون حاصل ہوتا ہے وہ دولت کے انبار سے میسر نہیں ہوتا۔اللہ رب العزت ہمیں اپنے گھروں میں اسلام کے گھریلو نظام زندگی کو رائج کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔