مغرب میں جمالیاتی فکر کا ارتقا

تحریر : پروفیسر صابر علی


حقیقت جمال کے فلسفیانہ نظریات یا فنون لطیفہ کے بارے میں عام نظریات اور تفصیلی جائزے جو اٹھارہویں صدی سے دور حاضر تک مغرب کے مطالعہ جمالیات میں مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔

 اس موضوع پر مغربی مصنفین کی اکثر تحریروں میں ایک وسیع تناظر اور جامعیت کا رجحان ملتا ہے جو مختلف فنون لطیفہ(مصوری، بت سازی، فن تعمیر، موسیقی، رقص، اداکاری اور شعر و ادب) کے تقابلی مطالعہ اور تجزیہ کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس اردو میں اس موضوع پر لکھنے والوں کی اکثریت مغربی افکار کی خوشہ چینی پر قانع نظر آتی ہے اور اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک جمالیات کے مطالعہ کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مغرب سے مستعار افکار و نظریات کو اپنے فنون و ادبیات پر منطبق کرکے چند عمومی دعوئوں کیلئے بنیاد فراہم کردی جائے۔

مغربی زبانوں میں فلسفہ جمالیات اور اس تاریخ و تنقید پر کتابوں کا ایک وافر ذخیرہ دستیاب ہے لیکن اس کی حیثیت ایک مستقل موضوع مطالعہ کی ہے۔ ادبیات کے (خصوصاً اردو ادب) مطالعہ میں اس سرمایہ سے جزوی طور پر استفادہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی ادبیات پر مغرب کے نظریات کا اطلاق نہ ضروری ہے اور نہ ممکن العمل ہے۔ اردو میں اس نوع کی کوششیں جو اب تک سامنے آئی ہیں ان کی حیثیت جمالیات کے سرسری تعارف سے زیادہ نہیں ہے۔ اور اکثر صورتوں میں یہ تعارف بھی ناقص سطحی اور غیر مربوط نظر آتا ہے۔

ہماری نظریاتی تنقید کی کوتاہ دامنی کا بڑا سبب یہی ہے کہ ناقد اپنے مخصوص اور پسندیدہ شعبہ فن کی حدود میں محصور رہتا ہے اور دوسرے شعبہ ہائے فن سے اس کے ربط و تعلق کے بارے میں کچھ کہتا بھی ہے تو وہ ذاتی مطالعہ، مشاہدہ اور تجزیہ پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اخذ و استفادہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کا اصلی سبب تو یہی ہے کہ ناقد عموماً ''یک فنہ‘‘ ہوتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہماری زبان میں شعر و ادب کے علاوہ دیگر فنون کے اسرار و غواض ''شعریات‘‘ کی طرح شرح وبسط کے ساتھ ساتھ ضبط تحریر میں نہیں آ سکے۔ اس امر کی واضح شہادت ہماری ثقافتی تاریخ میں قدم قدم پر ملتی ہے کہ شعر و ادب اور موسیقی کے علاوہ دیگر فنون لطیفہ کو ہماری زندگی میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو ان کو مغرب میں کلاسیکی عہد سے آج تک حاصل رہا ہے۔ اسی لئے ہمارے یہاں ان فنون کا مطالعہ بھی گہری نظر کے ساتھ نہیں کیا گیا جو شعر و ادب کے مطالعہ میں پایا جاتا ہے۔

نفس شاعری کے بارے میں بھی تحقیق و تجسس کا رجحان حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے پہلے نظر نہیں آتا۔ ان کے معاصروں میں شبلی اورآزاد کے نام سامنے آتے ہیں، جنہوں نے اس موضوع پر توجہ کی یا بعد کے دور میں ان متعدد معلمین ادب کے تصانیف ملتی ہیں جنہوں نے تدریسی ضروریات کے تحت شعر و ادب پر قلم اٹھایا۔ ادبی رسائل کے مضامین اور مقالات میں بھی کہیں کہیں نظریاتی تنقید کے بارے میں خیال انگیز اشارات ملتے ہیں لیکن اردو ناقدین میں اکثریت ایسے لوگوں کی نظر آتی ہے جنہوں نے انگریزی ادب اور تنقید کے مطالعہ کی راہ سے اردو ادب کی روح تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تنقید میں جا بجا گہری بصیرت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ مثلاً فراق، یوسف حسین، رشید احمد صدیقی، خواجہ احمد فاروقی، نیاز فتح پوری وغیرہ کے یہاں اس جوہری تنقید کا سراغ ملتا ہے جس کا حوالہ پروفیسر ٹل یارڈ نے چارلس لیمب کے تنقیدی تحریروں کے تعارف میں رہا ہے۔ اس کے برعکس ہماری جدید تنقید میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں جہاں مغرب سے مستعار نظریات و اصطلاحات کو زبردستی اردو کے سرمنڈھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے مزاج، تاریخی روابط ، تہذیبی میراث اور روایتی پس منظر کو یکسر نظر انداز کرکے ایسے فیصلے صادر کئے گئے ہیں جن کی مضحکہ خیزی عالم آشکار ہے۔

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ شعر و ادب یا دوسرے فنون لطیفہ کے مطالعہ میں اولین حیثیت جمالیاتی قدر کے تعین ہی کو حاصل ہوتی ہے اور اس حقیقت کے اعتراف میں کسی معذرت یا تاویل کی ضرورت پیش نہیں آنا چاہئے۔ جمالیاتی قدروں کے مطالعہ کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اس کے جواز کے طور پر کسی مخصوص نظریہ یا دبستان فکر کی سند تلاش کی جائے۔ جمالیاتی افکار کے عہد بعہد ارتقا اور مختلف ادوار کے ان غالب رجحانات سے عمومی آگاہی کافی ہے جو ہمارے زمانے میں فنون کی پرکھ اور تعین قدر میں کار فرما رہے ہیں اور بالواسطہ فنی تنقید کو متاثر کرتے رہے ہیں۔

اس ضمن میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ فن کار کو اپنے عہد کے فلسفے اور نظام ہائے فکر سے براہ راست واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جو کچھ اپنی تخلیقات میں ادا یا پیش کرنا چاہتا ہے وہ اس چیز سے کلیتاً بے تعلق نہیں رہ سکتا جو اس کے با شعور ناظر، سامع یا قاری اس کی تخلیقات میں تلاش کرتے ہیں۔ فن کار اور اس کے مخاطبین کے درمیان اس ذہنی یا روحانی رشتے کا ادراک فن پاروں کے معانی اور اقدار کے تعین کے سلسلہ میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ ذہنی یا روحانی تجربہ جو کسی پارہ فن کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور جانے پہچانے وسائل کی وساطت سے ناظرین یا سامع تک پہنچتا ہے۔ چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک جمالیاتی تجربہ ہوتا ہے اور حسی ، عقلی یا ارادی تجربات سے ممیز یا آزاد ہوتا ہے اس لئے اس میں شریک ہونے کیلئے فنکار اور اس کے مخاطبین کے درمیان یہ جمالیاتی تجربہ کا اشتراک ایک بنیادی قدر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ ہر تجربہ کا تعلق انسان کی مجموعی شخصیت سے ہوتا ہے۔ اس لئے اس کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اور ایک تجربہ میں دوسرے مماثل تجربات کی شمولیت یا تعاون سے انکار ممکن نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

رشتوں کا ادب واحترام،نبیﷺ کی سنت

’’ اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘‘(سورۃ النساء) صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے کے طور پر کرے، صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے‘‘ (صحیح بخاری)

برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

منافقانہ عادات سے بچیں

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے اور وہ اسی حال میں رہے گا، جب تک کہ اس عادت کو چھوڑ نہ دے۔

مسائل اور ان کا حل

بیماری کی صورت میں نمازیں چھوٹ جائیں تو کیا حکم ہے ؟ سوال : بیماری کی صورت میں نمازیں قضاء ہوجائیں تو کیا حکم ہے ؟(محمد مہتاب) جواب :ان کی قضاء شرعاً لازم ہے۔

9مئی سے متعلق اعتراف کتنا مہنگا پڑے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنی مشکلات میں خود اضافہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ۔ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے اور پی ٹی آئی قیادت پر آرٹیکل 6 لگانے کا اعلان کیا گیا تو بانی پی ٹی آئی نے بیان داغ کر حکومتی پلان کیلئے سیاست کی حد تک آسانی پیدا کردی مگر سیاسی جماعت پر پابندی موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے آسان کام نہیں۔

پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔