م کے روبرو

تحریر : سجاد جہانیہ


ایک زمانہ تھا جب اخبار نویس صرف واقعات ہی رپورٹ نہیں کیا کرتے تھے بلکہ صاحب اسلوب انشاپرداز بھی ہوا کرتے تھے۔ زبان و بیان کا چٹخارہ اور عبارت آرائی، اخباری تحریروں کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔ اب خال خال کوئی صحافی نظر آتا ہے جس کی تحریر میں ادیبانہ شان ہو، جیسے وجاہت مسعود، یا پھر گئے وقتوں کی کوئی کوئی نشانی باقی ہے۔ جناب محمود شام بھی انہی بھلے وقتوں کی نشانی ہیں جب صحافی حضرات صاحب مطالعہ و مشاہدہ ہونے کے ساتھ ادیب بھی ہوا کرتے تھے۔

گزشتہ اتوار کی سہ پہر ایک پیکٹ موصول ہوا۔ کھولا توایک ضخیم کتاب تھی جس کا عنوان ’’روبرو‘‘ تھا۔ یہ کتاب ان انٹرویوز پر مشتمل ہے جو جناب محمود شام نے مختلف سیاسی رہنماوں سے کئے۔ کتاب میں کل ترپن (53)انٹرویوز ہیں جو632 صفحات پر محیط ہیں۔ ان میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کے ایک سے زائد انٹرویو کتاب میں شامل ہیں۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے چھ، ممتاز بھٹو کے تین، بیگم نصرت بھٹو، کوثر نیازی، غلام مصطفٰی جتوئی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی کے دو دو انٹرویوز شامل ہیں جو مختلف اوقات میں کئے گئے۔

کتاب ہاتھ میں آئی تو یونہی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسا کھویا کہ سہہ پہر، شام میں ڈھل گئی۔ مغرب کے موذن نے خالق کی کبریائی کی تان اٹھائی تو پچیس صفحات پرمشتمل مقدمہ اور پانچ انٹرویوز پڑھ چکا تھا۔ ’’پیاس تیس سال کی‘‘ کے عنوان سے ایک جامع اور پرمغز مقدمہ  محمود شام نے تحریر کیا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 1999 ء تک کی پاکستانی تاریخ اس مقدمے میں سمو دی گئی ہے۔ بین السطور وہ دکھ اور وہ ٹیسیںہیں جو ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ 1959 ء سے محمود شام ایک سوال لئے پھر رہے ہیں جس کا جواب انہیں ابھی تک نہیں ملا۔ سوال ہے ’’ہم پاکستانی قوم کب بنیں گے‘‘۔

’’روبرو‘‘ میں جو53 انٹرویوز شامل ہیں یہ 1969ء سے 1977 ء کے دوران مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں سے کئے گئے۔ کچھ طویل ہیں اور کچھ بہت ہی مختصر۔ تاہم یہ صرف انٹرویوز نہیں ہیں۔ ان میں وہ زمانہ سانس لیتا ہے جس میں یہ انٹرویوز کئے گئے۔ عصری سیاسی و سماجی حالات اور پھر بیان اپنا۔ کیا دواں دواں اور جدا قسم کا اسلوب ہے۔ 

’’فضاؤں میں بسی دھان کی خوشبو دل میں اترے جا رہی ہے۔ تنگائیل پچاس میل دور رہ گیا ہے۔ سرسبز کھیتوں اور ہرے پانیوں میں گھری اردو غزل کے محبوب کی تنگ کمر کی طرح بل کھاتی سڑک پر، مشرقی پاکستان میں اردو کے شاعر اور فلمساز سروربارہ بنکوی کی شیورلیٹ تیز تیز دوڑ رہی ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ پانی ہے یا سونا اگلتے کھیت اور دریا،اپنے دامن میں انسانوں کو بسائے جھونپڑیاں۔ مغربی پاکستان کی طرح ایک چپہ بھی غیر آباد نہیں ہے۔ کھیتوں کی آغوش بھری ہوئی ہے مگر انسانوں کے شکم خالی ہیں۔ خالی آنکھوں، بھرے تالابوں، بجھے چہروں، چمکتے کھیتوں، ننگے پیروں، گھنے پیڑوں، سوکھے جسموں اور بھرے خوشوں میں سے ہوتے ہم سنتوش کی طرح رواں ہیں۔ تنگائیل آ گیا ہے۔ کاگماری چار میل ہے۔  جہاں بیل گاڑیوں کے پہیوں کے نشانات ثبت ہیں۔ یہیں سے امریکہ برطانیہ کے کتنے رپورٹر گزرے ہیں۔ گورنر احسن بھی اسی ناہموار راہ سے آئے تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے ’’روبرو‘‘ ایک حوالے کی کتاب ہے جس میں 1969 ء سے 1977ء کی سیاسی تاریخ جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔کتاب میں کہیں ذکر تو نہیں تاہم یہ کئی جلدوں پر مشتمل کسی دستاویز کی ایک جلد لگتی ہے۔ سرورق پر تحریر ہے ’’محمود شام کے سیاسی رہ نماؤں سے 50 سال کے دوران کئے گئے انٹرویوز کا انتخاب‘‘ جبکہ کتاب میں 1969 ء تا 1977 ء یعنی نوسال کے دوران کئے گئے انٹرویوز شامل ہیں۔ مقدمہ ’’پیاس 30 سال کی ‘‘ کی بھی 1999ء کا لکھا ہوا ہے جب نئی صدی وقت کے کواڑوں پر دستک دے رہی ہے۔ شروع میں دو صفحات کا مختصر تازہ دیباچہ ’’اب پیاس 55 سال کی‘‘ بھی شامل ہے۔ اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں کہ باقی اکیس برسوں کے انٹرویوز کس جلد میں شامل ہیں۔

اب آخر میں ذکر دونوں مقدموں میں کئے جانے والے محمود شام کے ایک گلے کا۔ صفحہ 30 پر لکھتے ہیں ’’1980 ء کی دہائی یعنی جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے بعد یہ انحطاط آتا ہے کہ اب رہنماؤں میں تاریخ، فلسفے، اخلاقیات، سیاسیات کا مطالعہ کرنے یا کتابوں سے تعلق رکھنے والی عادتیں کم ہوتی گئیں۔ زیادہ تر ایسی قیادتیں سامنے آ رہی تھیں جو صرف اخبارات کے صفحات پر گزارا کرنے لگے تھے‘‘۔

صفحہ نمبر 6 پر ’’اب پیاس 55 سال کی‘‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں ’’گزشتہ صدی والے لیڈروں جنرلوں اور پروفیسروں سے بات کرنے سے کچھ مغز حاصل ہوتا تھا۔ اب والے اوّل تو سنجیدہ گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھ بھی جائیں تو نئے ماڈل کی کاروں، بنگلوں، دبئی، لندن، نیو یارک کے اپارٹمنٹوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ جب حکومتی اسامیاں خالی ہوتی ہیں تو ہمارے قائدین اس لاوارث دیس میں آ جاتے ہیں۔جب دولت کے یہ سرچشمے میسر نہیں ہوتے تو دبئی ، لندن، کیلی فورنیا کے گھروں میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے چلے جاتے ہیں‘‘۔جناب محمود شام کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر سیاسی رہ نما اب علم و آگہی اور کتاب سے بیگانہ ہو گئے ہیں تو اب صحافی بھی فلسفہ ، سیاسیات اور کتاب سے برگشتہ خاطر ہیں۔ اب ان کے ترجیحات بھی نئے ماڈل کی کاریں اور بنگلے کوٹھیاں ہی ہیں۔ 

 

 

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔