کرشن چندر:اردوافسانے کی قدآورشخصیت

تحریر : پروفیسر صابر علی


مارچ کا مہینہ آ ئے تو اردو کے ممتاز قدآور افسانہ نگار کرشن چندر کی یاد بھی آ تی ہے کہ وہ 1977ء میں اسی مہینے کی آ ٹھ تاریخ کودل کا دورہ پڑنے سے چل بسے تھے۔

کرشن چندر کے والد گوری شنکر ڈاکٹر تھے۔ 1918ء میں بحیثیت اسٹیٹ میڈیکل آفیسران کا تقرر ریاست پونچھ میں ہوا، ملازمت کے اختتام تک وہ وہیں رہے اور 1944ء میں جب ان کی ملازمت ختم ہوئی تو وہ دہلی چلے آئے۔ ڈاکٹر گوری شنکر نے خوشحال و باوقار زندگی گزاری۔ وہ بے حد شفیق ،کم گو اور سنجیدہ مزاج کے مالک تھے ان میں کسی قسم کا تعصب نہیں تھا۔ ان کی شریک حیات امردیوی پڑھی لکھی خاتون تھیں، بچوں کی تربیت و پرورش کی زیادہ ذمہ داری انہی کے کندھوں پر تھی۔ ڈاکٹر گوری شنکر بچوں کے اور گھریلو معاملات میں بہت کم دخل دیتے تھے۔

ڈاکٹر گوری شنکر کو فنون لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ اردو ادب اور شاعری سے بہت لگائو تھا۔ امر دیوی اس کے برخلاف ادب سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ قصے کہانیوں اور ناولوں کے مطالعے کو برا سمجھتی تھیں۔دہلی میں قیام کے سات برس بعد یعنی 1951ء میں ڈاکٹر گوری شنکر کا انتقال ہو گیا ۔امردیوی اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عرصہ تک زندہ رہیں اور 25جنوری 1969ء کو دہلی میں وفات پائی۔

کرشن چندر کی تاریخ اور مقام ولادت کے بارے میں مختلف بیانات ملتے ہیں تاہم زیادہ تر ناقدین کے مطابق وہ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ کرشن چندر نے آرام و آسائش کے ساتھ بچپن گزارا۔ ان کے والد ڈاکٹر تھے اس لئے اچھی پوزیشن کے مالک تھے ہر قسم کی سہولت انہیں حاصل تھی۔ خوشحال و آسودہ گھرانے کے لڑکوں کی طرح انہوں نے کھیل کود میں دلچسپی لی۔ کرکٹ کھیلا اور (Blind)اندھے بیٹسمین کہلائے اور ان کے بھائی مندر ناتھ فاسٹ بائولر، کھیل کود کے علاوہ ڈراموں میں کام کرنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ سنگیت میں بھی دلچسپی لی۔ ساتویں، آٹھویں جماعت میں تھے پینٹنگ کا بے حد شوق تھا لیکن خاطر خواہ ہمت افزائی نہیں ہوئی۔ نویں اور دسویں جماعت میں آئے تو ان کی دلچسپی ڈراموں میں ہوگئی۔کرشن چندر کی ماں ڈراموں اور اس کے اداکاروں کے سخت خلاف تھیں اور کرشن چندر اتنے ہی شوقین۔ جو ڈرامہ سب سے پہلے دیکھا وہ ’’خون ناحق‘‘ آغا حشر کا لکھا ہوا ہملیٹ کا چربہ تھا۔

ہائی سکول میں شاعری کا شوق چرایا۔ ایک بار اپنے استاد دینا ناتھ شوق کو اپنی شاعرانہ کاوش دکھائی۔ دینا ناتھ شوق نے بری طرح مذاق اڑایا اور سخت سست کہا۔اس طرح شاعری کا خیال ذہن سے نکل گیا۔پہلوانی کا بھی شوق پورا کیا۔ ان کے والد نے دونوں بھائیوں کو الگ الگ پہلوانوں کے نگرانی میں دائو پیچ سیکھنے کیلئے بھیجا۔ اپنے بھائی مندر ناتھ سے کشتی لڑی اور ہار گئے۔ اس کے بعد پہلوانی کا ارادہ ترک کر دیا۔ ناولوں کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ اپنی ماںسے چوری ناول پڑھا کرتے تھے۔ تیسری جماعت ہی میں ’’الف لیلیٰ‘‘ پڑھی۔

کرشن چندر نے ادبی زندگی کا آغاز طنزیہ و مزاحیہ مضمون ’’پروفیسر بلیکی‘‘ سے کیا۔ کرشن چندر لکھتے ہیں،  ’’یوں غور سے دیکھا جائے تو مجھے لیکھک بنانے کی ساری ذمہ داری ہمارے ہوم منسٹر شری گلزاری لال نندہ کے خاندان پر عائد ہوتی ہے۔ جن دنوں میں والد پونچھ میں تھے انہیں دنوں گلزاری لال نندہ کے والد بلاتی رام نندہ بھی پونچھ میں وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول میں پڑھاتے تھے۔سکول میں بلاتی رام مجھے اُدھیڑنے لگے تو چونکہ اب میں پرشین چھوڑ کر کوئی دوسری زبان اختیار نہیں کر سکتا تھا اس لئے میں نے ایک دن مجبور اور پریشان ہو کر اپنے پرشین ٹیچر کے خلاف ایک مضمون لکھ ڈالا۔ عنوان تھا ’’پروفیسر بلیکی‘‘۔ وہ مضمون میں نے دہلی میں چھینے والے ہفتہ وار اخبار ’’ریاست‘‘ کو بھیج دیا جو ان دنوں ریاستی نظام کی پٹائی میں مصروف تھا اور اس لئے ہر ریاست میں بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ میری بدقسمتی دیکھئے کہ وہ مضمون چند دنوں کے بعد من وعن اخبار میں چھپ گیا اور طنز آمیز خاکے میں میں نے پروفیسر بلیکی کی آڑ میں ماسٹر بلاتی رام کی شان میں گستاخیاں کی تھیں‘‘۔

اخبار ریاست کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون تھے۔ کرشن چندر ان دنوں دسویں جماعت میں تھے۔ اس طنزیہ مضمون کی اطلاع کرشن چندر کے والد کو گئی تو سخت ناراض ہوئے۔ پھر ایم اے تک کرشن چندر نے کچھ نہ لکھا۔کالج کے زمانے میں ایک بار یرقان کا شکار ہو گئے، صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’یرقان‘‘ لکھا۔ دوران تعلیم میں وہ زیادہ تر انگریزی میں لکھتے رہے۔ اپنے کالج کے میگزین سیکشن کے ایڈیٹر رہے اور ایم اے میں آئے تو شعبہ انگریزی کے رسالے کے چیف ایڈیٹر بن گئے۔ایل ایل بی کرنے کے بعد لاہور کے ایک گرلز کالج میں انگریزی پڑھانے لگے۔ اس کے بعد پروفیسر سنت سنگھ سکھوں کے ساتھ مل کر انگریزی کا ایک پرچہ ’’دی ناردرن ریویو‘‘ نکالنا شروع کیا۔ اس کے متعلق ہنس راج رہبر لکھتے ہیں: ’’یہ پرچی ادبی تھا، تخیل انارکسٹانہ۔ پالیسی غیر متعین، اس لئے ایک سال سے زیادہ نہ چل سکا، گو سمندر پار کے انگریزی اور امریکی ادبیوں نے بھی اس میں شرکت کی۔‘‘

   

فریدہ نامی ایک انگریز خاتون کے اشتراک سے انگریزی ماہنامہ ’’ دی ماڈرن گرل‘‘ شائع کیا۔ انگریزی میں معاشی و سیاسی مضامین بھی لکھے جو لاہور کے مشہور انگریزی روزنامہ ’’ٹریبون‘‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔  21 اپریل 1938ء کو علامہ اقبال ؒ کا انتقال ہوا تو انہوں نے اقبالؒ کی چند نظموں کے تراجم پیش کئے تھے۔تعلیم ختم کرنے کے بعد دماغ میں باغیانہ مواد کافی تھا۔ سوشلزم پر کافی کتابیں پڑھ چکے تھے۔ لاہور میں جتنے بھی نامور سوشلسٹ تھے ان سے مل چکے تھے۔ان ہی دنوں کہانیاں لکھنی شروع کر دیں۔  باضابطہ لکھنا شروع کیا تو ’’جہلم میں نائوپر‘‘ اور ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ لکھا۔ انہوں نے ’’یرقان‘‘ ادبی دنیا کو شائع کروانے کی غرض سے بھیجا تو مولانا صلاح الدین احمد نے عنوان پر اعتراض کیا تھا۔ لیکن پھر یہی عنوان برقرار رکھا۔ ان کا پہلا شائع شدہ افسانہ ’’یرقان‘‘ ہے جو ادبی دنیا، سالنامہ 1936ء میں شائع ہوا اس کے بعد ’’لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ (ہمایوں اگست 1935ء) ’’جہلم میں نائوپر‘‘ (ہمایوں جنوری 1937ء) میں شائع ہوئے تو ادبی حلقے چونک پڑے۔ پھر کرشن چندر نے ایک انشائیہ ’’ہوائی قلعے ہمایوں ستمبر 1937ء‘‘ لکھا۔ ہمایوں کے ایڈیٹر میاں بشیر احمد نے لکھا: ’’یہ شخص ہماری زبان کا ایک زبردست ادیب ثابت ہوگا‘‘۔

ادبی دنیا کے ایڈیٹر صلاح الدین احمد نے ان کی بہت ہمت افزائی کی اور ان کے افسانے شائع کئے۔ کرشن چندر متواتر لکھنے لگے۔ ان کی کہانیاں، ہمایوں، ادبی دنیا اور ادب لطیف میں شائع ہوتی رہیں۔ کرشن چندر نے حیرت انگیزی مقبولیت حاصل کرلی۔پہلا افسانوی مجموعہ ’’طلسم خیال‘‘ چودھری نذیر احمد نے 1939ء میں شائع کیا۔ افسانوی مجموعے کی اشاعت نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ان دنوں وہ اپنے بھائی مہندر ناتھ کے ساتھ ایک ہوٹل میں رہتے تھے اور بے کار تھے۔ ان کی ملاقات کنہیا لال کپور، اپندر ناتھ اشک اور راجندر سنگھ بیدی سے ہوئی۔ کرشن چندر نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی ادب کی نذر کر دیں گے۔

ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ وہ وکیل یا جج بنیں۔ کرشن چندر نے اپنی والدہ کی خواہش پوری کرنے کیلئے ایم اے ایل ایل بی کر لیا لیکن وہ وکیل یا جج نہیں بن پائے۔ لیڈری کرنا بھی ان کے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے قلم کو حصول معاش کا ذریعہ بنائیں گے پھر وہ متواتر افسانے لکھنے لگے۔ لاہور میں کرشن چندر کی ملاقات مولانا صلاح الدین احمد، مرزا ادیب ، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، عاشق حسین بٹالوی، دیو یندر سیتارتھی، ممتاز مفتی، فیاض محمود اور چوہدری نذیر احمد سے ہوئی۔

ان کا پہلا ڈرامہ ریڈیائی نوعیت کا تھا۔ جس کا عنوان ’’بیکاری‘‘ تھا جو 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے نشر ہوا تھا۔

تعلیمی زندگی ختم کرنے کے بعد وہ ڈیڑھ سال بے روزگار رہے۔ وہ ترقی پسند گروپ سے قریب ہوتے گئے۔1938ء میں جب پہلی بار ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کلکتہ میں ہوئی تو کرشن چندر نے پنجاب کی صوبائی انجمن کی نمائندگی کی۔ یہیں وہ سجاد ظہیر، پروفیسر احمد علی اور دوسرے نئے ادیبوں سے متعارف ہوئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین نے انہیں پنجاب کا سیکرٹری چنا۔

دوسری عالمگیر جنگ چھڑی تو آل انڈیا ریڈیو کو بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس خدمت کیلئے کئی بڑے ادیبوں کو ریڈیو اسٹیشن میں ملازمت دی گئی۔ پطرس بخاری (احمد شاہ بخاری) ڈائریکٹر جنرل تھے۔ کرشن چندر نے نومبر 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو لاہور میں پروگرام اسسٹنٹ کا عہدہ قبول کرلیا لیکن وہ اس ملازمت سے زیادہ خوش نہ تھے۔ انہیں اپنی شخصی آزادی کے کھونے کا غم تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ سرکاری نوکری کرتے ہوئے وہ آزادی سے لکھ نہ سکیں گے۔ ایک طرف محکمے کی پابندیاں اور دوسری طرف انگریزوں کا راج لیکن انہیں حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ اپنی اس ذہنی کیفیت کا اظہار کتاب ’’نظارے‘‘ کے انتساب میں بھی کیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

با با ناظر اور بونے

بابا ناظر ایک بوڑھا موچی تھا جو سارا دن سخت محنت کر کے جوتے بنایا کرتا تھا۔ایک بار سردیاں آئیں تو بابا ناظر ٹھنڈ لگ جانے کے باعث بیمار پڑ گیا۔اس کی بیماری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔

کیمرا کیسے کام کرتا ہے؟

جو لوگ کیمرے سے تصویریں بناتے ہیں، ان میں سے اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ تصویر کھینچنے کا عمل کس طرح واقع ہوتا ہے۔

ذرامسکرائیے

اُستاد (شاگرد سے): ’’پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے کوئی سے چار کے نام بتائو؟ شاگرد: ’’پہلے کا نام بتا کر،جناب دوسرا میں آپ سے پوچھنے والا تھا،تیسرا مجھے یاد نہیں اور چوتھا میری کتاب سے مِٹاہوا ہے‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

ایک بڈھے کے سر پر آگ گاتا ہے وہ ایسا راگ اس کے منہ سے نکلیں ناگجو تیزی سے جائیں بھاگ٭٭٭

ننھا گرمی سے گھبرایا

ننھا گرمی سے گھبرایا اُس دن شدت کی گرمی تھی دھوپ میں ہر اک شے جلتی تھی

حرف حرف موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ٭…سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کرے۔ ٭…عزت کمانا دولت کمانے سے زیادہ مشکل ہے جبکہ عزت گنوانا دولت گنوانے سے زیادہ آسان ہے۔